دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پرامن اکٹھ اور آزادی اظہار پر قدغن||عامر حسینی

چند درجن بلوچ عورتیں کراچی اسمبلی کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف پرامن احتجاج کرنے پر سندھ پولیس کے تشدد کا نشانہ بن گئیں - کئی ایک کو پولیس نے گرفتار بھی کرلیا -

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے کالج، یونیورسٹی اور بعد ازاں جماعتی سیاست میں جو استاد تھے انھوں نے ہمیشہ ہمیں دو بڑے اصول سکھائے : پہلا اصول پارٹی تنظیم اور پارٹی کی حکومت میں فرق کریں –
(اسٹوڈنٹس یونین کے منتخب نمائندے چاہے آپ کی تنظیم کے ہوں اُن کی کارکردگی کو آپ کی طلباء تنظیم کے عہدے دار واچ ڈاگ کی طرح نگرانی کریں اور انھیں اُن کی زمہ داریوں سے انحراف مت کرنے دیں)
دوسرا شہری آزادیوں خاص طور پر پرامن اکٹھ اور آزادی اظہار پر کسی طرح کی قدغن، ان حقوق کو دبائے جانے پر قطعاً خاموش نہ رہیں چاہے شہر کی بلدیات پر آپ کی پارٹی کی حکومت ہو یا صوبہ میں ہو یا مرکز میں ہو –
کراچی یونیورسٹی کے فلاسفی ڈیپارٹمنٹ سے دو طالب علم سات روز سے جبری لاپتا ہیں جبکہ اُن کو سی ٹی ڈی پولیس کراچی کے اہلکار اٹھاکر لے گئے – اب اُن کی تحویل سے انکاری ہیں –
یہ پہلا واقعہ نہیں ہے – کراچی سے بہت بڑی تعداد میں بلوچ، پشتون، اردو اسپیکنگ مہاجروں کو مبینہ طور پر سرکاری اداروں کے اہلکاروں نے اغوا کرکے جبری گمشدہ کردیا ہے-
یہ جبری لاپتا کس کے کہنے پر کیے گئے؟ اُن کو کہاں رکھا گیا ہے؟ اور کون اس کے پیچھے ہیں؟سندھ حکومت اور انتظامیہ کے چیف ایگزیکٹو کچھ بھی بتانے سے قاصر ہیں –
جب جبری لاپتا ہونے والوں کی رہائی کے لیے احتجاج ہوتا ہے تو سندھ پولیس کے اہلکاروں کو بھیج دیا جاتا ہے – یہ پولیس کے سپاہی رینک کے اہلکار بیچارے اپنے افسران بالا کے حکم کی پیروی کرتے ہیں، گالیاں کھاتے ہیں اور کبھی کبھی تو معطل ہوجاتے ہیں – لیکن کراچی پولیس کا سربراہ، سندھ پولیس کے آئی جی، سیکرٹری داخلہ، وزیر داخلہ اور چیف منسٹر سندھ خاموش رہتے ہیں اور کبھی نہیں بتاتے کہ سیاسی کارکنوں، شاعروں ،ادیبوں، گلوگاروں، اداکاروں، انسانی حقوق کے کارکن، استاد جو اکثر و بیشتر وہ ہوتے ہیں جو حکومت و ریاست کے مہابیانیہ سے اختلاف کررہے ہوتے ہیں – مثلاً اگر کوئی چین-پاکستان کی سٹریٹجک شراکت داری کے نام پر بلوچ قوم کے وسائل کی مبینہ لوٹ مار، سی پیک کی افادیت، بلوچستان میں فوجی آپریشن، کالعدم تکفیری جماعتوں کی آزادانہ سرگرمیوں بارے سوال اٹھائے یا ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں سے خفیہ مذاکرات پر سوال اٹھائے اسے جبری لاپتا کردیا جاتا ہے-
سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ہونے والی جبری گمشدگی آں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، شہری آزادیوں کی پامالی، پولیس تشدد بارے سندھ کا چیف منسٹر جب لاعلمی کا اظہار کرے گا تو سوال تو اٹھیں گے – پولیس، سی ٹی ڈی اور دیگر سویلین اداروں کے زریعے جبری گمشدگیاں کس کے حکم پر ہورہی ہیں.؟ کیا یہ منتخب جمہوری حکومت کے متوازی حکومت چلائے جانے کا اشارہ نہیں ہیں؟
ہم ایسے سوالاٹ اٹھانے سے اس لیے باز نہیں رہ سکتے کہ سندھ میں ہماری جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت ہے –
چند درجن بلوچ عورتیں کراچی اسمبلی کے سامنے جبری گمشدگیوں کے خلاف پرامن احتجاج کرنے پر سندھ پولیس کے تشدد کا نشانہ بن گئیں – کئی ایک کو پولیس نے گرفتار بھی کرلیا –
یہی بلوچ خواتین اس سے قبل کراچی پریس کلب کے سامنے سندھ پولیس کے تشدد کا نشانہ بنیں اور چند ایک کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی –
بلوچ خواتین کا پرامن احتجاجی اکٹھ اور اپنے پیاروں کے جبری اغواء پر پرامن احتجاج سندھ پولیس کی خواتین و مرد سپاہی رینک کے اہلکاروں کو تشدد اور گرفتاریوں پر کیوں اُکساتا ہے؟
کیونکہ ایسے مظاہروں سے عالمی برادری تک یہ پیغام جاتا ہے کہ بلوچ قوم اور اُس کے علاقوں میں ریاستی سیکورٹی و انٹیلی جنس اپریٹس انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے اور بلوچستان میں پاکستان و چین کی طرف سے جاری سی پیک اور میگا پروجیکٹس کا جو ترقی کے نام پر جاری پروگرام کی آڑ میں بلوچ قوم کے ساتھ محکوم و نو آبادیائی گئی آبادی کا سا سلوک ہورہا ہے –
یہ ریاست کی غیر منتخب عسکری ہئیت مقتدرہ اور چین کی حکومت کی طبع نازک پر گراں گزرتا ہے-
ریاست کی ترقی کا بلوچستان، سندھ، کے پی کے (خاص طور پر سابق فاٹا)، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر، سرائیکی وسیب بارے جو ‘مہا بیانیہ’ جو چیلنج کرتا ہے اور اس پر اختلاف رائے رکھتا ہے، اس بارے پرامن سیاسی جدوجہد کرتا ہے اور اپنے موقف کے حق میں رائے عامہ ہموار کرتا ہے اس کو فوراً سے پہلے ملک دشمن، غدار، غیر ملکی ایجنٹ، سپانسرڈ قرار دے دیا جاتا ہے – ایسا کرنے والے سیاسی کارکن ہوں، طالب علم ہوں، شاعر ہوں یا ادیب ہوں یا دانشور اُن کی اکثریت کو جبری لاپتا ہونے کا دھڑکا لگا رہتا ہے یا پھر ماورائے عدالت اغوا کے بعد تشدد سے قتل ہوجانے کا…… اور جب اس طرح کے واقعات پر احتجاج کرتے ہیں تو ریاست کی جابر مشینری حرکت میں آجاتی ہے –
پاکستان کی اسٹبلشمنٹ بلوچستان، سی پیک، میگا پروجیکٹس کی حفاظت کے نام سے بلوچستان میں ریاستی جبر، تشدد، ماورائے آئین و قانون اقدامات کی سرے سے موجودگی کی انکاری ہے-
اُس نے پاکستان کے مین سٹریم می پر ایسے واقعات کی کوریج پر غیر اعلانیہ پابندی عائد کررکھی ہے تاکہ متبادل زرایع (سوشل میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا) سے آنے والی خبروں کو "فیک نیوز” ” ڈس انفارمیشن کہہ کر جھٹلایا جاسکے –
پاکستان اور چین کے حکام نے” سی پیک میڈیا فورم ” کے ساتویں اجلاس میں سی پیک و میگا پروجیکٹس بارے بڑے چیلنج سے نبرد آزما پایا وہ ‘فیک نیوز/ڈس انفارمیشن کا چیلنج ہے-
اس ریاستی بیانیہ کے مطابق آج سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ عورتوں کا احتجاج فیک نیوز ہے

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے

(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوں‌کے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)

About The Author