مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکہ کی پاکستان میں ”مداخلتوں“کی ڈرامائی داستان(1)||محمد عامر خاکوانی

یہ پاکستان میں امریکی ایمبیسی اور قونصل خانہ کے خفیہ ٹیلی گرام ہیں جن کا زیادہ تر تعلق پچاس، ساٹھ کے عشرے سے ہے، کچھ ٹیلی گرام بھٹو صاحب کے دور سے بھی متعلق ہیں۔

محمد عامر خاکوانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں امریکی مداخلت کی بات چل نکلی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے قائد کا دعویٰ ہے کہ امریکہ نے نہ صرف مداخلت کی بلکہ ان کی حکومت گرانے کی سازش بھی کی۔

دوسری طرف موجودہ حکومت اور اہم اداروں کا خیال ہے کہ امریکیوں نے مداخلت بے جا تو کی مگر حکومت گرانے کی سازش نہیں کی۔ ان کی رائے میں امریکی سفارتکار کا عمران خان حکومت کے بارے میں ناپسندیدگی ظاہر کرنا ایک طرح کی مداخلت ہے مگر انہوں نے حکومت بدلنے کے لئے عملی طور پرسازش نہیں کی۔

ظاہر ہے تحریکِ انصاف اس رائے سے اتفاق نہیں کرتی، ان کے نزدیک مداخلت سازش کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ یہ بحثیں تو خیر چلتی رہیں گی اور یقینی طور پر بے نتیجہ رہیں گی۔ تاریخ ہی فیصلہ کرے گی کہ کون سا فریق درست ہے، البتہ تاریخ کا فیصلہ ممکن ہے جلدی نہ آئے۔

امریکی ڈی کلاسیفائیڈ پیپرز
امریکہ میں ایک روایت ہے کہ تیس سال بعد کلاسیفائیڈ دستاویزات کو پبلک کر دیا جاتا ہے۔ اس میں کچھ چیزیں بدستور خفیہ رکھی جاتی ہیں جو امریکی نکتۂ نگاہ سے زیادہ حساس یا خطرناک نوعیت کی ہوں، مگر اہم بات یہ ہے کہ ان ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات سے دنیا بھر کے ریسرچر اور محقق کئی اہم چیزیں معلوم کر لیتے ہیں۔
امریکی سوچ، امریکی سفارت خانوں کا مائنڈ سیٹ اور طریقہ کار وغیرہ بہت اچھے طریقے سے سمجھ آ جاتا ہے۔ یہ بھی کہ وہ کس طرح ملاقاتیں کرتے ، خبریں جمع کرتے اور پھر کیسے کیسے خفیہ ٹیلی گرام یا خط بھیجا کرتے ہیں۔
ایسی ہی کچھ ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹس کی کہانی اپنے قارئین سے شیئر کرتے ہیں۔

پاکستان میں امریکی ایمبیسی کے خفیہ ٹیلی گرام
یہ پاکستان میں امریکی ایمبیسی اور قونصل خانہ کے خفیہ ٹیلی گرام ہیں جن کا زیادہ تر تعلق پچاس، ساٹھ کے عشرے سے ہے، کچھ ٹیلی گرام بھٹو صاحب کے دور سے بھی متعلق ہیں۔
ان ٹیلی گرامز سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کس طرح امریکی سفارت کار پاکستانی سیاستدانوں اور اہم طاقتور شخصیات سے رابطے میں رہا کرتے تھے بلکہ یہ بھی اندازہ ہوا کہ اہم عہدوں پر فائز یہ پاکستانی ازخود امریکی سفیر سے رابطے میں رہتے اور نمبر بنانے کیلئے انہیں بہت سی اہم باتیں ازخود بتایا کرتے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں کمانڈر انچیف ایوب خان (مارشل لا ءلگانے سے کئی سال پہلے سے)، سکندر مرزا، صدریحییٰ خان اور بعد میں امریکہ مخالف ہونے کی شہرت رکھنے والے بھٹو صاحب بھی شامل ہیں ۔
مجھے حیرت بائیں باز و کے ممتاز بلوچ قوم پرست سیاستدان میر غوث بخش بزنجو کی امریکی سفیر سے ملاقات پرہوئی۔ یہ بھی پتہ چلا کہ بھٹو نے اپنے دور حکومت میں غلام مصطفی کھر کو ایک خاص ایجنڈے پر امریکہ بھیجا۔ ان دستاویزات میں سے بعض بھارت میں امریکی سفارت خانے سے متعلق ہیں اور وہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔

امریکی سفارت کاروں کی ملاقاتیں

ان امریکی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ امریکی سفارت کار مستقل بنیادوں پر اہم پاکستانی شخصیات سے رابطہ میں رہتے، وہ اپوزیشن رہنماﺅں سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے۔ دراصل ان سفارت کاروں کا اصل مشن پاکستان کی سیاسی صورتحال سے باخبر رہنا، اپنے ملک تازہ ترین اطلاعات بھجوانا اور کسی اہم واقعے کے رونما ہونے سے پہلے اس کا اندازہ کرنا اور پھر اسی مناسبت سے موزوں حکمت عملی بنانے میں معاونت کرنا تھا۔
معروف مصنف، لکھاری اور سیاستدان قیوم نظامی نے ان ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات میں سے کچھ کا ترجمہ اپنی کتاب” خفیہ پیپرز“میں دیا ہے۔
راقم نے اپنی اس بلاگ کی سیریز کے لئے کتاب سے استفادہ کیا ہے جبکہ ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کے اوریجنل امریکی ذرائع اور سی آئی اے کے ان خفیہ پیپرز کے حقیقی ذریعے ”ریڈنگ روم“ سے بھی استفادہ کیا گیا۔

خفیہ پیپرز کی اقسام

ڈی کلاسیفائی پیپرز کی کئی اقسام ہیں، ان میں سب سے اہم پاکستان میں موجود امریکی سفارت خانہ کی جانب سے امریکی وزارت خارجہ کے نام ٹاپ سیکرٹ خطوط ہیں جن میں امریکی سفارت کاروں نے واشنگٹن میں بیٹھے اعلیٰ حکام سے اپنی ان سائیڈ معلومات اورایکسکلیوسو خبریں شیئر کرنے کے ساتھ انہیں اپنے تجزیہ بھی بھیجا۔ بعض سفارتی خطوط یا سائفر امریکی وزیر خارجہ یا صدور کے لئے بھی تھے۔

ایک کیٹیگری امریکی صدر کے خفیہ خطوط بھی ہیں، خاص کر جب پاکستان امریکہ اور چین کے سفارتی تعلقات قائم کرانے کی کوشش کر رہا تھا تب صدر نکسن کے پاکستانی صدر یحییٰ خان کے نام خطوط اہم ہیں۔
دو چار دستاویزات برطانوی ہائی کمیشن کے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی اور برطانوی سفارت خانہ ماضی میں کس طرح مل جل کر کام کیا کرتے تھے۔ قوی امکان ہے کہ آج بھی یہی صورتحال موجود ہو۔

ایوب خان کی نیت شروع سے خراب تھی

ہمارے ہاں یہ عام تاثر ہے کہ پچاس کے عشرے میں سیاستدانوں نے اس قدر قلابازیاں کھائیں، راتوں رات نئی سیاسی جماعتیں بن گئیں، جوڑ توڑ ہوتے رہے، ایک کے بعد دوسرے وزیراعظم کو گرایا جاتا رہا، اس قدر نشیب وفراز آئے کہ فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان کو مجبوراً مارشل لا لگانا پڑا۔ امریکی خفیہ دستاویزات اس تاثر کی نفی کرتی ہیں۔
یہ صاف طور پر بتاتی ہیں کہ جنرل ایوب خان کی نیت شروع ہی سے خراب تھی، پانچ سال پہلے سے وہ مارشل لا لگانے کی باتیں امریکیوں سے کرتا رہا۔
23 دسمبر1952کو امریکی قونصل خانہ کا واشنگٹن کو بھیجا گیا ایک خفیہ ٹیلی گرام یہ بتاتا ہے کہ جنرل ایوب خان نے انہیں بتایا کہ اس نے پاکستان کے سرکردہ سیاستدانوں کو کہا ہے کہ انہیں ذہنی طور پر دل کی گہرائیوں سے مغرب کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لینا چاہیے۔
جنرل ایوب کے بقول ہم (فوجی اسٹیبلشمنٹ) سیاستدانوں کو اپنی گرفت سے نکلنے کی اجازت نہیں دیں گے اور پاکستانی عوام کو بھی کنٹرول میں رکھیں گے۔ ایوب نے کہا کہ اسے اندازہ ہے کہ وہ بڑی ذمہ داری لے رہے ہیں کیونکہ فوج کا فرض ہے کہ وہ ملک کا تحفظ کرے۔
اسی طرح فروری 1953کے دو ٹاپ سیکرٹ ٹیلی گرامز میں امریکی سفارت کار نے واشنگٹن والوں کو بتایا کہ جنرل ایوب خان کے مطابق سیاستدانوں اور عوام کی جانب سے موجودہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو فوج فوری طور پر مارشل لا نافذ کر دے گی اور اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لے گی۔ اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں یا عوام کو پاکستان تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
فروری53 کی ایک اور ملاقات میں جنرل ایوب خان نے امریکی سفارت کار کو بتایا کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی مگر یہ بھی نہیں چاہتی کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جائیں۔ وہ سیاستدانوں کی حماقتیں قبول نہیں کریں گے۔
امریکی سفارت کار نے اپنا تبصرہ ان الفاظ میں لکھا:”میں نے جنرل ایوب اور لاہور میں موجود دیگر سینئر افسروں سے گفتگو کے بعد محسوس کیا کہ اسٹیبلشمنٹ یقینی طور پر سول ایڈمنسٹریشن کے ناکام ہونے کی صورت میں کنٹرول سنبھالنے کو تیار ہے۔ “
ان ٹیلی گرامز سے دو باتیں پتہ چلیں۔ ایک یہ کہ جنرل ایوب جس نے پانچ سال بعد ملک میں مارشل لاءلگایا، وہ ذہنی طور پر 53-1952 سے تیار تھا۔ دوسرا یہ کہ ایوب خان نے چیف بننے کے بعد سیاستدانوں کواحکامات دینے شروع کر دئیے حالانکہ یہ اس کا کام تھا نہ اختیار۔
حتیٰ کہ 1958میں ایوب خان نے بلاجواز مارشل لا لگا دیا۔ اس کی تفصیل بھی ہوش ربا اور بڑی سنسنی خیز ہے جس کی جھلکیاں  ہمیں امریکی سفارت کاروں کے خفیہ خطوط سے ملتی ہیں۔

(جاری ہے )

 

 

 

 

 

یہ بھی پڑھیے:

عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی

بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی

محمد عامر خاکوانی کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: