مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل مسلمان بی جے پی کی ایک رہنما کے بیان پر احتجاج کررہے ہیں اور اسے توہین رسالت قرار دے رہے ہیں۔
یہ صرف مسلمانوں کا نہیں، تمام مذہبی لوگوں کا مسئلہ ہے کہ انھیں اپنی ہی مذہبی کتابوں اور روایات کے حوالے دیے جانے پر غصہ آجاتا ہے۔ مسلمان البتہ زیادہ انتہاپسند ہیں اور لکھنے بولنے کو جان سے مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے ایسے کچھ واقعات کی نشاندہی کی ہے جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے کسی بات پر مشتعل ہوگئے۔
اس پی ڈی ایف فائل میں ان اخبارات کے عکس ہیں جب سلمان رشدی کے خلاف روح اللہ خمینی نے فتوی دیا، تسلیمہ نسرین کو اپنا ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا، ڈنمارک کے اخبار میں کارٹون چھپے، چارلی ہیبڈو کے کارٹون چھاپنے پر احتجاج ہوا، مصور ایم ایف حسین کو ہندووں کا ردعمل سہنا پرا، بھارت میں دیپا مہتا کی فلم واٹر کی شوٹنگ نہیں ہونے دی گئی، مسیحی ناول ڈا ونچی کوڈ پر برہم ہوئے اور پاکستان میں علامہ ایاز نظامی کو گرفتار کرکے مقدمہ قائم کیا گیا۔
ایک خاصے کی چیز 1929 کا وہ اخبار ہے جس میں کتاب رنگیلا رسول کے پبلشر راجپال کو قتل کرنے کی خبر شائع ہوئی ہے۔
شاید آپ 10 جولائی 1986 کا وہ اخبار بھی دیکھنا چاہیں جب ضیا الحق کے دور میں توہین رسالت کا قانون منظور ہوا۔ اس کے ساتھ مذہبی رہنماوں کا یہ بیان بھی چھپا کہ آئندہ کسی کو توہین رسالت کی جرات نہیں ہوگی۔
ایک اور واقعے کی طرف میں توجہ دلانا چاہوں گا، جس پر شاید آج تک کسی نے بات نہیں کی۔ اسلام کے ابتدائی دور پر بنائی گئی فلم دی میسج اگر کسی نے نہیں دیکھی تو ذکر ضرور سنا ہوگا۔ یہ فلم 29 جولائی 1976 کو ریلیز ہوئی تھی۔ ریلیز کے وقت اس کا نام محمد، میسنجر آف گاڈ یعنی محمد رسول اللہ تھا۔ یہ مسلمانوں کو برداشت نہ ہوا اور سخت احتجاج کیا گیا۔ اس پر فلم کے شامی نژاد امریکی پروڈیوسر مصطفی العقاد کو فلم کا نام بدلنا پڑا۔ اس خبر والا اخبار اس فائل میں شامل ہے۔
فلم دی میسج کچھ ملکوں کے سینما گھروں میں چلی، باقی ملکوں میں لوگوں نے وی سی آر پر دیکھی اور وقت گزر گیا۔
ربع صدی بعد پاکستان میں جیو ٹی وی نے اس فلم کو اردو زبان میں ترجمہ کرکے پیش کیا۔ تب تک کئی شدت پسند مسلمان تنظیمیں عالمگیر ہوچکی تھیں اور بہت سے ملکوں میں بڑی کارروائیاں ہوچکی تھیں۔
اردن کے دارالحکومت عمان کے ایک ہوٹل میں 2005 میں ایک دھماکا ہوا جس میں مصطفی العقاد اور ان کی بیٹی مارے گئے۔
کیا اردو میں فلم نشر ہونے کے بعد مصطفی العقاد کا قتل محض اتفاق تھا؟ معلوم نہیں۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ