ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پریکٹس کم ہونے، سیاست کو زیادہ وقت دیے جانے، اہلیہ کے ساتھ اختلافات بڑھنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے ذہنی تشنّج کو کم کرنے کی خاطر رات کو شراب کا سہارا لینے کے اس دور ابتلاء میں مظہر گورمانی اپنی نوجوان یوکرینی بیوی نتالیا کے ہمراہ مجھے ملنے مریدکے پہنچا تھا۔ نتاشا اچھی لڑکی تھی۔ بات بات پر کھلکھلا کر ہنستی تھی۔ ہرچیز اور ہر عمل کو بغور بھانپتی تھی۔ جب اس کے ساتھ چوبارے میں بیٹھ کر چرس پی تھی تو اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تھا "کریشے پائیے خلا”۔ یہ روسی زبان کا پہلا فقرہ تھا جو نتاشا نے انگریزی میں مجھے سمجھایا تھا یعنی چھت کے بل چلنا۔ مطلب یہ کہ مدہوش ہو کر یوں محسوس کرنا جیسے پاؤں زمین کی بجائے چھت پر ہیں، سر نیچے اور چل رہے ہیں مگر اس کا اصل مطلب ہے نشے سے "گھوم جانا”۔
ان کے چند روزہ قیام کے دوران دو ایک بار میری اور میمونہ کی لڑائی بھی ہوئی تھی۔ میں نے ایک عرصے کے بعد ہوئی اس ملاقات میں اسے اپنے دکھڑے بھی سنائے تھے۔ وہ میرے بارے میں پریشان ہو گیا تھا۔ ایک روز اس نے سنجیدگی سے کہا تھا، "ڈاکٹر صاحب، آپ میرے پاس ماسکو سیر کرنے کے لیے آ جائیں۔ آپ پرسکون ہو جائیں گے۔ شاید آپ کی غیر موجودگی میں بھابی میمونہ بھی اپنے رویّوں پر نظر ثانی کر لے”۔ میں نے جواب میں کہا تھا،”مجھے تو یہ تک معلوم نہیں کہ ماسکو جانے کے لیے ویزا کیسے لیا جائے؟” جبکہ میرے لیے ویزا لینا مشکل نہیں تھا کیونکہ میں اپنے طور پر روس کے سفارت خانے کے "کلچرل اتاشی” کو جانتا تھا بلکہ ان کے ہاں بیوی بچوں کے ہمراہ مہمان بھی گیا تھا مگر وہ تعطیلات پر روس گئے ہوئے تھے۔ ایک اور غیرملکی سفارت کار جس سے میں چھپ چھپا کر ملا کرتا تھا وہ افغانستان کے سفارت خانے کا آقائی ضمیر تھا۔
مظہر نے کہا تھا کہ ویزا حاصل کرنا دشوار نہیں۔ نتاشا آپ کو روسی زبان میں "دعوت نامہ” لکھ کر دے دے گی، آپ وہ دکھا کر روس کے سفارت خانے سے ویزا لے لیں گے”۔ میں نے ضمیر کو فون کیا تھا کہ میں روس کا ویزا لینے کی غرض سے تمہارے پاس پہنچ رہا ہوں، تم اس سلسلے می میری مدد کروگے۔ اس نے کہا تھا "چشم”۔ فارسی کے اس لفظ کو ہم بالعموم "بسر و چشم” بولتے ہیں۔
ایک روز بعد میں نتاشا کے ہاتھ کا لکھا کاغذ کا پرزہ لے کر راولپنڈی چلا گیا تھا۔ راولپنڈی میں میرا قیام ہمیشہ سیٹلائٹ ٹاؤن میں خانہ فرہنگ ایران کے سامنے واقع مرزا افضل کی کوٹھی میں ہوا کرتا تھا۔ میں شام کے کوئی چھ بجے کے قریب مرزا افضل کی رہائش گاہ پر پہنچا تھا۔ بیل بجانے پر اس کی والدہ نے دروازہ کھولا تھا۔ مرزا کے بارے میں استفسار پر انہوں نے بددلی کے ساتھ کہا تھا، "اللہ جانے کتھے وے”۔ میں نے کہا تھا،”خالہ جی میرا بیگ رکھ لیں۔ میں اسلام آباد جا رہا ہوں۔ رات کو آ جاؤں گا”۔ میں بیگ ان کے حوالے کرکے کوٹھی کے دروازے سے نکلا تو مجھے سامنے سے چادر کی بکّل مارے مرزا آتا دکھائی دیا تھا۔ میں رکا نہیں تھا۔ جب ہم قریب پہنچے تو میں نے اس سے مصافحہ اور معانقہ کرنے کے بعد اسے بتایا تھا کہ میں کسی کام کے سلسلے میں اپنے افغان سفارت کار دوست کے پاس جا رہا ہوں۔ مرزا نے پوچھا تھا کہ جہاں تم جا رہے ہو کیا وہاں شراب بھی میسّر ہوگی؟ میں نے کہا تھا کہ معلوم نہیں مگر امکان تو ہے۔ اس نے کہا تھا،” چلو یار ایک "سگریٹ” پی لیتے ہیں، میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا”۔
میں اسے اپنے ہمراہ لے جانا نہیں چاہتا تھا لیکن صاف انکار کرنا بھی خلاف اخلاقیات تھا۔ ہم نے اس کے "حجرے” میں بیٹھ کر وہ سگریٹ پیا تھا۔ ویسے تو مرزا جب نہانے کی غرض سے غسل خانے میں گھستا تھا تو وہیں کا ہو کر رہ جایا کرتا تھا لیکن اس بار وہ نسبتا” کم وقت میں نہا کر نکل آیا تھا۔ اس کے تیار ہونے کے بعد ہم دونوں گھر سے نکلے تھے اور مری روڈ سے ویگن میں سوار ہو گئے تھے۔ مرزا تو مصر تھا کہ ٹیکسی پر چلتے ہیں۔ جب ہم آب پارہ پہنچ کر ویگن سے نکلے تھے تو مرزا نے میرے منع کرنے کے باوجود ٹیکسی پکڑ لی تھی۔ آقائی ضمیر جس گلی میں رہتا تھا اس کے آاز پر گڑے "سنگ شناخت” پر حرف و اعداد کچھ مٹ سے گئے تھے۔ اندازے سے گلی میں مڑنے کے بعد میں نے شک ظاہر کیا تھا کہ شاید یہ وہ گلی نہیں ہے۔ مرزا نے ٹیکسی کی کھڑکی سے سر باہر نکال کر سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے ایک لمبے تڑنگے شخص سے پوچھا تھا آیا گلی نمبر فلاں یہی ہے؟ میں اس کی اس حرکت پر بہت سٹپٹایا تھا مگر چپ رہا تھا۔ جب ٹیکسی ضمیر کے گھر کے باہر رکی تھی تو مرزا نے کرایہ دینے پر اصرار کیا تھا۔ میں یہ کہہ کر کہ کرایہ ادا کرو اور تیزی سے گھر میں داخل ہو جاؤ، خود گھر کے اندر چلا گیا تھا۔ مرزا ٹیکسی سے نکل کر ٹیکسی والے سے بھاؤ تاؤ کر رہا تھا۔ ایک دوبار میں نے اسے جلدی اندر آنے کے لیے اشارے بھی کیے تھے لیکن مرزا تو سارے ہی مرزاؤں کی طرح اپنی مرضی کا مالک تھا۔ میں نے اندر جا کر گھر کے اندر والی گھنٹی بجائی تھی۔ اوپر والی منزل سے ضمیر کی بیوی نے پوچھا تھا "کی اے؟” یعنی کون ہے۔ "من ام خانم” (میں ہوں خانم) میں نے جواب دیا تھا لیکن وہ دروازہ کھولنے کے لیے نہیں اتری تھیں۔ اس اثناء میں مرزا افضل بھی اندر پہنچ کر میرے نزدیک کھڑا ہو گیا تھا۔ جب میں نے دوسری بار گھنٹی بجائی تو ضمیر کی بچی نے پوچھا تھا "کی اے؟” تو میں نے کہا تھا ” من عمو ہستم دختر، در را باز کن” ( میں انکل ہوں بیٹی، دروازہ کھولو)۔ ایک بار پھر خاموشی چھا گئی تھی۔ تیسری بار گھنٹی بجانے پر جب ضمیر نے خود پوچھا تھا تو میں برس پڑا تھا کہ بھائی آخر معاملہ کیا ہے؟ تقتیش پر تفتیش ہو رہی ہے، دروازہ پھر بھی نہیں کھولا جا رہا۔ تھوڑی دیر میں چہرے پر خجل سی مسکراہٹ سجائے ضمیر نے خود دروازہ کھول کر کہا تھا کہ یہ سامان بندھا ہوا دیکھ رہے ہیں آپ۔ کل ہی ہمارا ایک بڑا سفارت کار افغان مجاہدین کے ساتھ جا ملا ہے۔ مجھے ناپسندیدہ سفات کار قرار دے کر بہتر گھنٹے کی مہلت دی گئی ہے کہ آپ کا ملک چھوڑ جاؤں۔ ہم پر کڑی نگرانی ہے۔ میں نے مناسب نہیں جانا تھا کہ آپ کو فون پر اطلاع کردوں کیونکہ میرے فون پر آبزرویشن لگی ہوئی ہے۔ میرا ماتھا ٹھنکا تھا کہ مرزا نے جس آدمی سے راستے کی صحت سے متعلق استفسار کیا تھا وہ ایجنسی کا آدمی تھا اور اب مجھے بے حد محتاط ہونا ہوگا۔ ضمیر کے ہاں تو ہم آ ہی گئے تھے۔ اب جانا مہم تھا۔ میں سوچوں میں ڈوب گیا تھا۔ ضمیر نے ہمارے سامنے "بکارڈی” کی بوتل رکھی اور خود تیار ہو کر باہر نکلتے ہوئے کہا تھا کہ میں آپ کے لیے تکّے وغیرہ لے آؤں چونکہ ہم نے تو پکانے کے برتن تک باندھے ہوئے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ نکل گیا تھا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب ہم لڑکیاں پھانس کر لانے اور شراب نوشی سے گریز کرنے لگے تھے۔ یہ ایک عارضی حفاظتی لائحہ عمل تھا۔ روس کے بارے میں بہت مشہور ہے کہ وہاں جنسی عمل کے حصول میں نہ صرف سہولت ہے بلکہ ایسا عمل بے حد فراواں بھی ہے۔ بعض اوقات تو روس سے آنے والے "سیاحتی رومانویت” بارے مبالغہ آرائی پر مبنی حکایت کو کچھ زیادہ ہی بڑھا دیا کرتے تھے۔ شاید ایاز امیر صاحب کو یاد بھی نہ ہو بلکہ یقینا” یاد نہیں ہوگا کہ غالبا” 1988 کی خزاں میں "ویوپوائنٹ” کے دفتر میں ظفریاب کے پاس ہونے والی ایک ملاقات میں انہوں نے کہا تھا کہ "میں ماسکو میں ڈن ہل کی صرف ایک سگریٹ کے بدلے میں ایک لڑکی کے ساتھ مجامعت سے لطف اندوز ہوا تھا”۔ مجھے اس غیر منطقی سی بات پر تھوڑا سا غصہ آیا تھا اور میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ "جناب اس سگریٹ کے ساتھ آپ بھی منسوب تھے جس نے وہ سگریٹ اس لڑکی کو پیش کی تھی، ممکن ہے آپ اسے پسند آ گئے ہوں”۔ ڈن ہل اور روسی لڑکیوں کا قصّہ کہیں دماغ میں چپکا ہوا تھا۔ شاید اسی لیے میں پاکستان سے ڈن ہل کے دو ڈبے لیتا گیا تھا جن میں کی ساری ڈبیاں میں نے یونیورسٹی کی طالبات میں بانٹ دی تھیں، ماسوائے ان کی جانب سے شکریہ ادا کیے جانے کے اس "سخاوت” کا کوئی اور نتیجہ برآمد نہیں ہوا تھا۔ روس میں کچھ ماہ گذارنے کے بعد ہی معلوم ہو سکا تھا کہ درحقیقت سیکس روسی لوگوں کے ایجنڈے پر ہم لوگوں کی طرح نہیں ہے جس کے بارے میں سوچتے ہوئے، خواب بنتے ہوئے، تخئیل باندھتے ہوئے اور منصوبہ بندی کرتے ہوئے وہ وقت ضائع کریں اور حاصل کچھ بھی نہ ہو۔ سیکس ان کے لیے باقی تمام ضروریات کی طرح ہے جسے پانے کی خاطر تگ و دو اور تلاش بسیار کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ بس اگر ایک فریق دوسرے فریق کو پسند کرتا ہے اور دوسرا فریق بھی اس کے لیے مثبت جذبات رکھتا ہے تو جسمانی تعلقات قائم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا جاتا۔ یہ بات نہیں کہ لڑکیاں سب کے اگے بچھی جاتی ہوں اور لڑکے سب پر ریجھ رہے ہوتے ہوں، وہاں بھی ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی جاتی ہے لیکن محبت کے بارے میں رویہ کسی حد تک عملیت پسندانہ ہوتا ہے جس کا اظہار ایک روسی محاورے میں ہوتا ہے کہ "محبت تو آتی جاتی رہتی ہے پر کھانے کی احتیاج ہمیشہ رہتی ہے”۔
(آپ بیتی سے اقتباس)
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر