نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امڑی سینڑ کے شہر میں|||حیدر جاوید سید

فقیر راحموں کے بقول بابری مسجد پر ہندو توا کے حامیوں کی یلغار اور مسجد گرائے جانے کے جواب میں ایماں کی حرارت والوں نے دانش کو گرادیا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امڑی سینڑ کے شہر میں ہوں، ملتان ملتان ہے، شاعر نے جنت نشان ملتان بھی کہا۔ دستیاب تاریخ کے حساب سے پانچ سے سات ہزار برسوں سے موجود آباد شہر، قدیم ہندو دیو مالائی روایات پر جائیں تو بیس سے تیس لاکھ سال کے درمیانی عرصہ کی ایک نشانی یہاں ” پرہلاد مندر ” بھی موجود تھا جو بابری مسجد پر ہوئی ہندو توا کی چڑھائی کے جواب میں زمین بوس کردیا گئیا ۔ عرف عام میں یہ پرہلاد مندر تھا۔ بہت سے محققین نے اس عمارت کو ’’دانش کدہ پرہلاد‘‘ بھی کہا لکھا ہے۔

ان کی رائے میں راجہ پرہلاد اس خطے کا پہلا توحید پرست حکمران تھا اور یہ عمارت اس کا دانش کدہ یعنی درسگاہ تھی۔ جناب بہاء الحق زکریا ملتانیؒ کی خانقاہ اسی دانش کدہ پرہلاد کے پہلو میں آباد ہے۔

دانش کدہ پرہلاد کو زمین بوس کرکے بابری مسجد کا حساب چکتا ہوا؟

فقیر راحموں کے بقول بابری مسجد پر ہندو توا کے حامیوں کی یلغار اور مسجد گرائے جانے کے جواب میں ایماں کی حرارت والوں نے دانش کو گرادیا۔

سچ تو یہ ہے کہ ’’محض دانش کدہ ہی نہیں گرایا گیا بلکہ شہر ملتان کی معلوم اور دیومالائی تاریخ کی واحد نشانی مٹادی گئی‘‘۔

سادہ لفظوں میں کہیں تو یوں کہ ملتان اور ملتانیوں کا سر کاٹ دیا گیا۔

دوسرے سینکڑوں ہزاروں لاکھوں ملتانیوں کی طرح مجھے بھی اپنی جنم بھومی ملتان عزیزجاں ہے۔ جی تو یہی چاہتا ہے کہ ملتان س کہیں نہ جایا جائے صبح و شام اسی شہر میں بسر ہوں لیکن یہ غم روزگار آدمی کو کہاں کہاں لئے پھرتا ہے۔

نصف صدی سے چند برس اوپر ہوگئے ہم بھی خوب گھومے گھومائے گئے اس روزگار کے ہاتھوں۔ یہی زندگی ہے۔ زندہ انسان کو ہاتھ پائوں تو چلانا پڑتے ہیں۔ اب وہ زمانہ تو رہا نہیں کہ آسمان سے طعام اترے۔ اب تو بارش بھی بہت کم اترتی ہے۔ ماحولیات کے رولے گولے ہیں۔

ملتان ملتان ہے۔ قدیم تاریخ سے آباد شہر علم و دانش کا مرکز۔ تاریخ کی نشانیوں میں سے ایک زندہ و آباد نشانی۔

پچھلی سپہر ہمارے دوست ملک عاشق حسین تشریف لائے تو ہم ملکر ملتان اور ملتان کی تاریخ کے اوراق پلٹنے لگے۔ گفتگو کے درمیان ایک مرحلہ میں ملک عاشق بولے شاہ جی اب ملتان واپس پلٹ آئو بہت رہ جی لیا اِدھر اُدھر۔

عرض کیا جی تو یہی چاہتاہے سامان سفر اور کتابیں اٹھائوں اور اپنی امڑی کے شہر میں آن بسوں۔ بس کچھ مجبوریاں اور کچھ "بیڑیاں ” ہیں۔ تقریباً یہی بات دو دن اُدھر کی شب ہمارے لائق احترام دوست پروفیسر تنویر خان صاحب نے بھی کہی۔ بولے، شاہ جی ملتان میں آن بسو پھر سے۔ یہیں محفل دوستاں سجائو۔ یہ جو تمہاری آمد پر ایک محفل سجتی ہے قیام کی صورت میں ہفتے میں دو تین بار انعقاد ممکن ہوجائے گا۔

مجھے جب بھی کوئی دوست واپس امڑی کے شہر میں آن آباد ہونے کی ترغیب دیتا ہے تو آنکھیں اپنی بے بسی اور مجبوری پرنم ہوجاتی ہیں۔

امڑی کے شہر سے دور آباد ہونے کے دکھ کتنے ہیں یہ ان سے پوچھا سمجھا جاسکتا ہے جو روزگار کے جھمیلوں کی وجہ سے ملتان سے دور بستے ہیں۔

ہم ملتانیوں کے لئے تو کبھی چوک خونی برج سے لوہاری دروازے تک کا سفر ہی پردیس کا سفر شمار ہوتا تھا۔ لیکن اب بہت سارے ملتانی انڈس ویلی سے دور کے دیسوں میں آباد ہیں ان پردیسیوں میں سے کچھ سے اپنی یاد اللہ بھی ہے۔

جب کبھی سوشل میڈیا یا ٹیلیفون کے توسط سے ان سے رابطہ ہوتا ہے تو وہ عزیزواقارب سے پہلے ملتان کا حال دریافت کرتے ہیں۔

ویسے تو کوئی بھی شخص اپنے آبائی شہر کی یادوں سے دامن خالی نہیں کرپاتا لیکن ملتانیوں کا معاملہ مختلف ہے وہ جہاں بھی ہوں ملتان آنکھوں، دل اور دماغ میں بستا ہے۔ کہیں دو ملتانی اکٹھے ہوں تو گفتگو گفتگو میں ملتان کی سیر شروع کردیں گے۔

میرے ساتھ بھی اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔ پہلے جب صحت اچھی تھی بنا سہارے کے چل سکتا تھا تو بھلے چند ہفتوں کے بعد ہی ملتان آنا ہو شہر میں خوب گھومتا اور دوستوں سے ملتا تھا۔ اب علالت کی مجبوری ہے۔

ملتان آتا ہوں لیکن گزرے ماہ و سال کی طرح شہر کے گلی کوچوں اور بازاروں میں زندگی کو قریب سے نہیں دیکھ پاتا۔ کچھ دوستوں کی مہربانی ہے وہ شب و روز کے ٹھکانے پر تشریف لے آتے ہیں خوب محفل جمتی ہے۔

کچھ دوست قدرے زیادہ مہربان ہوتے ہیں کسی دوست کی اقامات گاہ یا کیفے پر محفل رکھ لیتے ہیں لانے لے جانے کا فرض خلوص سے نبھاتے ہیں۔

اس طرح بند کمرے سے نکلنے کا موقع میسر آجاتا ہے۔ دوست بڑی نعمت ہیں اور ملتانی دوست نعمت تمام۔ اس بار ملتانی منڈلی کی محفل نہیں جم پائی۔ قائد ملتانی منڈلی کی کاروباری ذمہ داریاں انہیں شہر شہر لئے پھرتی ہیں۔ ہم تو ان کی اور منڈلی کے دوستوں کی صحت و سلامتی کے لئے دعاگو ہیں۔

ملتانی سنگت والے دوست اپنی وسوں کے معروف عالم دین قبلہ سلیم محمدی مرحوم کی قل خوانی میں شریک ہوئے ان سے وہاں ملاقات ہوگئی۔

بعدازاں برادر عزیز عامر شہزاد صدیقی نے ایک مقامی ہوٹل پر چائے کی دعوت پر دوستوں کو یکجا کرلیا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے کی اس محفل میں کامریڈ درجہ اول استاد منیر الحسنی کے فضائل و مناقب خوب بیان ہوئے اور اپنے فضائل و مناقب پر وہ خود بھی کھل کر داد دیتے رہے (اپنے ان فضائل و مناقب سے وہ خود بھی آگاہ نہیں تھے۔ )

استاد درجہ اول کا کامریڈ ہے۔ راہ چلتی ہوئی مصیبت اور خوشی دونوں میں شرکت کو فرض زندگی سمجھتا ہے۔

پچھلی شام عزیزان گرامی مبشر علی فاروق ایڈووکیٹ اور ماہر تعلیم زبیر فاروق سے بھی خوب نشست رہی۔ اس نشست میں عزیزم آصف سیال بھی شریک ہوئے۔

بار دیگر عرض ہے ملتان ملتان ہے۔ اپنا تو قبلہ کعبہ اور جنت سبھی کچھ ملتان ہی ہے۔ ہماری امڑی نے پانچ عشروں سے اوپر اس شہر میں اپنے علم و فہم کا چراغ روشن رکھا۔ نانی اماں اور بڑی خالہ جان مرحومہ بھی اپنے وقت کی معروف عالمائیں تھیں۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب امڑی کے شہر میں کبھی کہیں کوئی راستہ روک کر یا کسی محفل میں پاس آکر دریافت کرے

’’سئیں تساں وعظ آلی بی بی جی دے پوتر ہو؟‘‘

سچ پوچھیں تو اپنے اس تعارف پر سب کچھ صدقہ کرسکتا ہوں۔ ماں جیسی مقدس ہستی کا وجہ تعارف ہونا نعمت سی نعمت ہے۔ اب کی بار امڑی کی تربت کے علاوہ اپنے بابا جان مرحوم کی تربت پر بھی حاضری کی سعادت حاصل کی۔

قبرستان کے اس احاطے میں جہاں بابا جان آرام کررہے ہیں قریب ہی نانا جان مفتی پیر سید عبدالرحمن بخاریؒ، نانی اماں اور ماموں احمد شاہ کے علاوہ کئی بزرگ و عزیز مدفون ہیں ان میں ہمارے خالو پیر سید اکبر شاہ، خالہ جان ان کی دو صاحبزادیاں اور داماد۔

خود ہماری ایک چھوٹی بہن جو بچپن میں دائمی جدائی کا دکھ دے کر دنیا سرائے سے رخصت ہوگئی تھیں۔ بابا جان اور دیگر مرحوم بزرگوں اور عزیزوں کی قبروں پر فاتحہ خوانی کے بعد کافی دیر تک اپنی مرحومہ چھوٹی بہن کی قبر پر کھڑا رہا۔

پچپن چھپن برس پرانی یادوں نے دستک دی۔ کیا معصوم سی صورت تھی، پیاری بھولی بھالی سی جو موت کا رزق ہوگئی۔ موت سے فرار کس کو ہے کسی کو نہیں۔

سانسوں کی ڈور کب کہاں کٹے اور زندگی کی پتنگ حیاتی کے آسماں سے زمین کی کوکھ میں رکھ دی جائے۔

امڑی کہا کرتی تھیں ’’بندہ تو مسافر ہے اس جہاں میں زندہ وہی رہتا ہے جو آس پاس والوں سے حسن اخلاق سے پیش آئے، ایثار کرے‘‘

اپنی ذات میں امڑی ہماری مجسم اخلاق و علم اور ایثار تھیں ، یوں تو مجھے سارا ملتان محبوب ہے لیکن دو مقامات ایسے ہیں جہاں قلبی سکون میسر آتا ہے اولاً اپنی امڑی جان کی تربت اور ثانیاً حضرت شاہ شمسؒ کی خانقاہ۔

دونوں جگہ بلاخوف حال دل بیان کیا جاسکتا ہے شہادت کے خطرے کے بغیر ۔

کالم کے دامن میں گنجائش ختم ہوئی باقی باتیں پھر سہی۔ ملتان اور ملتانی دائم آباد رہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author