رسول بخش رئیس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقل ٹھکانے نہ ہو‘ طاقت کی سرمستیاں ہوں اور مفادپرستی کا غلبہ ہو تو پھر پیش آنے والے واقعات پر تعجب کیسا؟ گزشتہ چند ماہ کے دوران کئی اہم جگہوں پر خیالات کے اظہار کا موقع ملا تو کم و بیش ہر جگہ کچھ مشکل سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ زیرِ نظر سطور لکھنے سے پہلے بھی کہیں تین گھنٹے گزارے۔ اپنی معروضات سامنے رکھنے کے بعد سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو سامعین کی طرف سے تبصروں اور اُٹھائے گئے مسائل میں فکر مندی کا عنصرنمایاں تھا۔ وہ یقینا عام لوگ نہ تھے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد‘ مرد وزن‘ معاشرے کے کامیاب طبقات میں سے تھے ‘ لیکن ملک کی صورتحال سے کوئی بھی مطمئن دکھائی نہ دیا ۔ یہ سب کیوں ہوا؟ملک کس سمت جارہا ہے؟اب کیا ہوگاجب اختیار اُن کے ہاتھ تھما دیا گیا جن پر مقدمات چل رہے ہیں ؟یہ کسی جلسے کی روداد نہیں‘ یہ عام گفتگو کا خلاصہ ہے جو کسی نجی محفل میں ہو یا گروہ کے ساتھ کسی موضوع پر مکالمہ ہو‘ ہماری تان ملک کی موجودہ صورتحال‘ ماضی کے حکمرانوں کی غلط کاریوں‘ بحرانوں اور دیگر ممالک سے بہت پیچھے رہ جانے ہی پر ٹوٹتی ہے ۔ ہم بھی کھل کر بات نہیں کرتے ‘ بس اِدھر اُدھر کی ہانکنے کے ماہر ہیں ‘ اور پھر لگی لپٹی رکھنا بھی ضروری تاکہ بددلی اور مایوسی نہ پھیلے ۔ نصف بھرے ہوئے گلاس کی طرف اشارہ کرنا بہتر۔ امید کے خواب بھی دکھاتے ہیںکہ ان بحرانوںسے جلد نکل جائیں گے۔ ہمارے سامعین اور ناظرین سامنے بیٹھے ہوئے مروت میں سرہلاتے ہیں مگر اُن کی بدن بولی بتاتی ہے کہ وہ ہمارے جواب سے مطمئن نہیں۔ کچھ باتیں تو ہماری سمجھ میں نہیں آرہیں ‘ اور جو آرہی ہیں اُنہیں کھل کر بیان کرنے میں عافیت نہیں سمجھتے ۔ ویسے اس کی ضرورت بھی نہیںکیونکہ ”جانے نہ جانے ‘ گل ہی نہ جانے ‘ باغ تو سارا جانے ہے ‘‘۔ ہمارے لوگ دلچسپ ہیں۔ سب کچھ اُنہیں معلوم ہوتا ہے ‘ لیکن ہم سے بھی کہلوانا پسند کرتے ہیں ۔ خیر ہمیں اتنا کمزور بھی نہ سمجھیں‘ ہم کہہ بھی دیتے ہیں ۔
تین دن پہلے ہمارے نئے اور انوکھے وزیر خزانہ بجٹ پیش فرما رہے تھے تو ان کی پر مغز تقریر اور بے تکی معاشی پالیسیوں کا سن کر دل بیٹھ سا گیا ۔ سچ پوچھیں تو کچھ موہوم سی امید مورثی سیاستدانوں اور ان کے وفادار درباریوں سے لگی رہتی ہے کہ اتنا وقت گزارنے پر اپنے اور دوسروں کے تجربات سے کچھ تو سیکھ لیا ہوگا‘ لیکن ہمیں ہر مرتبہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔بر صغیر کی فلمیں ہوں‘ ہمارے ٹیلی وژن چینلوں کے ٹاک شو ہوںاور مباحث‘ سب میں ایک فارمولا چلتا ہے ۔ یہاں آپ کو دعوتِ فکر دیتا ہوں ۔ آپ کے خیال میں اگربجٹ میں فارمولا ایک نہیں تو تین مختلف سیاسی جماعتوں اور حکومتوںکے ماضی کی بجٹ تقاریر کو اکٹھا رکھ کر پڑھ لیںتو آپ کو یقین آجائے گا۔یہ تو آپ مانتے ہیں کہ ملک قرضوں پر چل رہا ہے اور ہم مزید قرضے لیے چلے جارہے ہیں تاکہ ماضی کے قرضے واپس کر سکیں ‘ لیکن حکمرانوں کے اللے تللے اور بلاجواز سبسڈی دینے کی روش جاری ہے ۔ میں نے بالکل صحیح سنا ہے کہ تیرہ سو ارب روپے کی سبسڈی صرف توانائی کے شعبے میں دی جائے گی ۔ نیز یہ کہ بجٹ کا پینتالیس فیصد قرضوں کی ادائیگی اور ان پر واجب الادا منافع کی مد میں چلا جائے گا۔ اخبار میں اس کی تفصیل پڑھ لیں کہ کتنے ہزار ارب روپوں کے خسارے کا بجٹ ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں ۔ کوئی فرد ایسا کرے یا ملک کرتا چلا جائے تو دیوالیہ ہوجائے ۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ‘ سب کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہے ۔ سامنے جعلی حزبِ اختلاف ہو‘ اپنے ہی بندے کو لیبل لگا کر بٹھا دیں اور ذہنی استعداد وہ ہو جو اُن کے بارے میں عمومی طور پر سمجھی جاتی ہے تو بھلا کوئی سوال کرے گاکہ آپ کوملک کو کس طرف لے جارہے ہیں؟
اصل بات تو یہ ہے کہ جو ٹیکس دے سکتے ہیں‘ ان سے ٹیکس وصول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ سابق وزیر خزانہ بار ہا کہہ چکے ہیں کہ بیالیس لاکھ شہریوں کا ڈیٹا موجود ہے جنہیں ٹیکس ادا کرنا چاہیے مگر غیر دستاویزی معیشت ہونے کی وجہ سے وہ ٹیکس کے نظام کے اندر نہیں آسکے۔ سوال تو ان سے بھی بنتا ہے کہ جب آپ وزیر تھے تو تب آپ نے اُنہیں ٹیکس نوٹس کیوں نہیں بھجوائے ۔ بجٹ میں آئندہ مالی سال میں ٹیکس کا قومی آمدنی میں تناسب صرف 9.5 فیصد ہے ۔ ہمارے پڑوسی ملک میں یہ تناسب اٹھارہ فیصد ہے ۔ ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں لیکن کیا کریں ‘ سستی شہرت اور انتخابات جیتنے کی فکر میں ہماری جماعتیں معیشت کو دستاویزی بنانے میں تامل سے کام لیتی رہی ہیں ۔ یہ عوام پر بوجھ نہیں ہوگا‘ بلکہ اُنہیں سہولت دینے کا طریقہ ہے کہ جو ٹیکس دے سکتے ہیں‘ اُن سے وصول کیا جائے ۔ یہ کاروباری طبقہ ہے جو دستاویزی معیشت کی راہ میں مزاحمت کرتا رہا ہے ۔ اور یہی لاہور ہے جو مورثی سیاست دانوں کا حمایتی حلقہ ہے ۔ ملک بے شک تباہ ہو جائے لیکن وہ مشکل فیصلے کرنے کے حق میں نہیں‘ مبادا اُن کے روایتی حلقوں میں بے چینی پیدا ہو۔ وہی پرانی مصلحت پسندی‘ وہی جانا پہچانا عوامی مقبولیت کا افسانہ ۔اقتدار سنبھالتے ہی آٹے اور روٹی پر سینکڑوں ارب روپوں کی سبسڈی کا اعلان کردیا ۔ یہاں تک کہ جو لوگ رواں برس حج کا مقدس فریضہ سرانجام دینے جارہے ہیں‘ اُنہیں بھی کروڑوں روپوں کی سبسڈی دے دی ۔ بجلی‘ گیس ‘ پٹرول اور ڈیزل پر بھی آپ سبسڈی دے رہے ہیں۔ کہیں بھی کوئی ذمہ دار ریاست یا معیشت کا ادراک رکھنے والے رہنما ایسا نہیں کرتے۔ سیاست ہمارے ہاں ایک کاروبار ہے اور اس کاروبار میں ساری سرمایہ کاری ریاستی یا عوامی وسائل سے کی جاتی ہے۔ یہ سبسڈیاں دینے کیلئے آپ ملکی اور غیر ملکی اداروں سے قرض لے رہے ہیں ۔ اس کی کوئی منطق نہیں بنتی ۔ آپ ایسا ضرور کریںمگر غریبوں کیلئے‘ موٹر سائیکل اور بڑی بڑی گاڑیوں کیلئے یکساں سبسڈی کیوں؟
ایک اور مضحکہ خیز اعلان ہوا تھا کہ حکومت طلبہ کو آسان اقساط پر ایک لاکھ لیپ ٹاپ فراہم کرے گی ۔ لاہوری خاندان یہ حربے پہلے بھی آزما چکا ہے لیکن نوجوان کسی اور جماعت‘ جو ان کی مخالف ہے ‘ سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں ۔ ذرا سوچیں کہ دنیا میں کہیں درآمدی لیپ ٹاپ طلبہ میں اس طرح تقسیم ہوتے ہیں ؟ ہر سرکاری یونیورسٹی‘ کالج اور یہاں تک کہ سکولوں میں بھی کمپیوٹر لیب موجود ہیں ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی مفت کے مال پر کہیں نہیں ہوتی۔لیکن ان کے مقاصد ہی کچھ اور ہیں ۔ صحت اور تعلیم پر کچھ زیادہ سرمایہ کاری کرتے تو سماجی ترقی کے کئی دروازے کھل جاتے ۔ لاکھوں کی تعداد میں غریبوں کے بچے سکولوں سے باہر ابھی تک منتظر ہیں کہ کوئی ایسا وزیر اعظم آئے جو کہے اور کرکے بھی دکھائے کہ آج کے بعد کوئی بچہ سکول میں داخلے کے بغیر نہیں رہے گا۔ جنوبی ایشیا کے کئی ممالک نے سماجی شعبے میں ہم سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اس لیے وہاں قابل اور ہنر مند افرادی قوت سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا ہونے سے سماج باشعور ہوا ہے اور آبادی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی ہے ۔
نجانے ہم کب تک ان سیاسی شعبدہ بازوں کے چنگل میں پھنسے رہیں گے ؟ اس تیرہ جماعتی اتحادی حکومت کے حکمرانوں کو ہم عشروں سے دیکھ رہے ہیں ۔ کتنی بار یہ اقتدار میں آئے لیکن ہر بار وہی رنگ ڈھنگ‘ وہی بے حسی‘ وہی بے سمتی۔ ان کے پاس ایک ہی ہنر ہے کہ اشراف کے طبقات اور اپنے گماشتوں کی جیبیں کیسے بھرنی ہیں ‘ لوٹ مار کے نشانات کیسے چھپانے ہیںاور کالے دھبوں کو سفید کیسے کرنا ہے ۔ ان کاموں کیلئے انہیں پیشہ ور کھلاڑیوں کی مدد حاصل ہے۔ اگر کوئی ڈھنگ کے لوگ اقتدار میں آئیں تو ہمارے پاس سب کچھ ہے ۔ سب کچھ ممکن ہے ‘ لیکن درآمدی ٹولہ کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ ان کا مقصد کچھ اورہے۔
تین دن پہلے ہمارے نئے اور انوکھے وزیر خزانہ بجٹ پیش فرما رہے تھے تو ان کی پر مغز تقریر اور بے تکی معاشی پالیسیوں کا سن کر دل بیٹھ سا گیا ۔ سچ پوچھیں تو کچھ موہوم سی امید مورثی سیاستدانوں اور ان کے وفادار درباریوں سے لگی رہتی ہے کہ اتنا وقت گزارنے پر اپنے اور دوسروں کے تجربات سے کچھ تو سیکھ لیا ہوگا‘ لیکن ہمیں ہر مرتبہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔بر صغیر کی فلمیں ہوں‘ ہمارے ٹیلی وژن چینلوں کے ٹاک شو ہوںاور مباحث‘ سب میں ایک فارمولا چلتا ہے ۔ یہاں آپ کو دعوتِ فکر دیتا ہوں ۔ آپ کے خیال میں اگربجٹ میں فارمولا ایک نہیں تو تین مختلف سیاسی جماعتوں اور حکومتوںکے ماضی کی بجٹ تقاریر کو اکٹھا رکھ کر پڑھ لیںتو آپ کو یقین آجائے گا۔یہ تو آپ مانتے ہیں کہ ملک قرضوں پر چل رہا ہے اور ہم مزید قرضے لیے چلے جارہے ہیں تاکہ ماضی کے قرضے واپس کر سکیں ‘ لیکن حکمرانوں کے اللے تللے اور بلاجواز سبسڈی دینے کی روش جاری ہے ۔ میں نے بالکل صحیح سنا ہے کہ تیرہ سو ارب روپے کی سبسڈی صرف توانائی کے شعبے میں دی جائے گی ۔ نیز یہ کہ بجٹ کا پینتالیس فیصد قرضوں کی ادائیگی اور ان پر واجب الادا منافع کی مد میں چلا جائے گا۔ اخبار میں اس کی تفصیل پڑھ لیں کہ کتنے ہزار ارب روپوں کے خسارے کا بجٹ ہے ۔ دوسرے لفظوں میں آمدنی کم اور اخراجات زیادہ ہیں ۔ کوئی فرد ایسا کرے یا ملک کرتا چلا جائے تو دیوالیہ ہوجائے ۔ یہ کوئی راز کی بات نہیں ‘ سب کچھ آپ کے سامنے ہو رہا ہے ۔ سامنے جعلی حزبِ اختلاف ہو‘ اپنے ہی بندے کو لیبل لگا کر بٹھا دیں اور ذہنی استعداد وہ ہو جو اُن کے بارے میں عمومی طور پر سمجھی جاتی ہے تو بھلا کوئی سوال کرے گاکہ آپ کوملک کو کس طرف لے جارہے ہیں؟
اصل بات تو یہ ہے کہ جو ٹیکس دے سکتے ہیں‘ ان سے ٹیکس وصول کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ سابق وزیر خزانہ بار ہا کہہ چکے ہیں کہ بیالیس لاکھ شہریوں کا ڈیٹا موجود ہے جنہیں ٹیکس ادا کرنا چاہیے مگر غیر دستاویزی معیشت ہونے کی وجہ سے وہ ٹیکس کے نظام کے اندر نہیں آسکے۔ سوال تو ان سے بھی بنتا ہے کہ جب آپ وزیر تھے تو تب آپ نے اُنہیں ٹیکس نوٹس کیوں نہیں بھجوائے ۔ بجٹ میں آئندہ مالی سال میں ٹیکس کا قومی آمدنی میں تناسب صرف 9.5 فیصد ہے ۔ ہمارے پڑوسی ملک میں یہ تناسب اٹھارہ فیصد ہے ۔ ہم بھی ایسا کرسکتے ہیں لیکن کیا کریں ‘ سستی شہرت اور انتخابات جیتنے کی فکر میں ہماری جماعتیں معیشت کو دستاویزی بنانے میں تامل سے کام لیتی رہی ہیں ۔ یہ عوام پر بوجھ نہیں ہوگا‘ بلکہ اُنہیں سہولت دینے کا طریقہ ہے کہ جو ٹیکس دے سکتے ہیں‘ اُن سے وصول کیا جائے ۔ یہ کاروباری طبقہ ہے جو دستاویزی معیشت کی راہ میں مزاحمت کرتا رہا ہے ۔ اور یہی لاہور ہے جو مورثی سیاست دانوں کا حمایتی حلقہ ہے ۔ ملک بے شک تباہ ہو جائے لیکن وہ مشکل فیصلے کرنے کے حق میں نہیں‘ مبادا اُن کے روایتی حلقوں میں بے چینی پیدا ہو۔ وہی پرانی مصلحت پسندی‘ وہی جانا پہچانا عوامی مقبولیت کا افسانہ ۔اقتدار سنبھالتے ہی آٹے اور روٹی پر سینکڑوں ارب روپوں کی سبسڈی کا اعلان کردیا ۔ یہاں تک کہ جو لوگ رواں برس حج کا مقدس فریضہ سرانجام دینے جارہے ہیں‘ اُنہیں بھی کروڑوں روپوں کی سبسڈی دے دی ۔ بجلی‘ گیس ‘ پٹرول اور ڈیزل پر بھی آپ سبسڈی دے رہے ہیں۔ کہیں بھی کوئی ذمہ دار ریاست یا معیشت کا ادراک رکھنے والے رہنما ایسا نہیں کرتے۔ سیاست ہمارے ہاں ایک کاروبار ہے اور اس کاروبار میں ساری سرمایہ کاری ریاستی یا عوامی وسائل سے کی جاتی ہے۔ یہ سبسڈیاں دینے کیلئے آپ ملکی اور غیر ملکی اداروں سے قرض لے رہے ہیں ۔ اس کی کوئی منطق نہیں بنتی ۔ آپ ایسا ضرور کریںمگر غریبوں کیلئے‘ موٹر سائیکل اور بڑی بڑی گاڑیوں کیلئے یکساں سبسڈی کیوں؟
ایک اور مضحکہ خیز اعلان ہوا تھا کہ حکومت طلبہ کو آسان اقساط پر ایک لاکھ لیپ ٹاپ فراہم کرے گی ۔ لاہوری خاندان یہ حربے پہلے بھی آزما چکا ہے لیکن نوجوان کسی اور جماعت‘ جو ان کی مخالف ہے ‘ سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں ۔ ذرا سوچیں کہ دنیا میں کہیں درآمدی لیپ ٹاپ طلبہ میں اس طرح تقسیم ہوتے ہیں ؟ ہر سرکاری یونیورسٹی‘ کالج اور یہاں تک کہ سکولوں میں بھی کمپیوٹر لیب موجود ہیں ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی مفت کے مال پر کہیں نہیں ہوتی۔لیکن ان کے مقاصد ہی کچھ اور ہیں ۔ صحت اور تعلیم پر کچھ زیادہ سرمایہ کاری کرتے تو سماجی ترقی کے کئی دروازے کھل جاتے ۔ لاکھوں کی تعداد میں غریبوں کے بچے سکولوں سے باہر ابھی تک منتظر ہیں کہ کوئی ایسا وزیر اعظم آئے جو کہے اور کرکے بھی دکھائے کہ آج کے بعد کوئی بچہ سکول میں داخلے کے بغیر نہیں رہے گا۔ جنوبی ایشیا کے کئی ممالک نے سماجی شعبے میں ہم سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے اس لیے وہاں قابل اور ہنر مند افرادی قوت سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ تعلیم اور روزگار کے مواقع پیدا ہونے سے سماج باشعور ہوا ہے اور آبادی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی ہے ۔
نجانے ہم کب تک ان سیاسی شعبدہ بازوں کے چنگل میں پھنسے رہیں گے ؟ اس تیرہ جماعتی اتحادی حکومت کے حکمرانوں کو ہم عشروں سے دیکھ رہے ہیں ۔ کتنی بار یہ اقتدار میں آئے لیکن ہر بار وہی رنگ ڈھنگ‘ وہی بے حسی‘ وہی بے سمتی۔ ان کے پاس ایک ہی ہنر ہے کہ اشراف کے طبقات اور اپنے گماشتوں کی جیبیں کیسے بھرنی ہیں ‘ لوٹ مار کے نشانات کیسے چھپانے ہیںاور کالے دھبوں کو سفید کیسے کرنا ہے ۔ ان کاموں کیلئے انہیں پیشہ ور کھلاڑیوں کی مدد حاصل ہے۔ اگر کوئی ڈھنگ کے لوگ اقتدار میں آئیں تو ہمارے پاس سب کچھ ہے ۔ سب کچھ ممکن ہے ‘ لیکن درآمدی ٹولہ کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ ان کا مقصد کچھ اورہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ