نومبر 9, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آپ بیتی سے اقتباس!(2)||ڈاکٹر مجاہد مرزا

ایک عینک والا جوان افسر یہ کہتے ہوئے کہ "سر پلیز بی کام، سر بی کام پلیز" میرے نزدیک آیا تھا اور جھٹ پٹ میری اوپر سے نیچے تک تلاشی لے کر میری جیب سے ہر چیز نکال لی تھی۔ پاسپورٹ، نتالیا کا لکھا ہوا دعوت نامہ، پیسے اور سگریٹ کی ڈبیا۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب گاڑی آبپارہ تھانے ( بعد میں معلوم ہو سکا تھا) کے احاطے میں پہنچی تھی تو خدا جھوٹ نہ بلوائے کہ میرے اترتے ہی پچاس پچپن کی نفری نے میرے گردایک بڑا گھیرا ڈال لیا تھا اور ہر طرف سے ہتھکڑیوں کی جھنکار اور ہتھیاروں کی ٹھنکار پیدا کی جانے لگی تھی۔ نجانے یک لخت میرے دماغ میں کیا آیا تھا کہ میں نے خلاف عادت بلند آواز میں پولیس والوں کو پنجابی زبان میں بے نقط ننگی گالیاں دینا شروع کر دی تھیں اور ساتھ ہی دہاڑ کر کہا تھا، ” تم نے کسی عام آدمی کو حراست میں نہیں لیا ہے۔ میں معروف تجزیہ نگار ہوں۔ (جی ہاں ان دنوں جنگ کے ادارتی صفحات پر ارشاد حقانی صاحب کے مضامین کے بعد ڈاکٹر مجاہد مرزا اور اکبرعلی ایم اے کے تجزیاتی مضامین پسند کیے جاتے تھے)۔ کل ہی تم لوگوں کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔ ابھی میرا گالیاں دینا بند نہیں ہوا تھا کہ ایک اور گاڑی پہنچی تھی جس میں سے گھبرایا ہوا مرزا افضل نکلا تھا۔ جونہی وہ میرے نزدیک آیا تھا میں نے فحش کلامی سے ایک لمحہ نکال کر، اسے چپکے سے کہا تھا،” جے پھینک دو”۔ "جے” ہم چرس کو کہا کرتے تھے۔ مرزا نے پھرتی کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔
ایک عینک والا جوان افسر یہ کہتے ہوئے کہ "سر پلیز بی کام، سر بی کام پلیز” میرے نزدیک آیا تھا اور جھٹ پٹ میری اوپر سے نیچے تک تلاشی لے کر میری جیب سے ہر چیز نکال لی تھی۔ پاسپورٹ، نتالیا کا لکھا ہوا دعوت نامہ، پیسے اور سگریٹ کی ڈبیا۔ یہ کام کرتے ہوئے اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا، ” میں اے ایس پی جنید ہوں سر”۔ پھر اس نے اونچی آواز میں پولیس والوں کو دور ہٹ جانے کو کہا تھا اور بڑی تعظیم کے ساتھ کہا تھا، "چلیے، سر چلیے”۔ میں بھی معاملے کو بھانپ کر شانت ہو گیا تھا۔ تھانے کے اندرونی برآمدے میں چلتے ہوئے مرزا نے مجھ سے کہا تھا،” یار تم نے بڑی جرات مندی کا مظاہرہ کیا”۔ میں نے جواب میں اسے کہا تھا،” اسی میں ہماری بھلائی ہے”۔ ایک کمرے کے نزدیک پہنچ کر اپنا نام جنید بتانے والے نے ایک انسپکٹر قسم کے اہلکار سے کہا تھا، "ان کو جا کر بٹھائیں”۔ اور خود اس کمرے میں گھس گیا تھا۔ دو کمرے چھوڑ کر اگلے کمرے میں ہمیں لے جایا گیا تھا جو بڑا سا کمرہ تھا اور بظاہر اہلکاروں کی خواب گاہ معلوم ہوتا تھا کیونکہ دو ایک چارپائیاں بھی بچھی ہوئی تھیں۔ ایک بے وردی شخص نے ایک کرسی کھینچ کر آگے کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا، "تشریف رکھیں سر” اور مرزا کو سامنے پڑے ہوئے بنچ پر بیٹھنے کو کہا تھا جس پر پہلے ہی ایک اہلکار بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں موجود چارپانچ افراد میں سے کسی نے بھی وردی نہیں پہنی ہوئی تھی۔ ویسے بھی رات کا ایک ڈیڑھ بج رہا تھا۔
ہمیں بیٹھے ہوئے ابھی آدھ گھنٹہ ہی گذرا تھا کہ ایک لمبا تڑنگا کشمیری قسم کا جوان شخص داخل ہوا تھا جس نے شلوار اور لمبی قمیص پہنی ہوئی تھی۔ میں نے اسے پہچان لیا تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس سے مرزا افضل نے گلی کے بارے میں دریافت کیا تھا۔ اس نے بہت خوش چہرے کے ساتھ اس زمانے میں عطااللہ عیسٰی خیلوی کامعروف گیت ۔ ۔ مارو سنگلاں نال کو مارو چھتراں نال کے الفاظ سے گاتے ہوئے معنی خیز انداز میں ہم دونوں کی جانب دیکھا تھا۔
وہ اپنی کارکردگی پر نازاں دکھائی دے رہا تھا۔ مجھ سے اس کا یہ انداز برداشت نہیں ہوا تھا ۔ میں نے کرسی سے اٹھ کر ایک ہی جست میں اس کا گریباں پکڑ کر اسے اوپر کی جانب ایسے کھینچا تھا کہ اس لمبے آدمی کی ایڑیاں اٹھ گئی تھیں اور میں نے غضبناک لہجے میں کہا تھا،” تم نے اس طرح کے لفظوں کے ساتھ یہ گانے کی جرات کیسے کی؟” اس کی تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں اور آئیں بائیں شائیں کرنے لگا تھا۔ وہاں بیٹھے ہوئے دیگر افراد نے اٹھ کر میری منت سماجت کرتے ہوئے اس کا گریبان چھڑایا تھا، ایک بولا تھا،” اس سے غلطی ہو گئی سر”۔ دوسرے نے سختی کے ساتھ کہا تھا،”شاہد تم باہر جاؤ” یعنی اس کا اصلی یا نقلی نام شاہد تھا۔ وہ تیزی کے ساتھ باہر نکل گیا تھا اور باقی لوگ سرکاری فرض ادا کرنے کی مجبوری کا راگ الاپتے ہوئے معذرت خوہانہ رویہ اختیار کیے ہوئے تھے۔
میں ان سے اپنے انداز میں باتیں کر رہا تھا مگر مرزا افضل سگریٹ پر سگریٹ پھونکے جا رہا تھا اور پریشان تھا۔ بار بار ان لوگوں سے کہہ رہا تھا کہ مجھے گھر فون تو کروا دیں۔ بالآخر میں نے ذرا سخت لہجے میں اسے چپ رہنے کو کہا تھا۔
خاصا وقت گذرنے کے بعد برآمدے میں بھاگ دوڑ سنائی دینے لگی تھی اور جس کمرے میں ہم تھے وہاں سے بھی ایک آدمی یہ کہتے ہوئے کہ صاحب ا گئے ہیں، باہر نکل گیا تھا۔ تھوڑی دیر میں ایک داڑھی والا پولیس انسپکٹر کمرے میں داخل ہوا تھا اور مجھ سے کہا تھا،”آئیں سر”۔
میں اس کے ساتھ ایک اور کمرے میں پہنچا تھا جس میں وردیوں میں ملبوس دو چار اور انسپکٹر، سب انسپکٹر ایستادہ تھے۔ بغلی کمرے میں داخل ہوئے تو ایک بارعب افسر جو غالبا” ایس پی تھا، میز کے اس طرف بیٹھا ہوا تھا ، جس نے ہاتھ کے اشارے سےمجھے اپنے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھنے کو کہا تھا۔ جب میں بیٹھ گیا تو وہ بولا تھا، "دیکھیں جی، ایک تو آپ نے شراب پی ہوئی ہے، دوسرے آپ ایک دشمن ملک کے سفارت کار کے گھر گئے تھے اور اس کی کار سے نکلے تھے، یہ دونوں سنگین جرم ہیں۔ آپ کے بارے میں تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ جو آپ کے ساتھ آدمی ہے اس کی تو ہمیں ایک بڑے عرصے سے تلاش تھی۔ یہ خاد کا آدمی ہے اور خطرناک دہشت گرد ہے”۔ میں مسکرا دیا تھا اور کہا تھا کہ جناب یہ تو "حیش بم” کے علاوہ اور کوئی بم نہیں چلا سکتا”۔
پھر میں نجانے کیوں جذباتی ہو گیا تھا، شاید اس لیے کہ وہ مجھے ملک دشمن لوگوں سے تعلق کے سبب غیر محب وطن ہونے کا اشارہ دے رہا تھا۔ میری اواز بھرّا گئی تھی اور میں نے کہا تھا،” میں بے حد محبّ وطن شخص ہوں۔ میں روس جانے کا خواہاں ہوں۔ اگر آپ میری حب الوطنی کو آزمانا چاہتے ہیں تو میری اعانت کریں۔ میں اپنے ملک کے لیے وہاں سے ہر طرح کی معلومات اکٹھی کروں گا”۔ میرے اس جذباتی بیان سےاس کا مجھے مرزا سے ڈرانے والا حربہ غلط اور غیر کارگر ہو گیا تھا۔
اس نے کہا تھا ” آپ لکھ دیں”۔ میں سمجھا تھا کہ جو میں نے ابھی کہا ہے وہ مجھ سے تحریری رضامندی لینا چاہتا ہے اس لیے پوچھا تھا کہ کیا لکھ دوں۔ "وہی کچھ جو آج ہوا، سفارت کار کے ہاں جانے سے لے کر حراست میں لیے جانے تک کے واقعات” اس نے کہا تھا۔ دھت تیرے کی۔ مجھے ایسا کرنے میں بھلا کیا عار تھی۔ میں نے من و عن سب لکھ دیا البتہ لفظ "شراب” کی جگہ میں نے "کولڈ ڈرنکس” لکھا تھا اور اس کاغذ پر دستخط کرکے ہدایت کے مطابق داڑھی والے انسپکٹر کو دے دیا تھا جو مجھے واپس اسی کمرے میں چھوڑ گیا تھا جہاں سے لے گیا تھا۔
تھوڑی دیر کے بعد مرزا بھی لوٹ آیا تھا۔ اس نے میرے استفسار پر بتایا تھا کہ اس سے کہا گیا تھا، تمہارے ساتھی (یعنی میں مجاہد مرزا) کے ہاں تو بموں کے انبار لگے ہوئے ہیں اور ہمیں اسی کی تلاش تھی”۔ مجھے ان کے اس پھسپھسے انداز تفتیش پر افسوس ہوا تھا۔
اب بہت وقت گذر چکا تھا۔ جو لوگ ہمارے پاس بیٹھے ہوئے تھے وہ اس اثناء میں ایک خاص طریقے سے مختلف سیاسی مسائل پر میرا نکتہ نظر سننے کی کوشش کرتے رہے تھے جس میں بالخصوص تب صدّام حسین کی عالم اسلام میں حیثیت کے تعیّن کا مسئلہ تھا۔ خلیج کی پہلی جنگ کے دوران صدّام حسین کو "مجاہد اسلام” کے طور پر پیش کیا جاتا رہا تھا اور میں اس کے خلاف کچھ بھی کھل کر بولنے سے قاصر رہا تھا۔ اب مجھے موقع ملا تھا۔ میں جتنا اس کے خلاف بول سکتا تھا بولا تھا اور سننے والے بھی میری باتیں دھیان سے سنتے رہے تھے۔ پھر وہ لوگ چلے گئے تھے جو غالبا” انٹیلیجنس بیورو یعنی آئی بی کے لوگ تھے کیونکہ چہرے مہرے اور روّیے سے کچھ ذہین لگتے تھے۔
ان کے جاتے ہی تین چار آدمیوں پر مشتمل ایک نئی ٹیم تفتیش کے لیے پہنچی تھی۔ مجھے لگا تھا کہ یہ گاؤدی سے لوگ ملٹری انٹیلیجنس کے ہو سکتے ہیں۔ ان کے بیٹھتے ہی میں نے ان کی زندگیوں سے متعلق بات یوں شروع کی تھی،”تم لوگوں کی زندگیوں میں تو جھوٹ ہی اوڑھنا بچھونا ہے۔ تم خود سے، گھر والوں سے تاحتٰی اپنے بچوں تک کے ساتھ جھوٹ بولتے ہو۔ تم لوگوں کی زندگیاں انتہائی قابل رحم اور افسوسناک ہیں”۔ میں نے ان کی دکھتی رگ پر دیکھ بھال کر اس طرح ہاتھ رکھا تھا کہ وہ کسمساتے رہیں اور اپنی جانب سے کچھ بھی نہ پوچھ سکیں۔
اسی اثناء میں اس افسر کی آمد آمد کا غلغلہ بلند ہوا تھا۔ جب میں افسر کے ہاس سے لوٹا تھا تو لگتا تھا جیسے وہ لوگ خود تھکاوٹ ک شکار ہو چکے ہوں اگرچہ آنکھیں کھلی رکھ کر مستعد دکھائی دینے کی اداکاری ضرور کر رہے تھے۔ مرزا کو نیند آ رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا تھا کہ وہ بنچ پر نیم دراز ہو کر آنکھ لگا لے۔ میں البتہ خود کرسی پر ڈٹا رہا تھا۔ مجھے گمان تھا کہ اگر ہم دونوں سو گئے تو یہ ہمیں خالص پولیس والوں کے طریقے سے ٹھڈّے مار مار کر اٹھائیں گے اور تب تفتیش کوئی اور رنگ اختیار کر سکتی ہے۔ اس لیے میں نے آنکھ لگانے سے گریز کیا تھا۔
(آپ بیتی سے اقتباس)

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author