گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کانی گرم میں شامی پیر ۔۔۔
1938 میں جرمنی اور برطانیہ میں ٹسل tussel چل رہی تھی جو بعد میں جنگ عظیم دوم پر ختم ہوئ ۔جرمنی اپنے ایجنٹوں کے ذریعےجنوبی ایشیا کی برطانوی نو آبادیوں میں گڑبڑ کرا رہا تھا تاکہ برطانوی فوج الجھی رہے اوران کی طرف رخ نہ کرے۔انہی دنوں ایک نوجوان شام سے کانی گرم جنوبی وزیرستان پہنچا اور اپنے آپ کو پیر عبدالقادر جیلانی کے خانوادے کا ظاہر کر کے تبلیغ کرنے لگا۔ شروع میں اس کی تبلیغ بے ضرر تھی مگر بعد میں وہ محسود اور وزیر قبائیل کو کابل پر حملہ کرنے پر اکسانے لگا اور کامیاب بھی ہوا۔اس کی اطلاع انگریز پولیٹیکل ایجنٹ بارنس کو پہنچی تو اس نے اس پیر سےکانی گرم جا کر دو بدو ملاقات کی اور کرنسی کے نوٹوں بھرا سوٹ کیس اس کے حوالے کر کے اسے خرید لیا۔ اس کے بعد وہ نوجوان پیر خاموشی سے کراچی چلا گیا۔وہاں اس نے داڑھی منڈوا لی اور مغربی طرز کی پینٹ کوٹ سوٹ پہنا اور غائب ہو گیا ۔پھر اس کا پتہ نہیں چلا۔
23 مارچ کی قرارداد پاکستان میں ڈیرہ اسماعیل خان کا کردار ۔
1939 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے ایک نو رکنی کمیٹی تشکیل دی جس کے زمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کی تشکیل کی خاطر رپورٹ مرتب کرے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نو رکنی کمیٹی میں ڈیرہ کو نمائندگی دی گئ اور یہ اعزاز سردار اورنگزیب خان گنڈہ پور کو ملا۔ سردار صاحب اس وقت کے صوبہ سرحد کی جانب سے واحد ممبر تھے جو پورے صوبے اور ڈیرہ کی نمائیندگی کر رہے تھے۔اس کمیٹی کا آخری اجلاس فروری 1940 میں دہلی میں ہوا جس میں سردار اورنگزیب خان شامل ہوئے اور علیحدہ وطن کے مطالبے کو آخری شکل دے کر حتمی رپورٹ آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کو پیش کر دی ۔
قائداعظم محمد علی جناح نے اس رپورٹ کی روشنی میں انگریز حکومت کے وائسرائے کو دوسرے دن آگاہ کر دیا کہ لاہور کے اجلاس میں مسلم لیگ ایک علیحدہ وطن کی قرارداد پیش کر رہی ہے۔ 23 مارچ 1940 کے اجلاس میں شرکت کے لیے ڈیرہ سے مسلم لیگ کے عھدے داروں میں زبردست جوش خروش پایا جاتا تھا۔ کچھ لوگوں کے نام یہ ہیں جو اجلاس میں شریک ہوئے۔ مولاداد بلوچ ۔شھزادہ فضلداد ۔ محمد نواز بارکزئ۔ سید احمد حسین شاہ ۔محمد دین پریس رپورٹر ۔ عبدالصمد خان۔لالہ محمد حیات خان۔عبدالکریم بلوچ ۔ عبدالحمید خان میاں خیل۔اور غلام محمد خان اعوان۔ اس کے علاوہ پیر آف زکوڑی شریف محمد عبدالطیف زکوڑی بھی اپنے مریدوں کے قافلے کے ساتھ لاہور پہنچے اور شرکت کی۔ 23 مارچ 1940 کو قرارداد پاکستان شیر بنگال مولوی فضل حق نے پیش کی ۔ اس قرارداد کی تائید میں نواب محمد اسماعیل خان۔سر رضاعلی۔عبدالرحمن صدیقی۔مولانا ظفرعلی خان اور ڈاکٹر عالم نے تقاریر کیں۔صوبہ سرحد کی نمائیندگی کرتے ہوئے سردار اورنگزیب خان نے قرارداد کی تائید میں تقریر کی گویا قرارداد کی بنیاد رکھنے اور پاس کرنے میں صوبہ سرحد سے صرف ڈیرہ کو ہی اعزاز ملا۔
ایک لاکھ کے اس جلسے سے قائداعظم محمد علی جناح نے بھی تین گھنٹے خطاب کیا ۔۔ ڈیرہ کے وفود نے قائداعظم سے ملاقات کی اور ان کی ہدایات سنیں۔ لاھور میں قرار داد پاکستان منظور ہونے کے بعد اگلے دس سال کڑی آزمائش کے تھے۔گرفتاریاں ہوئیں لوگ جیل گئے لیکن تحریک پاکستان پورے جوش وخروش سے چلتی رہی اور پھر 14 اگست 1947 کو وہ دن آیا جب آذادی کا سورج طلوع ہوا اور ہمارا پیارا پاکستان بن گیا
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ