مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ دادی اماں کہاں گئی جس کا پُھلا گر گیا تھا؟۔۔۔زلفی

دادی اماں 'پُھلے' (میٹھے دانے) لے کر جا رہی تھی۔ ناہموار زمین میں اس کا پاؤں پھسلا تو وہ گر گئی جبکہ اس کے پھُلے بھی زمین پر گر کر بکھر گئے۔
ذلفی
کل میرا ایک دوست چیونٹیوں اور کیڑے مکوڑوں پر غصہ کر رہا تھا۔ اُس کی دلیل یہ تھی کہ ابتدائی دور کے انسان نے خوراک ذخیرہ کرنے اور مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہونے کی عادت انہی سے سیکھی تھی۔
انسانی سماج میں اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی جو دوڑ اس ابتدائی دور میں شروع ہوئی تھی وہ آج تک تھم نہیں پائی۔ اس دوڑ میں انسان نے کیا پایا کیا کھویا اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو معروضی حقائق زیادہ حوصلہ افزا دکھائی نہیں دیتے۔
اس دوڑ کا دائرہ وقت کے ساتھ پھیلتا گیا جس نے کمزور اور طاقتور طبقات کو جنم دیا۔ مفادات کے ٹکراؤ سے جنم لینے والی طبقات کی آپسی کشمکش نے مختلف نظریات کو فروغ دیا جن میں سے بیشتر بالاتر طبقات کے مفادات کو تحفظ دینے کی شعوری کوشش پر مبنی نظر آتے ہیں۔
مگر ایک نظریہ لوگوں کی اجتماعی دانش اور تجربات کی صورت ہر تہذیب کے اندر پنپتا رہا جسے آپ ‘لوک دانش’ کہہ سکتے ہیں جس کی ترویج میں حکمران طبقات اور اُن کے حامی فلاسفہ، مورخین، مذہبی عالموں اور سماجی سائنسدانوں کا کوئی یوگ دان نظر نہیں آتا بلکہ یہ سینہ در سینہ ایک سے دوسری نسل تک پہنچتا رہا۔
یہ نظریہ سماجی بندشوں، مجبوریوں، خوشیوں اور دُکھوں کے معیار کو مقامی پیرائے میں ڈھالنے کا عادی رہا ہے۔ لوک دانش پر مبنی نظریے نے کبھی عالمگیریت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ ہی تمام انسانوں کو کسی ایک نظریے کی دوا سے ٹھیک کرنے کی کوئی کوشش کی ہے۔
وادی سندھ کی تہذیب ایسے قصوں اور مثالوں سے بھری پڑی ہے جن میں مقامی مسائل کا حل نہایت سادہ زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ آج بھی بزرگوں کے ساتھ بیٹھیں تو اُن کا سینہ ایسی مثالوں اور قصوں کے خزانے سے بھرا ہوتا ہے جو بدقسمتی سے ای کمیونیکیشن کے دور میں ہماری نظروں سے اوجھل ہوتے جا رہے ہیں۔
اس تناظر میں مُجھے بچپن کا ایک قصہ یاد آرہا ہے جسے ہم دسمبر کی سرد راتوں میں دادی کی رضائی میں گُھس کر مزے سے سُنا کرتے تھے۔ یہ قصہ دراصل کمزور طبقات کی طویل جدو جہد پر مبنی کہانی کو بیان کرتا ہے جس میں بوڑھی اماں جو کمزور طبقے کی علامت ہے، اپنا حق مانگتی ہے۔ اس قصے کو بہت خوبصورتی سے علامتی طور بیان کیا گیا ہے۔ اس میں آج بھی کمزور طبقات کے لیے بہت بڑا سبق ہے جسے آج کی دُنیا میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے۔
دادی اماں ‘پُھلے’ (میٹھے دانے) لے کر جا رہی تھی۔ ناہموار زمین میں اس کا پاؤں پھسلا تو وہ گر گئی جبکہ اس کے پھُلے بھی زمین پر گر کر بکھر گئے۔ دادی اماں پُھلے سمیٹنے میں مصروف تھی کہ قریبی درخت پر بیٹھے کوے نے یہ منظر دیکھا اور موقعے سے فائدہ اُٹھانے کیلئے اپنی مدد کی پیشکش کی۔ دادی اماں نے اس کی پیشکش قبول کر لی۔
کوے نے پُھلے سمیٹنے کے دوران سب سے بہترین پُھلا اپنی چونچ میں دبا لیا اور اُڑ کر درخت پر جا بیٹھا۔ دادی اماں پُھلا واپس لینے کیلئے جن مراحل سے گُزری وہ آپ بھی سنیے:
کوے رے کوے میرا پُھلا تو واپس کر دے
کوے نے کہا میں تو اسے واپس نہیں کرتا
دادی نے شیشم کے درخت سے التجا کی کہ کوا ظالم ہے اسے اپنی ٹہنیوں پر نہ بیٹھنے دے۔
شیشم نے صاف انکار کر دیا تو بڑھیا اپنی فریاد لے کر ترکھان کے پاس گئی اور کہا شیشم کے درخت کو کاٹ دے۔
ترکھان نے بوڑھی دادی کی بات نہ مانی تو وہ بادشاہ کے پاس گئی اور اس سے مطالبہ کیا کہ ترکھان کو یہاں سے در بدر کر دے
بادشاہ نے بھی انکار کر دیا تو وہ اُس کی بیوی کے پاس گئی اور کہا بی بی بادشاہ سے روٹھ جا۔
بی بی نے اماں کی بات نہیں مانی تو وہ چوہوں کے پاس گئی اور کہا بی بی جس برتن میں چوری کھاتی ہے اُسے کُتر دو۔
مگر چوہوں نے بھی ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
دادی بلیوں کے پاس اپنی فریاد لے کر گئی اور ان سے کہا کہ چوہوں کو کھا لو
بلیوں نے بھی دادی کا ساتھ نہ دیا تو وہ
کُتوں کے پاس گئی اور کہا بلیوں کو پکڑ لو
کُتوں نے بھی دادی کی بات نہ مانی
وہ ڈنڈوں کے پاس گئی اور کہا کُتوں کو مار دو
مگر نتیجہ وہی رہا
پھر وہ آگ کے پاس گئی کہ ڈنڈوں کو جلا دو
آگ نے بھی ایسا نہ کیا
پھر وہ دریا کے پاس گئی کہ آگ کو بُجھا دو
دریا نے بھی دادی کی بات پر کان نہ دھرے تو وہ ہاتھی کے پاس گئی
ہاتھی رے ہاتھی دریا کو پی جاو
ہاتھی نے بھی سُنی ان سُنی کر دی
پھر وہ مچھر کے پاس گئی کہ ہاتھی کے کان میں شور مچاو
مچھروں نے بھی دادی کی بات کو سنجیدہ نہیں لیا
دادی تتلیوں کے پاس اپنی فریاد لے کر گئی تو تتلیوں نے دادی کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی۔ یہاں سے پہیہ اُلٹا گھومنا شروع ہوا۔
تتلیاں دادی کا ساتھ دینے کیلئے مچھروں کو کھانے کیلئے روانہ ہوئیں تو مچھروں نے کہا ہمیں مت کھاؤ ہم ہاتھی کے کان میں شور مچاتے ہیں، ہاتھی نے کہا میرے کان میں شور نہ مچاو میں دریا کا پانی پی کر اسے ایک گھونٹ کے برابر لا چھوڑوں گا، دریا نے کہا مجھے ایک گھونٹ نہ کرو میں آگ بُجھاتا ہوں، آگ نے کہا مجھے مت بُجھاو میں ڈندے جلاتی ہوں، ڈنڈوں نے کہا ہمیں نہ جلاو ہم کُتوں کو مارتے ہیں، کُتوں نے کہا ہمیں مت مارو ہم بلیاں مارتے ہیں، بلیوں نے کہا ہمیں نہ مارو ہم چوہے کھاتی ہیں، چوہوں نے کہا ہمیں نہ کھاؤ ہم بی بی کے برتنوں کو کُترتے ہیں، بی بی نے کہا میرے برتن نہ کُترو میں بادشاہ سے روٹھ جاتی ہوں، بادشاہ نے کہا مُجھ سے نہ روٹھو میں ترکھان کو در بدر کرتا ہوں، ترکھان نے کہا مجھے در بدر نہ کرو میں شیشم کے درخت کو کاٹتا ہوں، شیشم کے درخت نے کہا مجھے نہ کاٹو میں کوے کو اُڑا دیتا ہوں، کوے نے کہا مجھے مت اُڑاو میں پُھلا واپس کر دیتا ہوں۔ یوں بوڑھی دادی کی جدوجہد رنگ لائی اور اُسے اپنا حق واپس ملا۔
اس قصے میں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ کمزور کو کمزور ہی بچا سکتا ہے۔ طاقتور صرف اپنے طبقے کا وفادار ہوتا ہے وہ کبھی بھی کمزوروں کو اُس وقت تک حق نہیں دیتا جب تک اُسے خطرہ محسوس نہ ہو۔ اسی لیے سماج کے کمزور اور پسے ہوئے طبقات منظم ہوئے بغیر طبقاتی مسئلے کو کبھی حل نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنے حقوق کی جنگ جیت سکتے ہیں۔ ہاں ایک اور بات ڈائیلاگ اور لابنگ کسی بھی مسئلے کا بہترین حل ہوتا ہے باقی سارے راستے جہنم کے راستے ہی ثابت ہوئے۔

%d bloggers like this: