نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بایاں بازو کیوں کمزور ہوتا ہے؟||ڈاکٹر مجاہد مرزا

دنیا میں عام معیشت منڈی کی معیشت ہے۔ آپ کسی ملک میں سوشلسٹ معیشت یا تو انتہائی سختی کرکے لاگو کر سکتے ہیں جس میں حزب اختلاف نام کی کوئی چیز ہو ہی نہ اور اگر ہو تو اس کے پر بالکل کاٹ دیے جائیں یا اسے بالکل ختم کر دیا جائے جیسے سوویت یونین اور چین میں یا پھر خزانے پر بوجھ ڈال کر جس کا نتیجہ قرض لینے اور افراط زر بڑھنے کی صورت میں نکلے گا۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ نے بے شک فیودر دستاییوسکی یا کسی بھی روسی مصنف کے ناول میں پڑھ رکھا ہو کہ روسی لوگ وادکا شراب میں پانی یا کوئی اور مشروب ملائے بنا غٹ کرکے ایک ہی گھونٹ میں چڑھا لیتے ہیں، منہ بناتے ہیں پھر نمکین پانی میں محفوظ کیے کھٹے کھیرے ( خیار شور) اور سرکے میں اچار کردہ کچی ہیرنگ مچھلی کھا کر ان کے ذائقوں سے کیف لیتے ہیں، آپ کو اس عمل کی خاک سمجھ نہیں آئے گی جب تک آپ روسیوں میں ایک عرصہ رہ کر روسیوں جیسے نہیں بن جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قوم کے بارے میں جاننے سے متعلق دعویداری اتنی ہی ثقہ ہو سکتی ہے جتنی ناول سے حاصل کردہ معلومات، جن سے متعلق جو شخص روسی نہیں ہوگا، ناک بھوں ہی چڑھائے گا چہ جائیکہ وہ شراب کا لطف غارت کرنے کا سوچے۔
یہ مثال اس لیے دی ہے کیونکہ دنیا میں بائیں بازو کی قیادت میں باقاعدہ انقلاب برپا کرنے اور حکومت ہاتھ میں لینے کی اولیں مثال روس تھی۔ روس کے انقلاب، بعد میں سخت گیر حکومت، جنگ عظیم میں سٹالن کے کردار، روس اور سوویت یونین میں شامل دیگر قوموں کے ملکوں کے لوگوں کی استقامت، کارناموں اور مصائب سے متعلق اگر سوویت لکھاریوں نے لکھا تو اس میں لامحالہ پراپیگنڈے کا پہلو راسخ تھا، اور اگر غیر ملکیوں نے لکھا تو ان لکھنے والوں میں جو کمیونزم کے مخالف تھے ان کی تحریر میں عناد تھا یا مناسب تنقید کے ساتھ بے جا تنقید بھی شامل تھی۔ بعینہ اگر لکھنے والا کمیونزم دوست تھا تو اس کی لکھت میں عقیدہ مندی کے ساتھ حق یگانگت جتانے کا جذبہ بھی در آتا ہوگا۔
بڑی بات یہ ہے کہ سوویت یونین نے 1917 سے 1991 تک تقریبا” ساڑھے چوہتر سال دنیا کے سینے پر مونگ دلتے ہوئے بتا لیے۔ خلائی میدان اور اسلحہ سازی میں خود کو منوا لیا۔ پسماندہ ملکوں کی اور پسماندہ ملکوں میں موجود بائیں بازو کی متنوع پارٹیوں کی مالی اور اخلاقی مدد بھی کی۔ افریقہ، ایشیا و لاطینی امریکہ کے بے تحاشا نوجوانوں کو مفت تعلیم بھی دی۔ اپنے ملک کے لوگوں پر سختی بھی بہت کی لیکن لوگوں کو مقدور بھر سہولتیں بھی فراہم کیں اگرچہ وہ سہولتیں بہت صبر کے بعد ملتی تھیں مثال کے طور پر اس وقت جس گھر میں بیٹھ کر میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں وہ محض ایک کمرہ ہے۔ دروازہ کھلتے ہی ڈیڑھ ضرب ڈیڑھ میٹر کا برآمد کہہ لیں ہے جہاں جوتے اور سردی کے کپڑے اتارے جاتے ہیں۔ اس برآمدے میں ایک طرف باتھ روم/ٹوائلٹ کا دروازہ ہے اس سہولت کا رقبہ ڈیڑھ ضرب پونے دو میٹر ہے اور ایک جانب کچن اور کمرے کے علیحدہ علیحدہ دروازے۔ کچن ڈیڑھ ضرب تین میٹر کا ہے اور کمرہ ساڑھے چار ضرب ساڑھے پانچ میٹر کا ہے۔ یہ کل کائنات خاتون خانہ نے بیس سال کی سرکاری ملازمت کے دوران اپنے دو بچوں کے ساتھ ہوسٹل کے ایک کمرے میں کاٹ کر بمشکل حاصل کی تھی۔ ایسے بے تحاشا لوگ تھے جن کی زندگیاں ہوسٹلوں یا کمیونل کوارتیرے ( ایک ہی گھر کے ہر کمرے میں مختلف کنبہ رہائش پذیر) میں بسر ہو گئیں اور اب بھی بہت سے بسر کر رہے ہیں۔ زیادہ ہوا تو دو کمروں کا اور بہت زیادہ ہوا تو تین کمروں کا کوارتیرا یعنی کوارٹر یا اپارٹمنٹ کہہ لیں، مل گیا۔ ڈرائنگ روم کا کوئی تصور نہیں ، یہاں کچن ہی ڈرائنگ روم ہوتا ہے۔ گھر تو سرمایہ دارا ملکوں میں بھی تقریبا” سبھی کو میسر ہیں چاہے مارگیج پہ ہی سہی اور روس کے گھروں سے کہیں بہتر، جن میں کسی نہ کسی طرح ٹوائلٹ کو کچن سے دور رکھا گیا ہو۔ روس میں شاید ہی کوئی گھر ہو جس میں ٹوائلٹ کچن کے ساتھ نہ جڑا ہو۔ عوامی مکانات تو پھر اسی طرح کے ہوتے ہیں۔
سوویت یونین کے مصائب پر تو دفتر کے دفتر سیاہ ہو چکے ہیں اس پر کیا لکھنا البتہ اتنا کہہ دینا شاید کافی ہو کہ سوویت حکومت نے ہر چیز میں سبسڈی دے کر لوگوں کو چیزیں دستیاب کی ہوئی تھیں۔ مثال کے طور پر آج ماسکو سے ولادی واستک کا ہوائی سفر جو اب کہیں آٹھ سو ڈالر میں پڑتا ہے، سوویت یونین کے زمانے میں اس سفر میں طالبعلموں کا آنا جانا، بمع وہاں دو ہفتے رہائش و طعام اور مختلف مقامات کی سیر کے ایک سو ڈالر سے دو چار ڈالر زیادہ میں پڑتا تھا۔ دودھ پاکستان کے حساب سے دو آنے کا لٹر تھا اور بیئر ڈھائی آنے لٹر۔ معیشت کی لٹیا نہ ڈوبتی تو کیا ہوتا۔ بیچارے لینن سے وقت نے وفا نہیں کی وہ تو 1921 میں ہی ” نیو اکانومک پالیسی” لاگو کر چکے تھے جس میں محدود حد تک نجی سرمایہ کاری کی اجازت دی گئی تھی مگر سٹالن نے ڈیڑھ برس بعد یہ پالیسی یکسر روک دی تھی۔ آندروپوو اسے پھر سے لاگو کرنا چاہتے تھے مگر زندگی نے وفا نہ کی تو یہ قرعہ گورباچوو کے نام ہوا۔ چینی کچھ زیادہ عقلمند ثابت ہوئے وہ بھی خیر بہت بعد میں کہ انہوں نے اپنے ملک نجی سرمایہ کاری کے خطے متعین کر دیے اور اپنے لوگوں کو اجازت دے دی کہ دنیا بھر کے ملکوں میں جا کر کاروبار کریں۔
یہ تو مختصرا” معاملہ ہے ان دو ملکوں کا جو خود کو کمیونسٹ کہلانے پر فخر کرتے تھے۔سوویت یونین میں تو ایک بار اعلان بھی کیا جا چکا تھا کہ کمیونسٹ طرز معیشت اپنا لیا گیا ہے مگر جلد ہی اس کی نفی کرنی پڑی تھی اور سوشلزم پر اکتفا کیا گیا تھا۔ بات درست ہے کیونکہ کمیونزم کا اصول تو "کار بقدر استعداد و اہلیت اور اجرت بقدر ضرورت” ہے جبکہ سوشلزم کا اصول "کار بقدر استعداد و اہلیت اور اجرت بقدر کار” ہے۔ لیکن اس "اجرت بقدر کار” میں بھی سوویت کارخانوں کے ہزاروں مزدور سستی ، کاہلی، شراب نوشی کے باوجود یا تو آئے بغیر اجرت وصول کرتے تھے یا اگر نشے کی حالت میں آتے تھے تو کل پرزے بگاڑ کر پیداوار کو نقصان تو پہنچاتے ہی تھے اجرت بھی لیتے تھے۔ سوویت کارخانوں کی بنی ہوئی چیزیں کیسی ہوتی تھیں ان کے بارے میں تو یہاں کے باسی بتا سکتے ہیں کوئی اور نہیں۔ مرحوم کامریڈ شوکت نور جنہوں نے یہاں کوئی پینتیس چالیس برس بتائے، نے بتایا تھا کہ سوویت یونین کی بنی ٹوٹھ پیسٹ سے دانت سیاہ ہو جاتے تھے۔ کاریگروں کا عالم یہ تھا کہ میں نے خود 1991 میں ٹی وی کے ایک کاریگر کو بلایا جس نے کلر ٹی وی دیکھتے ہی ، "میں بلیک اینڈ وائٹ کا ماسٹر ہوں، کلر کا نہیں” کہا اور یہ جا وہ جا۔ مجھے گلگت کے پہاڑوں میں وہ گلگتی نائب صوبیدار یاد آ گیا جسے کیپٹن غفار نے ہاتھ کے اشارے سے کہا تھا، "صاحب وہ دور چھ بجے کی لائن میں دیکھو” نائب صوبیدار نے دیکھنے سے پہلے بڑی معصومیت سے پوچھا تھا، "سر صبح کے چھ بجے یا شام کے چھ بجے”۔
آج یونان میں بھی سوشلسٹ پارٹی بر سر اقتدار ہے اور فرانس میں بھی۔ فرانس میں مزدوروں کے بڑے بڑے جلوس نکل رہے ہیں۔ یونان کے جو حالات ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ ادھر برازیل اور ارجنٹائن میں دیکھ لیں مادورا کا کیا حال ہے اور ارجنٹائن کی سابق صدر کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ یہ چاروں ملک سوویت یونین اور چین کی طرح مکمل سوشلسٹ معیشت پر عمل پیرا ہونے کے دعویدار نہیں تاہم ان ملکوں کے سوشلسٹ بزرجمہروں نے پاپولزم کے تحت یا صدق دل سے لوگوں کو اتنی رعایتیں دینے کی کوشش کی جس کی کہ ملک کی معیشت متحمل نہیں ہو سکتی ویسے ہی جیسے پاکستان میں پنجاب کے میگا پروجیکٹ مجموعی بجٹ پر برا اثر ڈالیں گے اور لوگوں سے بالواسطہ ٹیکس وصول کیے جائیں گے۔
دنیا میں عام معیشت منڈی کی معیشت ہے۔ آپ کسی ملک میں سوشلسٹ معیشت یا تو انتہائی سختی کرکے لاگو کر سکتے ہیں جس میں حزب اختلاف نام کی کوئی چیز ہو ہی نہ اور اگر ہو تو اس کے پر بالکل کاٹ دیے جائیں یا اسے بالکل ختم کر دیا جائے جیسے سوویت یونین اور چین میں یا پھر خزانے پر بوجھ ڈال کر جس کا نتیجہ قرض لینے اور افراط زر بڑھنے کی صورت میں نکلے گا۔ آج باقی دنیا سے ہٹ کر کوئی بھی دوسرا نظام معیشت نافذ نہیں کیا جا سکتا ہاں دونوں طرح کے نظام ہائے معیشت کے بہتر پہلووں کو باہم یا مدغم کیا جا سکتا ہے۔
سوویت یونین نے چوہتر سال کیسے نکال لیے؟ سوویت یونین میں صنعتی نظام مرکزیت پر مبنی نہیں تھا بلکہ دسیوں سوویت سٹیٹس میں بکھرا ہوا تھا مثلا” ٹریکٹر اگر بیلا روس میں بنتے تھے تو ٹریکٹر کے ٹائر ازبکستان میں۔ ہیلی کاپٹر تاتارستان میں تیار ہوتے تھے تو اسلحہ کسی اور مقام پر۔ یہی وجہ تھی کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد وسط ایشیا کی ریاستیں آج تک پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکیں۔ یوکرین کا کیا حال ہوا ہے۔ جارجیا بمشکل اب کہیں مشکل حالات سے عہدہ برآء ہو رہا ہے۔ بیلا روس میں آج بھی سوویت طرز معیشت و سیاست رائج ہے۔
بایاں بازو اسی لیے کمزور ہوتا ہے کہ یہ اپنے مخالفوں کو ساتھ لے کر نہیں چلتا۔ یہ سیاسی مخالفین کو ذاتی دشمن خیال کرنے لگتا ہے اس کے برعکس دایاں بازو شروع سے ہی بائیں بازو کو دھتکارا ہوا سمجھتا ہے۔ کچھ بائیں بازو والوں کا بھی قصور ہوتا ہے کہ وہ مذہب کو نشانے پر دھر لیتے ہیں جس کے ساتھ لوگوں کی اکثریت جڑی ہوتی ہے اور دایاں بازو اس کو استعمال کرکے بائیں بازو والوں کو بدنام کرتا ہے۔ بایاں بازو اگر انجذاب کو اپنا لے اور عوام کے دل لگتی پالیسی اپنائے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ناکام ہو۔ بایاں بازو ہی درحقیقت مستقبل کی امید بن سکتا ہے مگر کیسے یہ بائیں بازو کو سوچنا ہوگا۔
No photo description available.
Rabnawaz Baig, Rubab Imran and 22 others
1 Comment
1 Share
Like

Comment
Share

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author