ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک بین الاقوامی ذریعہ ابلاغ عامہ سے وابستہ ہوں۔ آج میری ڈیوٹی خبروں پر ہوگی۔ میں ایک بار پھر ایسی اذیت سے گذروں گا جس کا کوئی مداوا نہیں ماسوائے ذریعہ ابلاغ سے علیحدہ ہو کر بیروزگاری بھگتنے کے۔ مگر شاید یہ بھی مداوا نہ ہو کیونکہ میں اور آپ، ہم سب ذرائع ابلاغ عامہ کے نہ صرف عادی بلکہ محتاج ہو چکے ہیں یا ہماری معلومات کا انحصار یکسر انہی ذرائع پر ہو چکا ہے۔ جس اذیت کا ذکر کیا ہے، اس اذیت سے پہلے شاید وہی ہمکنار ہوتے تھے جو ان ذرائع سے وابستہ ہوا کرتے تھے لیکن اب قاری و ناظر بھی ہونے لگے ہیں۔ یہ اذیت یکسانیت پر مبنی ایک سی خبریں سننے، نئے کے ساتھ پرانے کلپ زیادہ دیکھنے اور خبروں یا تبصروں کا یک طرفہ پن ہے۔
روس کی خبریں سن کر لگے گا کہ یوکرین کے علاوہ کوئی اور مسئلہ دنیا میں ہے ہی نہیں۔ پاکستان کی خبریں دیکھ کر لگے گا کہ کبھی ایگزیکٹ، کبھی آیان اور پہلے دہشت گردی اب اداروں کی چابک دستی اور فوج کی کامیابیوں کے علاوہ لوگوں کو دیگر خبریں درکار ہی نہیں ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ عامہ کو دیکھو یا سنو، ان کی اپنی ہی ایک دھن ہے۔
خبر دیے جانے کا سلسلہ درحقیقت باخبر رکھنے کی خاطر شروع کیا گیا تھا۔ جب حکومتوں نے اس ذریعے کو اچک لیا تو اسے اپنی تشہیر ، اپنے مخالفین کو بات بے بات ننگا کیے جانے، جھوٹا ثابت کرنے اور بعض اوقات "رعایا” بوکھلانے کا کام کرنے کی خاطر استعمال کیا جانے لگا۔ نجی خبر رساں ادارے مضبوط ہوئے تو انہوں نے خبر رسانی کو معلومات کا ذریعہ بنانے کی بجائے کاروبار بنا ڈالا۔ اسی خبر کو بڑا اور اہم کرکے دکھایا سنایا اور پڑھایا جانے لگا جس کو کسی خاص مقصد کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں بٹھانا مقصود ہوتا۔ خاص خاص تنظیموں نے اسے اپنے مقاصد اپنی بہتر خبروں اور دوسرے کے بارے میں بری خبریں چاہے وہ غلط ہی ہوں کو عام کرنے کا ذریعہ بنایا۔
یوں واضح ہے کہ ذرائع ابلاغ عامہ عموما” تین انواع کے ہوتے ہیں۔ سرکای، نجی یا کاروباری اور تنظیمی یا نظریاتی۔ ان انواع کے اسماء سے ہی عیاں ہو جائے گا کہ کسی کو کیا پڑی کہ بہت ہی سچ بتائے۔ سرکار سچ بتائے گی تو اقتدار سے جائے گی۔ نجی ادارے بہت سچ بولیں گے تو کاروبار سے جائیں گے چونکہ انسانی خاصہ ہے کہ "چوندی چوندی” "سنسنی خیز” اور "منفرد” بات کو ہی زیادہ خبر سمجھتے ہیں۔ اسی انسانی فطرت سے ذرائع ابلاغ عامہ کے مالک ادارے یا مالکان فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ عامہ ذہن سازی کا کام کرتے ہیں۔ اگر ذرائع ابلاغ عامہ کو یکسر بند کر دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ افواہوں کا بازار گرم ہو جائے اور کنفیوژن پھیل جائے مگر یہ بھی بہت ممکن ہے بہت حد تک سکون ہی سکون ہو جائے۔
ذرائع ابلاغ عامہ کو ایسے سمجھیے جیسے سگریٹ یا چائے۔ سگریٹ نہیں پییں گے تو خواہش تلملائے گی اور اگر پی لیں گے تو تسکین کے ساتھ ساتھ خرابی صحت کا خدشہ بھی دامنگیر رہے گا یا چائے پی لی تو تسکین نہ ملے تو بے کلی۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ سوشل ذرائع ابلاغ عامہ بھی دستیاب ہو چکے، جن کی اپنی حرکیات ہے۔ ان پر دستیاب خبریں، سچ، افواہ، پرچار اور خواہشات کا ملغوبہ ہوتی ہیں۔
پاکستان میں گذشتہ آٹھ دس سال سے "بدعنوانی” کو بے نقاب کیے جانے بارے صحافت کو بہت پذیرائی ملی ہے۔ بدعنوانی بلاشبہ قبیہہ عمل ہے اور اس کو عیاں کیا جانا کار ثواب مگر وہ کون سے ذرائع ہیں جو "چند ایک” صحافیوں کو ہی مخصوص ادوار میں مخصوص افراد کی بدعنوانی سے متعلق پوری کی پوری فائلیں پکڑا جاتے ہیں۔ وکی لیکس کو تو ایک سارجنٹ نے معلومات دی تھیں مگر پاکستان میں تو یوں لگتا ہے کہ ہر محکمے اور ادارے میں ایک سے زیادہ دیانتداری کے امین "سارجنٹ” بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس قسم کی "تحقیقی رپورٹنگ” بھی دراصل خاص طور پر کروائی جاتی ہے۔ یہاں ہی نہیں بلکہ "نیویارک ٹائمز” جیسے اخبارات کے لیے بھی کروائی جاتی ہے۔ وہاں اپنے ہاں کے "مگرمچھوں” کو نمایاں نہیں کیا جاتا بلکہ پاکستان میں "مگرمچھ” بننے کے خواہشمندوں کو ننگا کرکے بدنام کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ملک ریاض جیسے جغادری ٹی وی کی سکرین پر آ کر ہر کام رشوت دے کر کروانے کا نہ صرف اعلان کرتے ہیں بلکہ اپنے اعمال کو "اللہ کے ساتھ کاروبار کرنے” کا نام دیتے ہیں مگر کوئی مائی کا لال ایسا نہیں جو ان کی زبان پکڑ لے۔ الٹا وہ کہہ دیں گے "تم گھر سے آئے اور اینکر بن بیٹھے دس پندرہ لاکھ ماہانہ لے لیا، کبھی کاروبار کیا ہے تم نے” مگر سلیم صافی جیسے صحافی کو یہ کہنے کی ہمت نہیں کہ "میں اللہ کے ساتھ ایسا گھناؤنا کاروبار نہیں کر سکتا”۔
آپ اسلام کے نام پر چینل کھول لیں اور سالہا سال ٹیکس ادا نہ کریں۔ ایگزیکٹ والے تو پکڑ لیا لیکن ایسے چینل پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا۔ آپ اربوں ہڑپ کر جائیں لیکن آپ کا ایک مضبوط اخبار اور ایک مقبول چینل ہونا چاہیے۔ اربوں کا ہیر پھیر کرتے ہیں اسلیے نہ مقدمہ بنے گا، نہ پکڑے جائیں گے اور نہ سزا ہوگی۔
ذرائع ابلاغ عامہ ضروری ہیں اور ان سے بہت ہی سچ کی توقع بھی نہیں کرنی چاہیے۔ زیر سطر یا خبر سے پیچھے کے معاملات پر غور کرنا سیکھنا چاہیے تو مسئلے زیادہ بہتر طور پر عیاں ہونگے۔ امریکہ کی بالادستی کو سمجھ کر، پاکستان کے نظام کو جان کر، روس کی مغرب سے جھلاہٹ اور مغرب کے روس سے عناد، مشرق وسطٰی میں حاکموں کی حیثیت اور اسلام پسندوں کی اقتدار کے لیے جنگ سے آشنا ہو کر آپ خبروں کو زیادہ بہتر طور پر جان پائیں گے۔ یقین کیجیے!
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر