گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزار سید منور شاہ شھید ڈیرہ اسماعیل خان اور درخت۔
ڈیرہ اسماعیل خان کا موجودہ شھر 1825ء میں جب تعمیر ہوا تو اس کی فصیل کے اردگرد ایک سڑک جسے اب سرکلر روڈ کہتے ہیں بنائ گئی اور پھر اس سڑک کے ساتھ تمام باغات تھے جو ایک گرین بیلٹ کی شکل میں تھے۔ اس طرح فصیل کے اندر شھر کے چوتھائ حصے پر درخت تھے۔ ان باغات اور پھولوں کی وجہ سے شھر مہکتا رہتا تھا اور ڈیرہ پھلاں دا سہرا کہلاتا۔ یہ باغات اور درخت ہم نے پچھلے 50 سالوں میں بے دردی سے کاٹ کر سیمنٹ کی عمارتیں کھڑی کر دیں اور گھروں میں درخت لگانے چھوڑ دیے۔اس وقت دنیا میں Climate change کی گرمی سے متاثر ہونے والوں میں ڈیرہ ٹاپ پر ہے۔
آج میں گوگل ارتھ پر ڈیرہ شھر کو دیکھ رہا تھا تو ایک گرین پٹی نظر آئ جس نے مجھے چونکا دیا۔جب زوم کیا تو یہ شاہ سید منور شھید کا مزار اور اس کے گرداگرد قبرستان ہے جو پیلو کے درختوں سے بھرا پڑا ہے۔
شاہ سید منورشھید کا مزار تقریبا“ آٹھ سو سال پرانا ہے جب ہمارا پرانا ڈیرہ موجودہ جگہ سے چھ میل مشرق دریاے سندھ کی طرف تھا اور 1823ء کے سیلاب میں ڈوب گیا۔
یہ مزار اور قبرستان 500 کنال زمین پر مشتمل ہے اور اس میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائ ۔سکھ اور ہندٶں کے متوفین دفن ہیں۔ ہندو اگرچہ اپنے مُردے جلاتے ہیں مگر پھر بھی ان کے کسی فرقے کی قبریں یہاں موجود ہیں۔
حیرت کی بعد یہ ہے کہ ہم زندہ لوگوں نے تو گرین بیلٹ ختم کر دئے مگر ہمارے متوفین نے ایک بڑا گرین بیلٹ سنبھال کے رکھا ہوا ہے۔
میری تمام پاکستانیوں سے گزارش ہے کہ اپنے گھروں میں درخت لگائیں یہ ہماری نسلوں کی بقا کا مسئلہ ہے ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ