دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پڑوس میں ہی کیوں گھر میں کیوں نہ دیکھیں؟ |||حیدر جاوید سید

ہم تو یہ کہتے ہیں کہ منتخب ارکان اسمبلی تنخواہیں اور دوسری مراعات نہ لیں بس اجلاسوں میں شرکت کے اخراجات کا بوجھ ملکی خزانے پر ڈالیں اللہ نے انہیں سب کچھ دے رکھا ہے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صرف ہمسایہ ملک کا دفاعی بجٹ ہی کیوں دیکھا جائے، جی ڈی پی گروتھ کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر اور وقت ملے تو گزشتہ 40سالوں کے دوران اس کی امپورٹ ایکسپورٹ پر بھی نگاہ ڈال لیتے ہیں۔ آئی ٹی کے شعبہ میں اس نے جو جھنڈے گاڑے اس پر بھی نگاہ ڈال لیجئے۔
تلخی محسوس نہ ہو تو ذرا ہمسایہ ملک بلکہ افغانستان کے علاوہ دیگر پڑوسی ممالک کے دفاعی شعبہ کے حاضر و سابقین کے معیار زندگی کو بھی ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔
معاف کیجئے گا کب تک اپنے لوگوں کو ڈراتے بہلاتے رہیں گے۔ اعتراضات اور سوال غلط نہیں، آپ جسے شور کہہ رہے ہیں وہ دکھ ہیں، محرومیاں ہیں جو اب زبانوں تک نوحوں کی صورت آگئے ہیں۔ کسی ایک دوسرے ملک کا نام بتادیجئے جس کی بری فوج کے سابق سربراہ نے پینٹاگون کے تھنک ٹینک میں ریٹائرمنٹ کےبعد ملازمت کی ہو۔
کسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے امریکی ہسپتال کے سکیورٹی سربراہ کے فرائض سنبھالے ہوں ریٹائرمنٹ کے بعد۔ یا پھر کسی آرمی چیف کی صاحبزادی کی شادی کے موقع پر نئی 32گاڑیاں سلامی میں اور دو بڑے جیولرز کی جانب سے تحائف ملے ہوں۔ کسی آرمی چیف نے ’’فرینڈز‘‘ ے نام سے این جی او بناکر فنڈ لئے ہوں؟
سوال اور بھی ہیں لیکن اس سے پہلے یہ عرض کئے دیتا ہوں، حب الوطنی کے معیارات ہمیں بالکل نہ سمجھائیں بتائیں۔ یہ جنس بازار نہیں کہ آپ نے استطاعت کے مطابق ایک پائو خرید لی اور ہم رتی ماشہ بھی نہیں لے سکتے۔
حب الوطنی خون میں شامل ہوتی ہے۔ یہاں سب محب وطن ہیں یہ درشنی فیشنی حب الوطنی اور توڑے دار غداری دونوں فراڈ ہیں۔
یہ ملک 22، 23کروڑ لوگوں کا ملک ہے وہی اس کے مالک ہیں۔ طبقاتی امتیازات، مالکانہ ذہنیت سب غلط ہے۔ مسلح افواج ہو، پولیس یا دوسرے سرکاری محکمے، ان میں فرائض ادا کرنے اور قربانیاں دینے والے ہمارے ہی درمیان میں اٹھے ہیں۔
ہمارے ہی بھائی، بھانجے، بھتیجے ہیں۔ نہ وہ آسمانی مخلوق ہیں نہ ہم غلام ابن غلام رعایا۔ شکوے اپنوں سے ہوتے ہیں۔ شکوہ یہ ہے کہ 50فیصد آبادی غربت کا شکار ہے اس میں سے 37فیصد خط غربت کی لکیر سے نیچے آباد ہیں۔
شکوہ یہ ہے کہ اس ملک میں ہر گالی سیاستدان کو دلوائی گئی پہلے فوجی آمر ایوب خان کے ایبڈو قانون سے 2018ء کے الیکشن تک مینجمنٹ کس نے کی اور کیوں کی ؟
اختلاف رائے زندہ معاشرے میں ہوتا ہے مردہ معاشرے کی نشانی یہ ہے کہ اختلاف رائے کرنے والوں پر الزامات کی سنگ باری کی جائے، اٹھالیا جائے۔
تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ کبھی حاکمان وقت اور بالادست طبقات کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے گھر مسمار کردیئے جاتے تھے ان کی بستیوں پر لشکر کشی ہوتی تھی ایک ’’باغی‘‘ کو سزا دینے کے لئے پوری بستی تاراج تاکہ دہشت پھیلے۔
ہم سے طالب علموں کو لگتا ہے کہ تاریخ اپنے اندر درج واقعات کے ساتھ ہمارے چار اور ناچ رہی ہے۔ اس کی ضرورت کیوں پڑی؟
دنیا بھر کا قدیمی اصول ہے جس کی زمین وسائل اسی کے۔
مکرر عرض کروں، ہم پڑوسی ملک کو کیوں دیکھیں، اپنی چادر، وسائل اور ضرورت کو کیوں نہ دیکھیں۔ کسی دن دل پر ہاتھ رکھ کر یہ بتادیجئے کہ چار بار براہ راست حکمرانی اور درجن بھر کے قریب انتخابی "جمع بندیوں ” کا فائدہ کیا ہوا۔
یہاں بھٹو کو دفعہ 109 میں پھانسی چڑھادیا گیا اور دستور شکنی کے مرتکب جنرل پرویز مشرف کو ملک سے باہر جانے کا محفوظ راستہ ’’بزور‘‘ دلوایا گیا۔
کہا گیا مشرف کے خلاف مقدمے اور فیصلے سے فوج کے مورال پر اثر پڑا۔ کیا بھٹو کی پھانسی اور بینظیر بھٹو کے قتل سے عوام کا مورال متاثر نہیں ہوا؟
یاد تو کیجئے کہ 1965ء کی جنگ یا پھر 1971ء کی جنگ کے دنوں میں اس ملک میں کیا فضا تھی۔ ایک زمانہ تھا کہ خاکی گاڑیاں دیکھ کر بچے سڑک پر محبت سے رک جاتے اور سلیوٹ پیش کرتے تھے، دوریاں کیوں پیدا ہوئیں؟
لمبی کہانی ہے اصل بات یہ ہے کہ اس ملک اور آئندہ نسلوں کے لئے سب کو اپنے حصے کا کردار ادا کرنا چاہیے ہر کس و ناکس اپنی بساط کے مطابق قربانی دے۔
ہم تو نصف صدی سے کہہ لکھ رہے ہیں کہ واہگہ کے دونوں اور کے ممالک نے جتنے وسائل جنگی سازوسامان پر خرچ کئے ان کے نصف سے دونوں ملک جنت کی طرح بنائے جاسکتے تھے ۔
پڑوسیوں کیا بھائیوں تک میں اختلافات ہوتے ہیں۔ انسانی تاریخ ہمیں سمجھاتی ہے کہ اختلافات بالآخر میدان جنگ میں نہیں مذاکرات کی میز پر طے ہوتے ہیں۔
مہنگائی کے تناسب کی آپ نے بات کی، اس سے سبھی متاثر ہوئے اور بری طرح متاثر ہوئے۔ ابھی 2017ء میں چھوٹا گوشت 750 سے 800کلو تھا اب 15سو سے 17سو روپے کلو لگی کے دائو پر فروخت ہوتا ہے۔
ملتان کا کرایہ 700رپے سے 1600روپے ہوگیا لاہور سے (ویسے کبھی 5روپے بھی ہوتا تھا) اب بھی سرکاری ملازمین کی تنخواہیں مہنگای کی شرح کے مطابق نہیں بڑھیں۔
اچھا ویسے دفاعی بجٹ پر اعتراض نہیں ہوا۔ کہا یہ گیا کہ معاشی ابتری کے اس زمانے میں ہر قسم کے اخراجات میں کٹوتی کی جائے۔
ترقیاتی و غیرترقیاتی دونوں قسم کے اخراجات میں۔ افسروں کو دو تین کروڑں والی گاڑیوں کی بجائے 800سو سی سی اور 1000 سی سی والی گاڑیاں استعمال کرنی چاہئیں۔
ہم تو یہ کہتے ہیں کہ منتخب ارکان اسمبلی تنخواہیں اور دوسری مراعات نہ لیں بس اجلاسوں میں شرکت کے اخراجات کا بوجھ ملکی خزانے پر ڈالیں اللہ نے انہیں سب کچھ دے رکھا ہے۔
کسی خاص محکمے اور شخص کی کردار کشی مقصود نہیں اور کبھی تھی نہیں آئینہ چوک میں رکھا بس ،
ریاست اور فرد چکی کے دو پاٹ ہیں جس کسی نے یہ کہا کہ ریاست اور محکمے چکی کے دو پاٹ ہیں وہ شہریوں کو ان دو پاٹوں میں پیسنے کے جنون کا شکار ہے۔
شکوہ یہ ہے کہ صرف الیکشن ہی مینج نہیں ہوتے رہے نصف صدی سے سیاستدانوں اور جمہوریت کے خلاف منظم پروپیگنڈہ ہوا۔ یہ پروپیگنڈہ کہاں سے مینج ہوا وسائل کس نے فراہم کئے۔ یہ درون سینہ راز ہرگز نہیں۔
ہم ایسے لوگ صرف یہ کہتے ہیں کہ تجربوں کا شوق ترک کردیجئے۔ آپ کے شوق تجربات کا خمیازہ اس ملک اور عوام نے بہت بھگت لیا۔
اکتوبر 2011ء میں جو تجربہ آپ نے شروع کیا تھااب سنائیں وہ کیسا رہا؟ امید ہے مزہ آرہا ہوگا
باردیگر عرض ہے اپنے طور طریقے سبھی کو بدلنا ہوں گے۔ عام آدمی کی خاطر تھوڑی تھوڑی قربانی سب کو دینا ہوگی۔ یہ ملک ہم سب کا ہے۔
درجہ اول و دوئم کا شہری کوئی نہیں۔ جب ووٹ کا حق برابر ہے تو انصاف بلاامتیاز ملنا چاہیے۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہونی چاہیے۔
عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات کو ایک جیسی اہمیت دی جانی چاہیے۔ ریٹائرمنٹ یا دوران ملازمت پلاٹ یا گھر دینے ہیں تو پھر سارے سرکاری ملازمین حق دار ہیں
ورنہ سب اپنے اپنے فرائض کی بجاآوری کا حق خدمت لیتے ہیں اور ریٹائرمنٹ پر پنشن بھی۔
معاشرے وہی زندہ و سلامت رہتے ہیں جن کے طبقات ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کریں۔ طبقاتی جمہوریت ہو یا شخصی آمریت، دونوں جمہور کی توہین ہیں اعتراض یہ نہیں کہ دفاعی بجٹ اتنا کیوں ہے اعتراض تو یہ بھی ہے کہ انتخابی اخراجات کروڑوں میں کیوں ہیں ان اخراجات نے معاشرے کے تمام طبقات کو انتخابی عمل میں صرف ووٹر بنادیا ہے حالانکہ وہ مالک و مختار ہیں اس ملک کے۔
بدقسمتی کہہ لیجے ملک کے اصلی مالکوں ( عوام ) کی یہاں سنتا ہی کوئی نہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author