حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
متعدد اخبارات روزانہ پڑھنے پڑتے ہیں۔ خبرنامے سننا مجبوری ہے۔ چند عالمی نشریاتی اور مقامی اداروں کی ویب سائٹس بھی کھنگال لیتا ہوں۔ طالب علم کی مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی، روزی روٹی اسی قلم مزدوری سے بندھی ہے۔ ہم کون سا اس چنیدہ امت کا حصہ ہیں جسے من چاہے پکوان آسمانوں سے بھیجے جاتے تھے۔
پچھلے دو دنوں سے سیاسی موضوعات پر کالم لکھنے کو بالکل جی نہیں کررہا تھا۔ پڑھنے کو کتابیں بہت ہیں لیکن انہیں باندھ لیا گیا ہے اب یہ نئے گھر میں (کرائے کا گھر) میں کھلیں گی۔
سوموار کو پنجاب اسمبلی کے ایوان میں وزارت اعلیٰ سے محروم رہ جانے والے بزرگ سیاستدان نے تماشے لگائے رکھے۔
فقیر راحموں نے بہت اکسایا کچھ اس پر لکھا جائے، عرض کیا تم نے مجھے بجٹ پر نہیں لکھنے دیا اب تمہاری فرمائش پر کیوں لکھیں۔ چلو حساب برابر۔
فقیر کل سپہر سے ناراض ہے۔ بات ہی نہیں کرتا سوال کرو تو ’’نوانصافیوں‘‘ کی طرح غصے سے دیکھتا ہے۔
پڑوس کے ملک بھارت میں دو دن قبل تین ایسے گھر گرائے گئے جو موجودہ جگہ پر 130سے 145سال سے آباد تھے۔ کہتے ہیں یہ گھر غیرقانونی طور پر تعمیر ہوئے۔ مقامی بلدیاتی اداروں کے پاس ان کی تعمیر اور تعمیر نو دونوں کا کوئی ریکارڈ نہیں۔
کل شام دو ویڈیو دیکھ کر دل دکھی ہوا۔ ایک ویڈیو ان شیر جوان پولیس والوں کی ہے جو لاپتہ بلوچ طلباء کی بازیابی کے لئے احتجاج کرنے والے مردوزن پر ٹوٹ پڑے۔ بالکل ایسے جیسے فاتحہ لشکر کے سپاہیوں کی مالِ غنیمت سمیٹنے والی کہانیاں ہماری کتابوں میں لکھی ہیں یہ کراچی میں ہوا سندھ کے دارالحکومت میں وزیراعلیٰ ہاوس کے قریب۔
دوسری ویڈیو بھی کراچی کی ہی ہے۔ کچھ خواتین اپنے بچوں کو اٹھا لے جانے پر سراپا احتجاج ہیں۔ سندھ حکومت اگر سندھ ایپکس کمیٹی کے غیرقانونی اختیارات اور تجاوزات کو رکوانہیں سکتی تو سندھ اسمبلی میں ہاتھ کھڑے کردے۔ صوبے کے شہریوں کو بتائے کہ اس طرح کے اقدامات کون کرتاہے۔
کراچی کا ہی ایک تیسرا وا قعہ ہے، ملک کے ایک معروف نیوز چینل سے منسلک صحافی نفیس نعیم کو سادہ پوش افراد ان کے گھر کے قریب ایک سٹور کے باہر سے اس وقت ڈالے میں ڈال کر لے گئے جب وہ کچھ خریداری کے لئے گھر سے سٹور تک آئے تھے۔ پچھلی حکومتوں کو طعنے کیااور موجود کو کوسنے کیا حاصل ہوگا
سیاستدانوں (وہ جیسے بھی ہوں) کے لتے لینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا جب تک اس ملک میں حقیقی جمہوریت اور قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی۔ ہم صرف اپنی پسند کی جماعت اور لیڈر کا دفاع کرسکتے ہیں ناپسندیدہ جماعتوں اور لیڈروں کو کوس سکتے ہیں۔ حقیقت جانتے ہوئے آنکھیں چراتے ہیں۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ سوموار کو سندھ کے وزیراعلیٰ ہائوس کے قریب جو پولیس گردی ہوئی وہ شرمناک ہے۔ مرد پولیس اہلکاروں کا خواتین اور بچیوں پر پل پڑنا اس خطے کی قدیم روایات کے خلاف ہی نہیں توہین بھی ہے لیکن روایات کو یہاں پچھلے پچھتر سالوں کے دوران مقدم سمجھا گیا ہو تو ان کی پامالی کا رونا روئیں۔
قانون کو یہاں ٹھوکروں پر کون رکھتا ہے سب جانتے ہیں بولتا کوئی نہیں۔ یہاں بجٹ سیشن میں شرکت کے لئے رکن قومی اسمبلی علی وزیر کا پروڈکشن آرڈرجاری نہیں ہوپاتا، کیوں؟
تحریر نویس بھی چپ ہے دوسرے نہیں بولتے تو ہم کیا اور کیوں بولیں۔
کچھ دوست کبھی کبھی کہتے ہیں تمہارے لہجے میں تلخی اور تحریروں میں کاٹ بہت ہے۔ میں مٹھاس پیدا کرنے اور کاٹ کم کرنے کی پوری دیانتداری سے کوشش کرتا ہوں۔ ویسے بھی اب سرمدی نغمہ الاپنے کی عمر تو رہی نہیں ہماری ۔ مصنوعی سہارے سے چلتا ہوا آدمی تو مشکل میں بھاگ بھی نہیں سکتا۔ ویسے شکر ہے جب بھاگنے کی عمر تھی تب بھی نہیں بھاگے۔
چند دن قبل کی ایک تحریر پر سوال ہوا ’’یہ کیا لکھا ہے؟‘‘ عرض کیا 1981ء میں غدار پانے والے سے آپ کیا توقع کرتے ہیں۔ وہ آپ کو فضائل حب الوطنی بتاتا سمجھاتا رہے۔
دو دن سے جی چاہ رہا ہے مرحوم و مغفور شوکت صدیقی کا ناول ’’جانگلوس‘‘ پھر پڑھا جائے۔ لگ بھگ سات بار تو پڑھ چکا۔ کتابیں باندھ کے رکھی ہیں پتہ نہیں کس بورے میں ’’جانگلوس‘‘ آرام کررہا ہوگا۔
صبح میری اہلیہ کہہ رہی تھیں ’’یہ آپ کے اشاعتی اداروں والے آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آپ بھی انسان ہیں اسی دنیا میں رہتے ہیں؟
میں نے خاموشی سے ان کی طرف دیکھا کہنا چاہتا تھا لیکن کہا نہیں کہ وقت سے پہلے بولنے اور تربیت کا حق ادا کرنے کا نقصان ہی ہے، کہا تو صرف یہی کہ
"صبر کے خیمہ میں شکر کی تسبیح کی تلقین ہے حالانکہ صبر سے پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے نہ شکر سے تن ڈھانپا جاسکتا ہے” ،
وہ غصہ سے لائبریری سے اٹھ کر ٹی وی لائونج میں چلی گئیں۔ ہمت ہے ان کی ہم ایسے شخص کو 35برسوں سے جھیل رہی ہیں۔ یہاں تو فقیر راحموں دن میں تین چار بار کلاس نہ لے تو اسے سکون نہیں آتا حالانکہ سب کیا دھرا اسی کا ہے۔
چلئے آپ کو یہ بھی بتادیتے ہیں کہ یہ فقیر راحموں ہے کون اور کیوں، بچوں کے لئے لکھی پہلی کہانی فقیر راحموں کے قلمی نام سے ہی لکھی تھی عنوان تھا ’’محنت کش طالب علم‘‘۔ کہانی کیا آپ بیتی تھی۔ اتفاق سے شائع بھی ہوگئی مزید اتفاق یہ ہوا کہ کہانی بچوں کے صفحہ میں شائع کرنے والے جناب فضل ادیب نے بعد میں ہمیں بطور شاگرد قبول کرلیا تب فرمایا یہ اچھا قلمی نام ہے لیکن لکھا اپنے نام سے ہی کرو۔
یاد پڑتا ہے میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا تھا، حضور اگر مجھے اپنا نام رکھنے کا حق دے دیا جاتا تو میں فقیر راحموں ہی رکھتا۔
بس تب سے یہ ہمارے ساتھ ہے نصف صدی سے زیادہ وقت ہوگیا۔ بحث کرتے ہیں الجھتے ہیں۔ بات توتکار تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر رہ کیا جی بھی نہیں سکتے۔
اب دیکھ لیجئے کل سپہر سے ناراض ہیں مگر مسلط بھی ہیں۔ یہ سطور لکھتے ہوئے درمیان میں ایک دوبار لقمے دیئے حضرت نے۔ کہہ رہا تھا کہ وہ ایک بزرگ سیاستدان کی شادی کا جو رولا پڑا ہوا ہے وہ کیا ہے؟
اس کی رگ رگ سے واقف ہوں اس لئے خاموش رہنے پر اکتفا کیا۔ بزرگ سیاستدان شادی کرے یا حضرت عزرائیلؑ سے مہلت لے کر کوئی شادی کرلے ہمیں کیا۔
’’جب دولت و ثروت ہوتی ہے نزاکت آہی جاتی ہے‘‘۔
اچھا ویسے قبلہ گاہی ڈالر سرکار امریکی، 205روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ 7روپے 92پیسے فی یونٹ بجلی کی قیمت تین قسطوں میں بڑھانے کا فیصلہ ہوا ہے۔
” قسطوں میں موت اچھی ہوتی ہے "۔ فقیر راحموں کہہ رہا ہے یار شاہ جی یہ مفتاح اسماعیل کی زبان کے نیچے بھی زیان ہے کیا؟ کیوں؟
جواب ملا، کل کہہ رہا تھا ہم نے ملک کو سری لنکا بننے سے بچالیا۔ اب کہہ رہا ہے کہ پٹرول اور ڈیزل پر سبسڈی جولائی تک ختم نہ کی تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔
ویسے میں دیوالیہ نہ ہونے کی وجوہات ہفتہ دس دن قبل ان سطور میں عرض کرچکا ہوں البتہ ایک عرض ہے جوکہ حکومت نے ماننی ہرگز نہیں وہ یہ کہ سرمایہ دار طبقات کو ٹیکسوں میں چھوٹ دینے کے لئے رکھے گئے ساڑھے سترہ سو ارب کے ساتھ غیرترقیاتی بجٹ میں کمی کرلی جائے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ دفاعی بجٹ پر نظرثانی کرلی جائے تو کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑے گی۔ زندگی اور حالات نے وفا کی تو پھر اگلے برس یا برسوں میں بڑھالیں گے دفاعی بجٹ۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ روس سے سستا تیل لینے کا سودا فروخت کرنے والے یہ بھی تو بتادیں کہ ملک میں آئل ریفائنریز کتنی ہیں؟
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ