ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالم بالا کو گئے ابا کے نام خط
ابا، مجھے اس روز اتنی حیرت ہوئی تھی جب آپ ٹامی اور جیمی کو نہلانے نہر پر لے جا رہے تھے۔ چونکہ ہم سب آپ سے ڈرتے تھے شاید اس لیے کہ جونہی آپ ایک عرصے کے بعد اپنے کاروباری مقام سے گھر آتے تو اماں کہتی ” قل ہو اللہ پڑھو تمہارا باپ آ رہا ہے ” میں کبھی کبھار آپ کو اور شیطان کو ایک سا سمجھ لیا کرتا تھا کیونکہ اماں شیطان سے بچنے کی خاطر بھی اسی سورت کا ورد کرنے کو کہا کرتی تھیں۔ تو میں بات کہہ رہا تھا آپ سے اپنے متحیر ہونے کی جس میں تھوڑی سی نفرت بھی شامل ہو گئی تھی۔ میں چونکہ چھپ چھپ کے آپ کے پیچھے پیچھے گیا تھا اس لیے آپ مجھے دیکھ نہیں پائے تھے۔ ٹامی بہت زیادہ بھونک رہا تھا آپ نے اسے سوقیانہ الفاظ میں وہ کہا تھا جو آج ہندوستانی فلموں کی وجہ سے پھٹنے کے حوالے سے گھروں میں بظاہر شریف لڑکیاں بھی باپ بھائیوں کے سامنے کہنے لگی ہیں مگر ہمارے گھر میں جو اصل میں اماں کے زیر اثر تھا ماسوائے الو، گدھا کے کوئی بھی برا لفظ کہنا ممنوع تھا۔
آپ کو تو معلوم ہی نہیں، میں ایک روز باہر سے کوئی ” گندی گالی ” سن آیا تھا اور گھر آ کے بول دی تھی۔ اماں نے چولہے میں دہکتے انگاروں میں ایک چمٹے میں پکڑ کے میرے منہ کے نزدیک کیا تھا اور چیخ چیخ کے کہا تھا ” کھولو منہ، اس میں آگ ڈالوں”۔۔ میں بہت ڈرا تھا، رویا تھا، معافی مانگی تھی اور پھر تب تک گالی نہیں دی جب تک میں میڈیکل کالج میں نہیں پہنچ گیا تھا۔
کتے کو برا لفظ کہنے سے آپ میرے دل سے کچھ اور اتر گئے تھے۔ یہ بات تب کی ہے جب میں چھ سال کا ہوں گا۔ مجھے اتنا یاد آتا تھا کہ طرہ پہنے ہلکی داڑھی مونچھ والا ایک شخص بڑے بڑے گھوڑوں پر بیٹھ کے آتا ہے، اس نے کتے رکھے ہوئے ہیں جسے ہم ابا کہتے ہیں۔ وہ جب بھی آتا ہے غصے میں ہوتا ہے۔ کھانا پسند نہ آئے تو بھری پلیٹ یوں پھینکتا ہے کہ پچاس فٹ دور جا کے دیوار سے لگتی تھی۔
پھر آپ کا کاروبار ختم ہو گیا۔ آپ شہر کے متمول شخص سے عام آدمی ہو گئے جسے شہر کے ایک اور متمول نے اپنی عمارات کی تعمیر کی نگرانی کی پیشکش کی تو آپ کو قبول کرتے بنی۔
لیکن اس دوران آپ ہمارے قریب آ گئے تھے۔ آپ کو اپنے بچوں سے پیار تھا اور بیوی سے نفرت۔ آپ مجھے اور چھوٹے بھائی کو کبھی کبھار نہلاتے بھی تھے۔ جب ہمارا بدن ملتے تو گٹر گٹر کی آواز آتی۔ ہمیں آپ کے ہاتھوں سے نہانا پسند تھا کہ گٹر گٹر کرکے نہلاتے ہیں ۔
میں ساتویں میں تھا اور اویس پانچویں میں ۔ مجھے یہ سمجھ آ چکی تھی کہ آپ کی اور اماں کی اس لیے نہیں بنتی کہ آپ پنجابی بولتے اور تہمد پہنتے ہیں جبکہ اماں اردو بولتیں، پہننے میں با ذوق اور پڑھنے و تلقین کرنے کی شوقین۔ آپ کو پنجابی اڑب کہتیں، صرف ہمارے سامنے۔ تو ہوا یوں کہ کاروبار جو آپ کے ہاتھ سے چھن چکا تھا، سے وابستہ ایک بڑی عمارت کے ایک کمرے بلکہ کوٹھڑی میں آرام کرنے کو لیٹے ، آپ کو فالج ہو گیا۔ ایک عورت نے آ کے بتایا کہ حکیم جی کو فالسہ ہو گیا۔ اماں کے کہنے پہ ہم دونوں بچے گئے تو آپ کوٹھڑی میں ایک چارپائی پر اکیلے لیٹے تھے۔ ہمیں دیکھ کے آپ کی دونوں آنکھوں میں ایک ایک آنسو جھلملایا تھا۔ آپ بول نہیں سکتے تھے۔
آپ کا علاج ہوا آپ مشکل سے چلنے اور اٹک اٹک کے بولنے کے قابل ہوئے تھے۔ آپ نے ہماری سوری کم از کم میری اور چھوٹے بھائی کی تربیت و پرورش میں ہبہ بھر حصہ نہیں لیا تھا۔
پھر ایک روز جب میں فوج میں ڈاکٹر کپتان تھا اور ایک ایکسیڈنٹ میں ٹوٹے ہاتھ کے غلط جڑنے کے سبب بیہوشی کے تحت پھر سے توڑ کے ہاتھ پر پلستر کے ساتھ لیٹا تھا, ابھی بیہوشی کی دوا کی غنودگی طاری تھی کہ میرا لانس نائیک میل نرس رانا اختر نشتر ہسپتال میں جہاں میں نے سی ایم ایچ پر بداعتمادی ظاہر کرکے غلط جڑی ہڈیوں کا آپریشن کروایا تھا۔ کے میرے کمرے میں پہنچا تھا۔ اس سے بولا نہیں جا رہا تھا مگر میں سمجھ گیا تھا اور کہا تھا،” میرا باپ مر گیا نا؟”
جی سر کہہ کر وہ رونے لگا تھا۔ میں نے اسے تسلی دی تھی اور کہا تھا کہ چلو چلیں ۔اختر میری موٹرسائیکل پہ ہی تھا۔ میں اس کے پیچھے بیٹھ گیا تھا اور ہم چل دیے تھے۔ مظفرگڑھ یہ سوچ کر کہ موت والے گھر میں کھانا نہیں ہوگا میں نے قنوان ریستوران میں اختر کو کھانا کھلایا تھا، خود بھی دو چار لقمے لیے تھے۔
جب میں گھر پہنچا تو عورتوں نے اماں کی سونے کی بالیاں اور سونے کے بٹن اتارے ہوئے تھے۔ میں دہاڑا تھا کہ میرا باپ مرا ہے، ہم زندہ ہیں۔ پہناو واپس۔ ” بہت برا ہے ” کسی عورت نے کہا تھا اور بالیاں و بٹن پہنا دیے تھے۔
میں آپ کے جنازہ میں شرکت کرنے مسجد پہنچا تھا۔ آپ کی لاش کے پاس بیٹھ کر مجھ سے اٹھا نہیں جا رہا تھا۔ کسی نے اٹھا کر مجھے صف میں کھڑا کر دیا تھا۔ پھر میں لڑکھڑاتا، قبرستان تک گیا تھا۔ میں آپ کو بلکہ آپ کی لاش کو قبر میں اترتے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ جونہی سنا آپ کی بہن یعنی بوا لاہور سے پہنچی ہیں اور آپ کا چہرہ دیکھنا چاہتی ہیں ، میں انہیں لانے کا بہانہ کرکے قبرستان سے بھاگ نکلا تھا۔
پھر رات کو اس شہر میں جہاں ہم شاید ہی بازار جاتے تھے۔ ایک دکان کے اوپر چوبارے میں فرمائش کرکے منگوائی، پی کر میں سنسان بازار میں آپ کی بڑائی کے بین کر کر کے دھاڑیں مار کے رویا تھا۔۔ میرا باپ مر گیا یار میرا باپ مر گیا۔
حالانکہ آپ فالج کے بعد عملی طور پر مر چکے تھے۔
مگر میں آپ کا بے حد شکر گذار ہوں کہ آپ کے اور اماں کے دیے گئے جینز کے سبب میں اس قابل ہوا کہ بہت سے لوگ آپ کے بیٹے کو مجاہد مرزا کے نام سے جانتے ہیں۔۔۔ ایک آخری بات بتا دوں کہ آپ کے جانے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ میں آپ سے پیار کرتا تھا اور جس ماں نے مجھے آپ کا مخالف کیا میں ان کے خلاف ہو گیا تھا اور آپ کے چلے جانے کے دوچار برس بعد ان سے آپ دونوں کے تعلقات اور رنجش سے متعلق کئی بار بحث بھی کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر