حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی زندگی میں تین مقامات کی بہت اہمیت ہے، امڑی حضور (والدہ محترمہ) کی تربت، حضرت شاہ شمس سبزواریؒ اور مرشد کریم سیدی عبداللہ شاہ بخاری المعروف بابا بلھے شاہؒ کی خانقاہیں۔
جس سکون اور بے خوفی سے ان تین مقامات پر حال دل بیان کیا جاسکتا ہے ویسا مقام اور کوئی نہیں ہے۔ چند دن ادھر پانچ چھ دن امڑی حضور کے شہر میں بسر ہوئے۔ سوموار کی صبح مرشد کریم سیدی بلھے شاہؒ کے حضور حاضری دی۔
اس حاضری کا وسیلہ ہمارے ملتانی دوست اور برادر عزیز مبشر علی فاروق ایڈووکیٹ بنے۔ مبشر کو بھی ملامتی صوفیا سے ایک خاص لگائو ہے۔ قصور میں اعظم خان ایڈووکیٹ بھی ہمراہ ہوئے۔ اعظم ہمارے چند دوستوں (مبشر سمیت) کے یونیورسٹی فیلو ہیں۔
پچھلے دو تین برسوں سے جب بھی مرشم کریم کی خانقاہ پر حاضری کی سعادت ملتی ہے، اعظم خان اپنے آبائی شہر قصور میں دوستوں کے قافلے کے میزبان ہوجاتے ہیں۔
اعظم خان خوش گفتار اور مہمان نواز دوست ہے اس کا بس چلے تو قصور کی ہر خاص و عام چیز باندھ کر مہمانوں کے ساتھ کردے۔
مرشم کریم سید بلھے شاہؒ کے حضور حاضری میں اس بار وقفہ کچھ زیادہ ہوگیا تھا۔ پہلی اور آخری وجہ وہی اپنی علالت ہے جس میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ اسٹک کے سہارے سے چل تو لیتا ہوں زیادہ چلا نہیں جاتا۔
مرشد کے حضور حاضری کے لئے روانگی صبح دم کے ساتھ ہی طے تھی لیکن گرمی اور حبس دونوں کہہ رہے تھے ہم بھی تو موجود ہیں۔
عجیب سی گھٹن محسوس ہوئی پیدل چلنا محال ہوگیا پھر بھی حاضری کے لئے اس بے حالی کا دریا عبور کر ہی لیا۔
مرشد کریمؒ کی خانقاہ جیسے ہمیشہ کی طرح مسافر کی راہ دیکھ رہی تھی اندر داخل ہوتے ہی ادب سے سرجھکایا تو ایسا لگا مرشد کہہ رہے ہیں "کبھی بلاضرورت بھی آجایا کرو۔ یہ کیا شکوئوں شکایات اور دکھڑوں کے انبار اٹھائے آجاتے ہو ” ،
عرض کیا، مرشد آپ سے ہی تو وہ سب کہا جاسکتا ہے جو صرف امڑی حضور کی خدمت میں عرض کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں کے سامنے ایسی باتیں کیسے کہیں اور شکوے کیونکر پھرولیں۔
مرشد مسکرائے اور بولے ’’دھیان رکھا کرو یہاں کالم نہیں سنانا حال دل بیان کرنا ہے‘‘۔
عرض کیا مرشد صبر کے خیمے میں شکر کی تسبیح، زندگی تو پھانسی گھاٹ کا سودا ہے کوئی خریدار ہے نہ ختم ہوتا ہے۔
جواب ملا ’’زندگی کا اصل سودا خود کو پالینے میں ہے۔ لوگ نجانے چار اور دوڑتے بھاگتے تلاش کرتے یہ کیوں نہیں جان پاتے کہ خود کو پالینا ہی اصل زندگی ہے۔ خود سے ہوئی پوری ملاقات اُس سے ملادیتی ہے‘‘۔
عرض کرنا پڑا آقائی کچھ دکھڑے نہ پھرول لوں۔ بہت دنوں بعد آیا ہوں کچھ حال دل سن لیجئے۔
ارشاد ہوا ’’کیا کہو گے، زیادہ سے زیادہ یہی زندگی کا دامن تنگ ہے۔ یاد کرو جب پہلی بار آئے تھے تو سمجھایا تھا، نفس کے سرکش گھوڑے پر کاٹھی ڈال کر رکھنا خواہشیں منہ کے بل نہیں گراپائیں گی‘‘۔
عرض کیا مرشد خواہشوں کا روگ کب پالا آپ سے کیا مخفی ہے۔ آپ سے محبت کے جمال نے دھمال سکھائی طمع کے گھاٹ پر اترنے ہی نہیں دیا۔
یہ جو زندگی کے سودے ہیں نہ مرشد، بڑے بے ہنگم ہیں۔ اس پر ظلم یہ ہے کہ حق خدمت حق کے مطابق نہیں ملتا۔
مرشد بولے ’’حق تو سب اپنے اپنے ظرف کے مطابق پاتے ہیں جیتے رہنے کی ضرورتیں کیا ہیں۔ جتنی بڑھاتے جاو گے اتنی تکلیف ہوگی۔ اس تکلیف سے مایوسی تو کشید ہوسکتی ہے راحت جاں کا سامان ہرگز نہیں‘‘۔
عرض کیا مرشد، عاشق تو بس محبوب کے ویہڑے میں تھیاں تھیاں ناچتا ہے۔
تبسم مرشد کے چہرہ انوار پر رقصاں ہوا۔ بولے
’’ایڑیوں سے خون رسنے لگا تھا تھیاں تھیاں کرتے ہوئے؟‘‘
عرض کیا مرشد ان سموں ایڑیوں کی طرف کون دیکھتا ہے۔
آقا! عاشق اور مور میں یہی تو فرق ہے مور رقص کرتے ہوئے ایڑیوں کو دیکھ کر آنسو بہاتا ہے، عاشق کا رقص محبوب کے دیدار کے لئے ہوتا ہے۔
مرشد نے بات بدلتے ہوئے کہا اچھا وہ تمہارے گلے شکے اور دکھڑے کیا ہیں؟
اب ہم نے ایک ایک کرکے سارے گلے شکوے بیان کئے، دکھڑے سنائے، استحصال کا ماتم کرچکے تو مرشد بولے،
"زندگی کے امتحانی پرچے کے سوالوں کا جواب سکون سے لکھا کرو۔ امیدوں کو دامن میں باندھنا چھوڑدو۔ عاشق سہاروں کے متلاشی نہیں ہوتے۔ پیٹ بھرنے کے لئے زندہ رہنا زندگی کی سب سے بڑی توہین ہے۔ رزق جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے، خماری کے لئے نہیں "۔
عرض کیا یہی تو شکوہ ہے۔
محنت کا حق نہیں ملتا۔ مرشد نے پوچھا، "یہاں حق کس کو ملا؟”
خانقاہ میں خاموشی چھاگئی ، ساعت بھر کا وقفہ تمام ہوا۔ مرشد ایک بار پھر گویا ہوئے۔
” کہلوانا فقیر راحموں اور لئے پھرنا شکوئوں کی ’’پنڈ‘‘ (انبار)۔ فقیری ہے میاں یہ ، اس میں حساب کرنا بندگی کی توہین ہے۔ مایوسی عاشق کی اور طمع فقیر کی توہین ”
عرض کیا مرشد کیااپنے حصے کے شکوئوں کی خواہش طمع ہیں؟ جواب ملا، "امید سے بڑی طمع کیا ہوسکتی ہے۔ اس لئے تو سمجھاتا ہوں امیدوں سے دوری اختیار کرو، جو مل گیا وہی درست ہے ” ، مجھے محسوس ہوا مرشد نے اپنا دست شفقت میرے سر پر رکھا ہے۔ ان کے چہرے کی طرف دیکھا تو دائمی مسکراہٹ کا رقص تھا۔ پھر آواز سنائی دی،
"ناامیدی دیمک کی طرح عشق کو کھاجاتی ہے۔ عاشق ایثار پسند ہوتے ہیں۔ حُبِ دنیا تو سزا ہے "۔
عرض کیا حُب دنیا سزا ہے تو پھر دنیا کیوں؟
جواب ملا، ” اپنے وصف اور ظرف کے مطابق زندہ رہنے کی جستجو۔ جو اس جستجو کو زندہ رکھتے تھے وہی زندہ رہتے ہیں”
” مردے کلام نہیں کرتے اور طعام کا انتظار بھی نہیں ” ۔
عرض کیا مرشد، خود سے ملنا بہت مشکل نہیں؟ ارشاد ہوا، "کبھی رقص ذات کا نظارہ کرو دھمالی پر ایک ساعت ایسی بھی آتی ہے جب وہ اپنے ہاتھوں پر آسمان اٹھائے رقص کررہا ہوتا ہے ” ۔
آسمان اٹھائے رقص۔ مرشد کریم آدمی اتنے بوجھ کے ساتھ رقص کیسے کرسکتا ہے؟
جواب ملا، ” رقص عاشق کرتے ہیں آدمی نہیں۔ آدمی پہلے انسان ہونے کی منزل پر پہنچنے کے لئے جدوجہد کرتا ہے۔ پھر محبت ہوتی ہے یہ بہت کڑا مرحلہ ہے۔ عاشقی کے اکثر دعویدار محبت کے مرحلے میں خود لذتی (پالینے کی خواہش) کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جو چند بچ رہتے ہیں وہی مقام عشق تک پہنچ پاتے ہیں ” ۔
مجھے لگا خانقاہ میں زائرین کی تعداد بڑھ رہی ہے ہماری گفتگو میں خلل آرہا ہے۔ عین ان سموں مرشد گویا ہوئے ’’دیوانے بنو، غرض مند نہیں‘‘۔
عرض کیا مرشد غرض مند ہی تو دیوانہ ہوتا ہے؟
جواب ملا ’’غرض چند ساعتوں کی آسودگی ہے۔ دیوانگی دائمی قرار‘‘۔
عرض کیا مرشد اگر اگلی حاضری سے قبل سانسوں کی ڈور کٹ جانے سے زندگی کی پتنگ لیرکتیر ہوگئی تو؟
مرشد نے کہا، "سانسوں کا حساب رکھنا اور پتنگ کی اڑان پر نظر دونوں کا کام چھوڑدو۔ اپنے من چلے کا سودا کرو ” ۔
عرض کیا مرشد وہ تو یہ ہے کہ زندہ رہا جائے۔
جواب ملا، ” زندگی کی بخشش سے زیاہ اہم یار کے کوچے میں دھمال ڈالنا ہے "۔
احساس ہوا کہ بہت وقت لے چکا اب اجازت طلب کی جائے۔ مرشد نے مسکراتے ہوئے کہا
” رات کبھی ابدی ہوئی نہ دن۔ دونوں وقت مقررہ پر ڈھلتے ہیں۔ جو تھا نہیں ہے جو ہے نہیں ہوگا ” ،
عرض کیا مرشد، جمال یار اچھا یا دیدار یار؟
بولے ’’جمال کی سمجھ دیدار سے آتی ہے اور دیدار کے لئے نماز عشق کا وہ سجدہ واجب ہے جس میں گردن قاتل کے خنجر کے نیچے ہو مگر بسمل کی سی تڑپن نہ ہو بلکہ اقرار کی آسودگی تمامی کی سرشاری عطا کردے‘‘۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر