حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دعا زہرا کیس میں جس بنیادی یا یوں کہہ لیجئے جن بنیادی سوالات کو عدالت (سندھ ہائی کورٹ) میں نظرانداز کیا گیا وہ کچھ یوں ہیں، دعا کے والدین کا رجسٹر نکاح نامہ اور دعا کی عدالتی حکم پر بنی میڈیکل رپورٹ دونوں کے سامنے رکھئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بچی والدین کی شادی سے 2 اڑھائی سال قبل پیدا ہوئی۔
پیدائش کا سرٹیفکیٹ نادرا ریکارڈ کا ہے وہ اگر لمحہ بھر کے لئے غلط مان لیا جائے تو فیصلہ سنانے سے قبل اس کی تحقیقات بہت ضروری تھیں۔ سندھ میں 18سال سے کم عمر کی بچی کا قانونی طور پر نکاح نہیں ہوسکتا۔ یہ نکاح چونکہ پنجاب میں ہوا اس لئے میڈیکل رپورٹ میں عمر سولہ سترہ سال لکھی گئی۔ لکھی گئی یا لکھوائی گئی؟
سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل نے ہائیکورٹ میں کیسے کہہ دیا کہ سندھ کی حدود میں جرم سرزد نہیں ہوا؟ صوبہ سندھ کے سب سے بڑے شہر کی باسی تھی بچی پشت در پشت، بچی کراچی سے غائب ہوئی۔ جرم کیسے نہیں بنتا۔
یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ بدھ کو جب ہائیکورٹ نے کہا بچی اپنے بیان کی روشنی میں جہاں چاہے جاسکتی ہے تو وہ دو سادہ لباس والے وہاں کون تھے جو بچی کے والدین کو دھکے دیتے ہوئے پولیس کو ہدایات دیتے رہے کہ جلدی بچی کو یہاں سے لے چلو؟
ملک کے عائلی قوانین کیاکہتے ہیں۔ یہاں دو باتیں عرض کردوں ایک طبقہ کہہ رہا ہے محبت زندہ باد، اس طبقے کے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں دعا کے ظالم باپ کا ساتھ دینے کی بجائے مبحت کرنے والوں کی حمایت کرنی چاہیے۔ اس موقف میں دو باتیں ا ور ہیں انہیں دہرانے سے ایک خاص نسب اور مسلک پر حرف آتا ہے اس لئے نہیں لکھ رہا۔ ایک طبقہ وہی روایتی باتیں کررہاہے کہ اس طرح کے ہزاروں کیس عدالتوں میں زیرسماعت ہیں اس خاص معاملے کو کیوں اچھالا جارہا ہے۔
یقیناً ہزاروں کیس عدالتوں میں زیرسماعت ہوں گے۔ بروقت فیصلے نہ ہونے کا مجرم کون ہے؟
گزشتہ روز ظہیر (اس سے دعا کا نکاح کروایا گیا) کی والدہ پہلی بار کراچی میں منظرعام پر آئیں اور بولیں، بچی ٹیکسی میں یبٹھ کر ہمارے گھر لاہور پہنچی۔
کراچی سے لاہور تک کیسے آئی۔ آپ اگر غور کریں تو ہر بات میں جھول ہے۔ جھول در جھول۔ اس کیس میں سوشل میڈیا پر طوفان اٹھا اسی لئے تو تین صوبوں سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخو کے علاوہ آزاد کشمیر پولیس کو بھی موبائل لوکیشن کی وجہ سے وختہ پڑا رہا ۔
دو بچوں نے نہیں ان کے سہولت کاروں نے تگنی کا ناچ نچایا تین صوبوں کی پولیس کو۔ ایک سوال عدالت عالیہ سندھ سے ہے وہ یہ کہ مائی لارڈ ! آپ نے اس کیس پر کام کرنے والے آئی جی سندھ کو مزید کام کرنے سے کیوں روکا؟
سوموار کی سماعت والے دن کے عدالتی سوالات اور اعتراضات ترتیب وار دیکھ پڑھ لئے جائیں تو حیرانی ہوتی ہے۔
مکرر عرض کرتا ہوں، والدین کے نکاح نامے اور بچی کی میڈیکل رپورٹ، بچی نکاح سے 2سال قبل پیدا ہوئی۔ کیا اس سوال پر غور کرنے کی جج صاحبان نے زحمت کی۔ کیسے انہوں نے نکاح نامہ، برتھ سرٹیفکیٹ اور سکول اندراج رجسٹر کو مدنظر نہیں رکھا۔ کیسے کہہ دیا گیا کہ سندھ میں جرم نہیں ہوا، اچھا اگر عدالت کا یہ فیصلہ درست ہے کہ دعا زہرہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے جاسکتی ہے تو اس حکم کا کیا کرنا ہے کہ ظہیر کے خلاف مقدمہ تفتیش مکمل کرکے ٹرائل کورٹ میں سماعت کے لئے پیش کیا جائے۔
ایڈووکیٹ جنرل تو کہہ چکے سندھ کی حدود میں جرم ہی نہیں ہوا پھر مقدمہ کیسا۔ دعا زہرا کی میڈیکل بلوغت عدالت نے مان لی تو باقی کیا رہ گیا؟
عدالت سمیت ہم سب کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ والدین کا نکاح نامہ، بچی کا پیدائش کا سرٹیفکیٹ، سکول اندراج رجسٹر، تینوں قانونی دستاویزات کا درجہ رکھتے ہیں ان تینوں کو مسترد یا قابل غور نہ سمجھنے کی وجہ کیا ہے۔ کیا عدالت نے ان دستاویزات کو غلط کہا یا نہ ماننے کی وجہ لکھی فیصلے میں؟
نہیں تو پھر میڈیکل کروانے کا حکم کس قانون پر دیا۔ کیا سندھ ہائیکورٹ کے جج اپنے صوبے کے قانون سے ناآشنا تھے کہ سندھ میں شادی کے لئے بچی کی عمر کی حد 18سال ہے یعنی شادی ہو ہی اسی صورت میں سکتی ہے کہ لڑکی اور لڑکا دونوں 18سال کے ہوں۔
پنجاب میں شادی کے لئے لڑکے کی عمر 18سال اور لڑکی کی عمر 16سال ہے۔ نکاح نامہ چونکہ پنجاب کا ہے تو اس پر قانون بھی پنجاب کا ہی لاگو ہوگا۔ یہی ایک راستہ بچا ہے بلکہ دیا گیا ہے، ثانیاً پنجاب میں ایسے مقدمات میں جج صاحبات کبھی یکسو نہیں رہے مختلف وقتوں میں مختلف فیصلے اور نظریں موجود ہیں۔
لاہور کے معروف قانون دان طاہر چودھری کہتے ہیں کہ واضح قانون موجود ہونے کے باوجود معاملہ میڈیکل بورڈ کو بھیجنے سے مسائل جنم لیں گے۔ کم عمری کی شادیاں کیا مسائل پیدا کرسکتی ہیں یہ نہ سمجھ میں آنے والی بات ہرگز نہیں۔
آگے بڑھنے سے قبل عرض کردوں کہ مجھے سطحی جذباتیت، ذات پات، مسلک یا اس سے بندھے معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس سارے معاملہ کو لمحہ بھر کے لئے بھی بیٹی کا باپ بن کر نہیں بلکہ ایک عامل صحافی کے طور پر دیکھا۔ دو بڑے جھول ہیں اس سارے معاملے میں وہ ابتدائی سطور میں تفصیل کے ساتھ عرض کردیئے۔ اب یہ دیکھنا ہوگاکہ کیا بچی ذہنی طور پر اتنی بالغ اور زمانہ شناس ہے کہ وہ کراچی میں اپنے گھر سے تنہا نکلی اور کسی مدد کے بغیر لاہور میں اس گھر تک پہنچ گئی جو ظہیر کا گھر ہے؟
کیا محض گوگل لوکیشن اور ایڈریس کے سہارے ساڑھے 13 یا14سال کی بچی ایک ہزار کلومیٹر کا سفر تنہا طے کرلے گی۔ وہ بھی اس صورت میں کہ وہ خاندان سے الگ ہوکر مرضی سے جارہی ہو اور چہرے پر کوئی پریشانی نہ ہو۔
کم از کم مجھے ایسا نہیں لگتا۔ ظہیر کی والدہ کا بیان کہ بچی ایک ٹیکسی میں بیٹھ کر لاہور ہمارے گھر پہنچ گئی۔ چلیں مان لیا ایسا ہی ہوا۔ کیا ایک صاحب اولاد خاتون کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ نابالغ بچی گھر سے نکل کر ان تک آگئی ہے اس کے ورثا کو اعتماد میں لیا جائے؟
انہیں اپنے خاندان کے لوگوں اور بعض تعلق داروں کے ساتھ پولیس کے سلوک پر تو شکوہ ہے مگر اس بات پر ملال نہیں کہ جو ہوا وہ اخلاقی اور قانونی طور پر درست نہیں ہے ، یہ سطور لکھتے وقت اطلاع ملی کہ سندھ حکومت نے دعا کی میڈیکل رپورٹ بنانے والے ڈاکٹر کو معطل کردیا ہے۔ اطلاع درست ہے تو رپورٹ کی قانونی حیثیت صفر ہوگئی ایک طرح سے۔
ویسے تو سندھ حکومت کو دو افراد کے خلاف فوری کارروائی کرنی چاہیے اولاً اپنے ایڈووکیٹ جنرل اورثانیاً میڈیکل رپورٹ تیار کرنے والے ڈاکٹر کے خلاف۔
تیسرا کام بدھ کو عدالت کے باہر کی ویڈیوز اور تصاویر کی مدد سے سندھ حکومت کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ ان سادہ پوشوں بارے تحقیقات کروائے کہ یہ کون تھے۔
اور یہ کہ کیا ان میں سے کوئی میڈیکل رپورٹ بنانے والے ڈاکٹر سے ملا۔ متعلقہ ہسپتال کے سی سی ٹی وی کیمروں سے مدد لی جاسکتی ہے۔ سندھ میں چونکہ شادی کے لئے عمر کی لازمی حد 18سال ہے اس لئے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کمسن لڑکی کو کراچی سے پنجاب پہنچایا گیا۔
اب سولہ سترہ برس کی عمر کا میڈیکل سرٹیفکیٹ، یہ پنجاب کے قانون کی مدد کرے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جرم نہ سندھ میں ہوا بقول ایڈووکیٹ جنرل اور جرم نہ پنجاب میں شمار ہوگا کیونکہ لڑکی کی میڈیکل رپورٹ میں مکمل عمر پنجاب کے قانون کے مطابق ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ اس سارے معاملے کی ازسرنو تحقیقات بہت ضروری ہیں۔
میری دانست میں دیگر کے علاوہ بھی اس میں تین مجرم ہیں۔ بنیادی شہری دستاویزات کو مدنظر نہ رکھنے والے، میڈیکل رپورٹ بنانے والا ڈاکٹر اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ۔
یہاں بھر بھر کے لئے رکئے ہمارے قانون دان اور سابق جج دوست رانا شرافت علی کہتے ہیں ڈاکٹر کی رپورٹ میں ایک آدھ سال اوپر نیچے ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں ایسا ہوجاتا ہے۔ اصل چیز بنیادی دستاویزات ہیں وہی والدین کا نکاح نامہ، بچی کا برتھ سرٹیفکیٹ، تقریباً یہی بات بالائی سطور میں ہم بھی عرض کرچکے۔ بہرطور یہ سارا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے، اس میں گھٹالے ہیں۔ اچھے تفتیش کار ہی پوراسچ سامنے لاسکتے ہیں۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر