حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اخبار کے پہلے صفحہ پر شائع ہوئی افسوسناک خبر منگل کے دن سے ہی سوشل میڈیا پر وائرل تھی
’’بہاولپور سے تعلق رکھنے والے دو بھائی 11سالہ کامران اور 6سالہ رضوان ڈیفنس لاہور میں واقع ایک گھر میں ملازم تھے۔ بھوک لگنے پر انہوں نے فریج میں رکھا کھانا نکال کر کھایا۔ پھر مالکان کے بے رحمانہ تشدد سے 11سالہ کامران جاں بحق ہوگیا اور 6سالہ رضوان زخمی حالت میں ہسپتال میں داخل ہے۔ پولیس نے 5افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ 3پولیس کی تحویل میں ہیں اور 2 مفرور، جن کی تلاش جاری ہے‘‘۔
کل سے اس سانحہ پر کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ ایک سے زائد بار چند سطریں لکھیں پھر کاغذ ڈسٹ بن میں ڈال دیا۔ یہ سچ ہے کہ آدمی سے بڑا جانور اور درندہ کوئی نہیں۔
ہم اور آپ معصوم بچے کے قاتل یا قاتلوں کو بس درندہ کہہ کر چند مذمتی باتیں کہہ لکھ کر فرض سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ کیا اتنا کافی ہے کہ یہ چائلڈ لیبر اور تشدد و قتل کا کیس ہے۔ درندگی کا مظاہرہ ہوا، قاتل سفاک فطرت کے مالک تھے۔
بہت ادب سے عرض کروں ان میں سے کسی بات سے متفق نہیں ہوپارہا۔ گیارہ سالہ کامران کے قاتل صرف ڈیفنس لاہور کے ایک گھر کے پانچ افراد نہیں بلکہ پورا سماج اس قتل کا ذمہ دار ہے۔ سیاسی کارکن، ادیب، دانشور، مسجد کے مولوی صاحب، سماج سدھار سارے اس اور اس طرح کے اب تک ہونے والے قتلوں کے ذمہ دار ہیں۔
آپ کہیں گے غربت نے والدین کو چند ہزار روپے ماہوار کے عوض دو معصوم بچوں کو مشقت کے لئے درندوں کے خاندان کے حوالے کردینے پر مجبور کیا۔
معاف کیجئے گا اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں۔ ماضی میں تشدد سے ہلاک ہوئے محنت شک بچے ہوں یا گیارہ سالہ مقتول کامران، ان سب کے قتل کی ذمہ داری اس سوچ پر ہے کہ ہر آنے (پیدا ہونے) والا اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔
یہ وہ سوچ ہے جس نے آبادی کے اکثریتی حصے کو اپنے فرائض و ذمہ داریوں سے غافل کردیا ہے۔
مسجد کے مولوی صاحبان ناراض نہ ہوں تو عرض کرو پہلا فرض ان کا تھا کہ وہ محراب و منبر سے تلقین کرتے کہ ہر پیدا ہونے والے بچے کی دیکھ بھال، تعلیم و تربیت اور اسے معاشرے کے لئے کارآمد شہری بنانے کی ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔
جو والدین یہ ذمہ داریاں پوری نہیں کرسکتے انہیں اولاد پیدا کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ہوتا اس کے برعکس، محراب و منبر سے دو باتیں زیادہ تر ہوتی ہیں۔ ایک یہی کہ ہر آنے والا اپنا رزق ساتھ لاتا ہے، دوسرا اولاد نعمت ہے۔
دوسری بات پر پہلے بات کرلیتے ہیں۔ اولاد نعمت ہے تو گیارہ اور چھ سال کی عمر کی دو نعمتوں کو چند ہزار کے عوض بہاولپور سے ساڑھے چار سو کلومیٹر دور ڈیفنس لاہور میں مشقت کے لئے بھیج دینے والے کفران نعمت کے مرتکب ہوئے۔
نعمت پر تو شکر ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اولاد کی صورت میں ملی نعمت کی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوتی ہیں۔
اب آیئے پہلی بات پر۔ ہر آنے والا اپنے حصے کا رزق ساتھ لے کر آتا ہے۔ کبھی کسی بچے کے ہاتھ میں اخراجات کا چیک بھی ہوا وقت پیدائش؟
میری بیٹی کے ہاتھ میں تو بالکل نہیں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ میرے ہاتھ میں وقت ولادت کوئی چیک نہیں تھا۔ یہ بس رواج پاجانے والی متھ ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
آنے والے کے رزق کا بندوبست کرنے کے ذمہ دار اسے دنیا میں لانے والے والدین ہیں۔
اپنی ذمہ داری خدا پر ڈال دینے سے جرم کی سنگینی کم نہیں ہوجاتی۔
ایک وقت تھا جب اس ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کے خطرات کو بھانپ کر حکومت نے بہبود آبادی کا پروگرام شروع کیا تھا۔ تب لٹھ لے کر مولوی صاحبان حکومت پر چڑھ دوڑے تھے۔ بہبود آبادی کے پروگرام کو خدائی عمل میں مداخلت اور ناشکری قرار دیا گیا۔ ایسے ایسے فتوے دیئے گئے کہ اگر کوئی محقق محض بہبود آبادی کے پروگرام کے خلاف دیئے گئے ان فتوئوں کو جمع کرے تو تین چار دفتر بن سکتے ہیں۔
ہمیں آبادی میں بے دھڑک اور خوفناک رفتار سے ہوتے اضافے کو اس حالیہ سانحہ سے الگ کرکے بالکل نہیں دیکھنا چاہیے۔ بالکل اسی طرح ہر نئے شادی شدہ جوڑے کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے وسائل دیکھ کر اولاد کو دنیا میں لائے ورنہ گیارہ سالہ کامران اور چھ سالہ رضوان جیسی صورتحال ہی ہوگی۔
آبادی جس تیزرفتاری سے بڑھ رہی ہے یہ بم پھٹا تو اس سانحہ سے زیادہ خوفناک اور نقصان کا باعث ہوگا۔ عین ممکن ہے کہ آپ (پڑھنے والوں) کو میری بات بری لگے مگر عرض کئے بنا نہیں رہ سکتا کہ اگر والدین ایک یا دو بچوں کی کفالت کی استطاعت ہی رکھتے ہیں تو کوئی ضروری نہیں کہ جوڑیاں بنانے کے چکر میں امت بڑھاتے جائیں۔
بچے اتنے ہی اچھے جن کی دیکھ بھال تعلیم و تربیت آسانی اور وقار کے ساتھ ہوسکے۔
کسی دن اس ملک کے محروم طبقات کے لوگوں کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ محض بچے پیدا کرتے چلے جانے کی تسکین سے انہوں نے سماج کی کتنی خدمت کی؟
کچرے کے ڈھیر سے رزق تلاش کرتے بچے ہوں یا دکانوں، ہوٹلوں اور گھروں میں کھیلنے پڑھنے کی عمر میں مشقت کرتے بچے، کم از کم میں ان کے تاریک مستقبل کا مجرم ان کے والدین کو سمجھتا ہوں۔
گیارہ سالہ کامران کے قاتل درندے ہیں بے شک اس پر دو آراء ہرگز نہیں لیکن معصوم بچے کو درندوں کے غول کے سامنے پھینکنے کا مجرم کون ہے؟
معاف کیجئے گا گیارہ اور چھ سال کے بچوں کو ساڑھے چار سو کلو میٹر دور مشقت کے لئے بھیج دینا بھی شقاوت قلبی ہے۔ قاتلوں کی درندگی تو متقاضی ہے کہ انہیں نشان عبرت بنادیا جائے لیکن ان معصوم بچوں کے والدین اور ہم سب کو بھی سوچنا ہوگا کہ آخر یہ سب ہوا کیوں؟
پھر یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ قبل ازیں ایک بچی کو گرم استری سے داغنے، ایک بچے کو مرنے کے بعد بھی تشدد کا نشانہ بنانے کے واقعات اسی ملک میں ہوئے۔ کیا کیا کسی حکومت نے ماضی میں رونما ہوئے افسوسناک واقعات کے بعد؟
مکرر عرض ہے بچوں کو پالنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ میرے بس میں ہو تو میں کچرے کے ڈھیروں سے رزق چنتے بچوں اور گھر، دکان، ہوٹل یا ورکشاپوں پر مشقت کرتے نونہالوں کے والدین کے خلاف مقدمات درج کرائوں۔
وقتی جذبات میں آپ کو یہ بات بری لگے گی اور مجھے کوسنے لگیں گے مگر ٹھنڈے دل سے سوچئے جن بچوں کے کھیلنے پڑھنے کے دن محض چند ہزار روپے ماہوار کی کمائی پر چھین لئے جائیں ان بچوں کا مجرم کون ہے؟
ویسے ہونا تو یہ چاہیے کہ فریج سے کھانا نکال کر کھانے کے جرم میں بچے کو قتل کرنے والے پانچ درندوں کے سامنے مختلف انواع و اقسام کے کھانوں کا ڈھیر لگادیا جائے اور ان سے کہہ دیا جائے سزا سے بچنا ہے تو ان سارے کھانوں کو ختم کرو ایک لقمہ بھی بچا تو سزا ہوگی لیکن معاملات خواہشات پر تو نہیں چلتے نا ۔ یہ بھی دیکھ لیجئے گا اس کیس کا انجام ماضی کے ایسے واقعات کے مقدمات جیسا ہوگا۔ کچھ لو دو کے تحت کیس ختم اور قاتل کچھ عرصہ میں آزاد۔
کیا حکومت اس کیس کو ٹیسٹ کیس بناسکتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی عدالت ان قاتلوں کو ریلیف نہ دے۔
مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہو۔ ڈیفنس میں مقیم فیملی ہے اچھے سے اچھا وکیل کرے گی، مقتول بچے کے والدین کے پاس غربت کے سوا کیا ہے۔
مجھے ان سموں سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالبؑ کا ارشاد یاد آرہا ہے ’’غریب پیدا ہونا جرم نہیں بلکہ غریب رہنا جرم ہے‘‘۔ میں تو یہی سمجھ سکا ہوں کہ غریبی ختم کرنے کے لئے چوری ڈاکہ زنی فراڈ وغیرہ نہیں کرنا بلکہ اولاد اتنی ہی پیدا کی جائے جس کی تربیت اس کے زمانے کے مطابق ہو اور وہ معاشرے کا باوقار فرد بن کر سماجی زندگی کے ارتقا میں حصہ ڈال سکے۔
بار دیگر پڑھنے والوں سے معذرت خواہ ہوں لیکن کڑوا سچ یہی ہے کہ آنے والا اپنے حصہ کا رزق ساتھ نہیں لاتا بلکہ اسے دنیا میں لانے والے والدین اس کے رزق، تعلیم و تربیت اور انسان سازی کے ذمہ دار ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر