ذلفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
پنجاپی۔ یار کل کرنل صاحب ملیا سی تے میں اونہاں نوں تُہاڈی گل کیتی سی ۔ او کہندے نیں تُہاڈا کم ہو جاوگا ۔ بس تُسی روکڑے شوکڑے دا بندوبست کر کے رکھو۔
مہاجر۔ ان سُسروں سے نمٹنا مجھے آتا ہے۔ ان جاہلوں کو تو یہ پتا بھی نہیں تھا کہ پودینے کے باغ کیسے ہوتے ہیں۔ جب سے بھائی سیاست سے ریٹائر ہوا ہے ان بھڑوں نے ہمیں چوتیا سمجھ رکھا ہے۔
پٹھان۔ او خوچا اجکل بارڈر پہ پکڑ بہت ہو گیا ہے۔ مال پکڑے جانے کا ڈر ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا یہ مال کیسے نکالیں ۔ مال کی نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا گودام فُل ہو گیا ہے۔ لوکل مارکیٹ میں بھی مندا چل رہا ہے۔ میں نے ڈی آئی خان میں زمین کی ٹھپی دیا ہوا ہے۔ وہ بیس کروڑ کا زمین دس کروڑ میں مل رہا ہے سارے کام پھنسے ہوئے ہیں تُم اوپر کوئی سفارش لڑاؤ تمہیں تمہارا حصہ مل جائیگا۔
بلوچ۔ ہماری دھرتی پر فوج کا قبضہ ہے، ادھار چائنا اپنا اُلو سیدھا کر رہا ہے۔ ریاست ہمارے نوجوانوں کو اُٹھا رہی ہے ، ہماری زمین، ہمارے وسائل ہی ہمارے لئے وبال جان بن گئے ہیں۔ پاکستان نے ہر چیز کو اپنے باپ کا مال سمجھا ہوا ہے۔
سندھی۔ پنجاپیوں نے ہمارے دریا پر قبضہ کیا ہوا ہے، ہمارے حصے کا پانی وہ لے جاتے ہیں، ادھر کراچی میں مہاجروں اور پٹھانوں نے ات مچائی ہوئی ہے، پیپلز پارٹی بھی مفاہمت پر لگی ہوئی ہے اس کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں بھی اسٹیبلشمنٹ کی پارٹیاں ہیں ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کس کا ساتھ دیں کس کا نہ دیں۔
سرائیکی ۔ یار جیب اچ ٹَکے پیسے ہوون ہا تے اساں وی کوئی ٹھڈے علاقے دا چکر چُکرلا آؤں ہا۔ وحید خان دیاں چساں ہن کہیں ویلھے مری پیا ویندے تے کہیں ویلھے فورٹ منڈرو۔ ابرا نواں ہونڈا گھن آئے اوندی کولو سعودی دی مڈی ھے تے اپݨا ہیک پٹھا رکھی ودے۔ اج شام کوں تونسے جُلسوں تے ادھا وی پیسوں تے پروں محرم کوں وی ملیے آسوں۔ موسیقی وی سُݨسوں تے پکے دے ڈو کش وی لائی آسوں۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر