حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معروف "ماہر معاشیات ” اور تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل اسد عمر کہتے ہیں ’’سفارتی مراسلہ کے معاملہ پر ڈی جی آئی ایس پی آر وضاحتیں نہ دیں، یہ سیاسی جماعتوں کا معاملہ ہے۔ یہ بھی کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی قیادت کو مراسلہ میں سازش نظر آرہی تھی۔ سیاسی معاملات کی تشریح آئی ایس پی آر کا کام نہیں‘‘۔
عسکری حکام کے ترجمان اور آئی ایس پی آر کے سربراہ کہتے ہیں ’’قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کسی سروس چیف نے سازش کا ذکر نہیں کیا۔کمیشن بنانا حکومت کا اختیار تھا یہی اختیار موجودہ حکومت کے پاس بھی ہے۔ کمیشن بنا تو تعاون کریں گے۔‘‘
آپ نے دونوں بیان پڑھ لئے۔ ان میں فرق یہ ہے کہ عسکری حکام کے ترجمان نے اپنے دیرینہ موقف کا ہی اعادہ کیا ہے۔ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل نے نئی بات کی ہے۔ یہ نئی بات دو حصوں میں ہے ایک یہ کہ سفارتی مراسلہ سیاسی معاملہ ہے آئی ایس پی آر سیاسی معاملات کی تشریح نہ کرے۔ نیز یہ کہ اجلاس میں موجود سویلین قیادت کو سازش نظر آرہی تھی۔
سادہ سا مطلب یہ ہے کہ سازش کے معاملے پر سویلین قیادت اور عسکری حکام متفق نہیں تھے۔
سازش کا بیانیہ تحریک عدم اعتماد آنے کے بعد گھڑا گیا۔ اصولی طور پر 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد آئینی پابندی یہ تھی کہ 28مارچ تک 21 دنوں میں اس کا فیصلہ ہوجاتا۔
پارلیمان سے باہر سازش سازش کھیل کر فضا بنانے کی حکمت عملی ہی اصل سازش تھی اور اس کے ذمہ دار عمران خان، فواد چودھری، شاہ محمود قریشی، بابر اعوان وغیرہ تھے۔
شیخ رشید کا ایک حالیہ انٹرویو حوالے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ” ہمیں چار ماہ قبل معلوم تھا کہ تحریک عدم اعتماد آئے گی اور کامیاب بھی ہوگی میں نے وزیراعظم کو آگاہ کردیا تھا وزیراعظم نے اس عرصہ میں بعض ایسے فیصلے کئے جو آنے والی حکومت (جو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں آنی تھی) کے لئے بارودی سرنگیں بچھادی گئیں "۔
ان بارودی سرنگوں میں سب سے خطرناک آئی ایم ایف سے معاہدہ تھا اور پھر اس معاہدے کے برعکس اقدامات مثلاً حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف سے طے کیا کہ ہمہ قسم کی سبسڈی ختم کردی جائے گی۔ پٹرولیم لیوی (ٹیکس) 30روپے فی لٹر کیا جائے گا۔ پٹرولیم کی قیمتیں سبسڈی کے بغیر ہوں گی۔ عمران خان نے پٹرولیم فی لٹر 10روپے اور فی یونٹ بجلی پر 5 روپے سبسڈی دیتے ہوئے قیمتیں بجٹ تک فریز کردیں۔
عجیب بات ہے نا کہ حکومت پاکستان معاہدہ کررہی ہے وزیراعظم معاہدہ سے الٹ اقدام فرمارہے ہیں اور ان کے حواری نعرہ زن ہیں کہ پہلا وزیراعظم ہے جسے سبسڈی دینے پر مجرم قرار دیا جارہا ہے۔
کہتے ہیں عقل نہ ہو تو موجیں ہی ہوتی ہیں۔
حکومت پاکستان کا معاہدہ پاکستان کے گلے ہی پڑنا تھا سو پڑگیا۔
یہاں ساعت بھر کے لئے رک کر موجودہ حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان دوحا میں ہونے والے مذاکرات میں سامنے آنے والے آئی ایم ایف حکام کے موقف کو پڑھ لیجئے۔ اُن آئی ایم ایف کے حکام کاکہنا تھا کہ
’’عمران حکومت نے پٹرول اور بجلی مہنگی کرنے کے جو وعدے کئے تھے وہ پورے کئے جائیں کسی نئے پلان پر مذاکرات ہوں گے نہ آرڈیننس پر ہوئے اقدامات پر سابق حکومت کے معاہدہ پر عمل کرنا ہوگا‘‘۔
اس عمل میں سٹیٹ بینک کی خودمختاری کے لئے ہوئی قانون سازی کو نہ چھیڑنے کی شرط بھی شامل ہے۔
یہاں المیہ یہ ہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کے درشنی فیشنی مخالف ڈھنگ کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ان کے خیال میں جو عمران کہہ رہا ہے وہ مقدس کتابوں کے بعد کا پورا سچ ہے باقی سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ عمران ایماندار اور باقی سب چور ہیں۔
” ایماندار خان ” کا اپنا سیکرٹری جنرل کہہ رہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیاسی قیادت سازش پر متفق تھی۔ پہلے کہتے تھے سیاسی اور عسکری قیادت دونوں سازش پر متفق تھے اڑھائی ماہ بعد تسلیم کیا کہ سازش کے معاملے پر اتفاق رائے نہیں تھا۔
سفارتی مراسلے کی زبان پر ان سطور میں ایک سے زائد بار تفصیل کے ساتھ عرض کرتے ہوئے تین سابق سیکرٹری خارجہ صاحبان کا موقف بھی پیش کرچکا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم صرف اپنی رائے یا پسندیدہ شخص اور کتاب و تحریر پر یقین کرتے ہیں۔ پہلے سے طے کرچکے ہوتے ہیں کہ ہم صرف سچے ہیں۔ طہارت بھرا موقف فقط ہمارا ہے۔
سفارتی مراسلہ اور سازش کے حوالے سے پیش کی گئی معروضات کے جواب میں جو سننے کو ملا اسے دہرانے یا جواب آں غزل کی ضرورت اس لئے نہیں کہ نصف صدی سے یہی سب کچھ بھگت رہے ہیں۔
ہم سیاستدانوں کو انسان تو رہنے ہی نہیں د یتے اپنی اپنی پسند کے سیاستدان کے ارشادات کو مقدسات کے بعد مقدس سمجھتے ہیں نتیجہ ایک ایسی ہٹ دھرمی ہے جو ہم سب کا پسندیدہ رزق ہے۔
مکرر عرض کئے دیتا ہوں عمران خان پچھلے برس جولائی سے اپنے خلاف سازش سے آگاہ تھے (یہ انہوں نے خود کہا ہے) شیخ رشید کے بقول ہم 4ماہ قبل تحریک عدم اعتماد لائے جانے سے آگاہ تھے۔
یعنی اکتوبر 2021ء کے آخر یا نومبر کے شروع میں انہیں پتہ چل گیا تھا۔ سفارتی مراسلہ 7مارچ کو موصول ہوا تحریک عدم اعتماد 8مارچ کو آئی۔
آئینی طور پر اس کا تین ہفتوں میں فیصلہ ضروری تھا۔ 7مارچ کو مراسلہ آیا تو 27مارچ کے جلسہ تک پورے بیس دن اس مراسلہ پر انصافی حکومت چپ کیوں بیٹھی رہی۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیوں نہ بلایا گیا۔
قومی اسمبلی کا اجلاس بلاتے، پارلیمان کا مشترکہ اجلاس رکھتے مراسلہ اس کے سامنے رکھتے ، لیکن درست طریقہ اختیار کرنے کی بجائے 27مارچ کے جلسہ میں سازش کا شوشا چھوڑا گیا۔
حامی اس پر ’’ایمان‘‘ لے آئے۔ 27مارچ سے 9اپریل تک غیرآئینی ہتھکنڈوں کے لئے تو بہت وقت تھا لیکن اسی عرصہ میں عدالتی کمیشن کیوں نہ بنالیا گیا۔ عمران خان جو کمیشن بنانا چاہتے تھے وہ کیوں نہ بن سکا؟
باردیگر عرض کئے دیتا ہوں مراسلہ سازش نہیں تھا مراسلہ کو سازش بناکر پیش کرنا ایک سازش تھا اور ہے ، عمران خان اور ان کے ساتھی اس سازش کو آگے بڑھارہے ہیں۔
ایک اور سفید جھوٹ یہ ہے کہ ہم روس سے سستا تیل لینے کی بات کررہے تھے۔ حماد اظہر نے اس ضمن میں جو خط سوشل میڈیا پر لہرایا وہ خود ان کی وزارت کے ریکارڈ میں موجود ہے نہ روسی حکومت کو وزارت خارجہ کے توسط سے بھجوانے کا کوئی ریکارڈ دستیاب ہے۔
بہت احترام اور دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی ’’جھوٹ کی نائو‘‘ چلارہے ہیں ان کے حامی اس پر ایمان لاچکے۔ وہ یہ سب کیوں کررہے ہیں کیا کوئی سازش ہے یا کم فہمی کا نتیجہ۔
دوسری بات درست لگتی ہے۔ سیاسی بصیرت سے محرومی بلنڈر کرواتی ہے۔ ایک بار پھر عرض کروں گا ابتدائی سطور میں اسد عمر اور آئی ایس آر کے سربراہ دونوں کے تازہ ارشادات کو بغور پڑھ لیجئے، بات سمجھ میں آسکتی ہے یعنی سفارتی مراسلہ میں سازش کا ذکر ہے یہ عمران رجیم کا موقف ہے۔ مراسلے سے سازش ثابت نہیں ہوتی یہ عسکری حکام کے ترجمان کی رائے ہے۔
ان دونوں آراء میں سے سچ تلاش کرنا ہے۔ کیا عمران خان کو مراسلہ موصول ہونے کے فوراً بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلاکر جوڈیشل کمیشن کی طرف نہیں بڑھنا چاہیے تھا۔
ان کی حکومت پورے 20دن سفارتی مراسلہ کو دباکر بیٹھی رہی یا اس میں من مرضی کی تبدیلیاں کرواتی رہی؟
یہ بذات خود ایک سوال ہے۔
الزام لگانے اور سازش سازش کھیلنے کا خدائی حق صرف عمران خان اور انصافیوں کے پاس ہی تو نہیں دوسروں کے منہ میں بھی زبان ہے لیکن زیادہ بہتر یہ ہوگا کہ عدالتی کیمشن بنالیا جائے تاکہ سازش کے جھوٹ کا سودا مزید نہ بیچا جاسکے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ