رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہفتے کی صبح پنجاب کے انتہائی جنوبی علاقوں کے کچھ دیہات میں گزری۔ فون ہمیشہ کی طرح بند رکھا۔ لوگوں سے ملنے جائیں تو ہماری تہذیبی روایات کے خلاف ہے کہ گھنٹی بجتی رہے اور آپ بات چیت بھی کرتے رہیں۔ تقریباً چار گھنٹے موٹر سائیکل کی سواری کی۔ اتنی سخت گرمی اور حبس کہ بیان سے باہر۔ کسی کا کوئی قریبی فوت ہوجائے تو جب ہی یہاں کا ہر چند ماہ بعد چکر لگتا ہے۔ تعزیت کے لیے حاضر ہوتا ہوں۔ اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔ گیارہ بجے غریب خانے پر واپسی ہوئی۔شام تک خود کو گھر میں بند کرلیا۔ اس کے بعد فون پر نظر پڑی اور اخبارات کی سرخیاں دیکھنے لگا۔ایاز امیر صاحب پر حملے کی خبر پڑھی تو دل دھک سے بیٹھ گیا۔ اب لگتا ایسے ہی ہے کہ اس ملک میں لکھنے اور بولنے والے جو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں‘ محفوظ نہیں۔ ویسے تو لکھنے والوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے لیکن ایاز امیرصاحب دل کی بات کرتے ہیں۔ وہ کسی کے ہرکارے نہیں۔ آزاد منش‘ آزاد خیال‘ اور آزادی پسند۔ ایسے لوگ ملک میں گنے چنے ہی ہیں۔
ایاز امیر صاحب سے میری ملاقات اُن کے مضامین کے حوالے سے ہے ‘جب سے وہ لکھ رہے ہیں۔ شاید انہیں بھی یاد نہ ہو‘ ہماری پہلی ملاقات اتفاقیہ تھی جو تقریباً چالیس سال قبل قائد اعظم یونیورسٹی کے انٹر نیشنل ریلیشنز ڈیپارٹمنٹ میں ہوئی تھی۔ ہم امریکا سے تعلیم مکمل کرکے تازہ تازہ وارد ہوئے تھے ‘ اور وہ بھی غالباً اپنی فارن آفس کی ملازمت پر لات مار کر میدانِ صحافت میں اترے تھے۔ ایک دوسرے سے کوئی تعارف نہیں تھا۔ ملے تو بے چین دکھائی دیے۔ اُن کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے اور وہ ادھر اُدھر ٹائپ رائٹر تلاش کررہے تھے۔ مجھ سے پوچھا کہ کیا یہاں کچھ دیرکے لیے مل سکتا ہے ؟ وہ کچھ جلدی میں تھے۔ چند ہی منٹوں میں حاضر کردیا۔ وہ میز کے کونے پر بیٹھ کر ٹائپ کرنا شروع ہوگئے۔ میرا خیال ہے کہ یہ 1982 ء کی بات ہے۔ ہم مینوئل ٹائپ رائٹر استعمال کرتے تھے۔ ایاز امیر صاحب کو نہایت انہماک سے لکھتے اور اپنے کام میں کھوئے دیکھ کر میں اُنہیں وہیں چھوڑ کر کسی کلاس میں چلا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ وہ مظہر علی خان صاحب کے زیر ادارت ”ویوپوائنٹ ‘‘ میں مضامین لکھتے تھے۔ میں اس رسالے کا باقاعدہ خریدارتھا۔ یہاں پاکستان میں صرف یہی رسالہ تھا جو اس کے بند ہونے تک تواتر سے آتا رہا۔ سب لکھنے والے کمال کے لوگ تھے۔ ایاز امیر کے مضامین میں تازگی تھی ‘ مسائل کا گہرا مطالعہ تھااور زبان میں ایسی روانی کہ بندہ پڑھتا ہی چلا جائے۔ وہ خود لکھتے رہتے ہیں ‘ اس لیے میں اُن کی صحافتی زندگی‘ فن‘ زبان ‘ اسلوب‘ نظریاتی رنگ اس شعبے میں ان کے طویل سفر کا احاطہ کرنے سے عاجز ہوں۔ گزارش صرف یہ کرنا چاہتا ہوں کہ ایاز امیر جیسے لوگ جہاں ہیں‘ کسی کے سہارے نہیں بلکہ اپنی محنت ‘ جذبے ‘ لگن اور زندگی کے شب روز ایک کرکے پہنچے ہیں۔ آخر ان کے ساتھ یہ سلوک! کچھ لکھتے ہوئے بھی سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
ہم سب کے لیے اخباروں میں لکھنا آسان نہ تھا۔ جب شروع کیا تو ضیاالحق کا ”سنہری دور‘‘ تھا۔ انگریزی اخبارات میں لکھتے تھے ‘ اوربچ بچا کر رہتے تھے۔ ایاز امیر صاحب تو ڈان میں عشروں تک لکھتے رہے ‘ اور ان کا مضمون سب سے زیادہ پڑھا جاتا تھا۔ شاید ہی اُن کا کوئی مضمون ہو جو میں نے نہ پڑھا ہو۔ یہ ان کا بہت ہی انقلابی فیصلہ تھا جب اُنہوں نے انگریزی کے بجائے اردو میں لکھنے کا فیصلہ کیا۔ میرے اپنے مضامین پچاس سال پہلے اردو کے رسالوں میں تھے۔ ساری زندگی ہم بھی پیشہ ورانہ مجبوریوں کے تحت انگریزی میں لکھتے رہے۔ مگر جب ایاز امیر صاحب کو اردو میں لکھتے دیکھا تو ہم نے بھی یہی راہ اختیار کرلی۔ اردو میں ان کے کالم اس صفحہ پر سب سے پہلے پڑھتا ہوں ‘اور اگر کوئی ایک ٹی وی شو فرصت میں کبھی دیکھتا ہوں تو وہ ان کا ہی ہے۔ انہیں بات کرنے کا سلیقہ آتا ہے۔ ڈھنگ سے بات کرتے ہیں۔ انصاف اور منطق کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ ان کے بیان میں نہ ڈر ہوتا ہے نہ لالچ۔ سیدھی سادی بات کرتے ہیں۔ جو دل میں ہوتا ہے ‘ کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر کہہ دیتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ انہیں محتاط اور ٹھنڈے لہجے میں مہذب انداز میں بات کرتے سنا ہے۔
انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ایک بزرگ‘ کہنہ مشق صحافی ‘ دانشور اور سابق عوامی نمائندے کی خدمات کا یہ صلہ۔ ہمیں بھی دوست اور عزیز ایسے حوالے دے کر خبردار کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ کالم میں اُنہوں نے لکھا تھا کہ : تباہی کا آغاز کہاں سے ہوا۔ اب تو بگاڑ اپنے عروج پر ہے۔بدعنوانی نے معاشرے کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ اب معزز مافیا اور ان کے ہرکارے ہیں جنہوں نے ناجائز دولت کے انبار لگائے ہیں۔ہر چھوٹی بڑی جماعت‘گروہ‘ جو بھی نظریاتی رجحان رکھتا ہو‘ اس نے ملیشیا ونگ بنا رکھے ہیں۔ کرائے کے کارکن ہم جیسوں کی پگڑی اچھالنے کے لیے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کراچی‘ سندھ‘ بلوچستان اور پنجاب اور دیگر علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ بھی کراتے رہتے ہیں۔ اس کا ریکارڈ ہمارے ہاں محفوظ ہے۔ کس کس کا نام لیں‘ کوئی بھی اس کام میں کسی سے پیچھے نہیں۔ اور کس کو معلوم نہیں کہ صحافی اور دانشور کیوں نشانہ بنائے جارہے ہیں؟اب مزید کیا کہیں ؟
وزیر اعظم سے لے کر ہر نوع کی سرکاری اور مخالف جماعتوں کی طرف سے ایاز امیر کے اس تکلیف دہ واقعے پر وہی گھسے پٹے ‘ رٹے رٹائے جملے بولے جارہے ہیں جو ان کے ہرکارے پرچیوں پر لکھ کر ان کے حوالے کرتے ہیں۔حملہ آوروں کوکٹہرے میں لایا جائے گا‘ مکمل تفتیش ہوگی‘ جرم کا ارتکاب کرنے والے بچ نہ پائیں گے۔ ایسی باتیں سن سن کر کان پک چکے ہیں۔ پنجاب پولیس کے افسران کی بڑھکیں اور پھرتیاں بھی قابلِ دید ہیں۔ دیکھتے ہیں یہ تیرہ جماعتی حکومتی اتحاد ایاز امیر پر حملہ کرنے والوں کو کب پکڑ کر مقدمہ چلاتا اور سزا دلواتا ہے۔ خوف کے سائے میں صرف خوف ہی پلتا ہے‘ آزاد فکری نہیں۔ حکمران نہ جانے کیوں بھولے بیٹھے ہیں تاریخ کا وہ سبق کہ معاشرہ اور فرد آزادی میں پھولتے پھلتے ہیں‘ جبکہ جبر و استبداد گھٹن اور حبس پیدا کرتے ہیں۔ شاید ان کے مفاد میں یہی گھٹن ہو۔ لیکن یہ ملک کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ ایاز امیرصاحب! ہم کمزور سہی ‘ لیکن آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر