دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

اپنا کھانا خود پکاؤ||حسنین جمال

ہم جسمانی کام نہیں کرتے، قصور ہمارا نہیں ہے۔ لائف سٹائل اب یہی بن چکا ہے لیکن اس کا نقصان بس اتنا ہے کہ چلتے پھرتے مر جانا اب ایک خواب بن چکا ہے۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پرانے زمانے میں یہ بات اکثر سننے میں آتی تھی کہ فلاں صاحب اچھے خاصے چلتے پھرتے تھے، رات مسجد میں نماز پڑھ کے آئے تھے اور صبح ان کی خبر آ گئی (فوت ہو گئے۔)

اب چلتے پھرتے مر جانا ایک خواب ہے۔ سائنس آپ کی موت کا وقت شاید نہ بدل سکتی ہو لیکن زندگی کو بستر سے لگا کے چھوڑتی ہے۔ الٹی بات کر دی؟

انیسویں صدی کے شروع میں انسان کی اوسط عمر چالیس سال تھی۔ 2019 میں یہی ایوریج 72.6 سال نکالی گئی۔ یہ اقوام متحدہ کے اعدادوشمار تھے۔

مطلب کیا ہوا؟ آپ کو طبی سہولیات زیادہ مل گئیں، چھوٹے موٹے حادثوں میں بروقت ہسپتال پہنچ گئے، وبا کوئی پھیلی تو اس کی ویکسین نکل آئی، انفیکشن ہوا تو اینٹی بائیوٹک کھا لی اور بچ گئے۔ پہلے زمانے میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ خالی ملیریا سے ہزاروں لوگ مر جاتے تھے۔ روم اپنے زمانے کی عظیم سلطنت تھی، اب سائنسدان فوجیوں کی باقیات دیکھتے ہیں تو پتہ لگتا ہے کہ ملیریے نے پوری پوری آرمی چٹ کر دی تھی۔

ثابت یہ ہوا کہ زندہ رہنے سے زیادہ صحت مند رہنا ہمارے ٹائم کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کھائیں کیا، پئیں کیا، ورزش کون سی کریں یہ سب دھندے ماہروں کے ہیں۔ جس کا جو ڈیپارٹمنٹ ہے وہ آپ کو مشورہ دے دے گا۔ اپنا کام صرف یاد دلانا ہے کہ اب ہم لوگ کتنے آرام پسند ہو گئے ہیں۔

پہلے زمانے میں سائیکل بھی ایک عیاشی ہوتی تھی۔ یہ بڑی عام سی بات تھی کہ ایک بزرگ گھر سے نکلے، تھیلا اٹھایا، چار پانچ کلومیٹر دور بازار گئے اور سودا لے کے واپس آ گئے۔ لوگ اپنے کپڑے خود رفو کر لیتے تھے۔ گھر میں ہاتھ پر بالٹی میں کپڑے دھلتے تھے، نچوڑے جاتے اور تاروں پہ پھیلائے جاتے تھے۔ دکانوں کی، گھروں کی، صحن کی، دروازے کے باہر والی جگہ کی، ساری صفائی خود کی جاتی تھی۔ شام کو پائپ لے کے باقاعدہ گلی تک چھڑکاؤ ہوتا تھا۔ قیمہ سل بٹے پہ ہاتھ سے پیسا جاتا تھا، مصالحے بھی ایسے ہی پستے تھے۔ شربت گھروں میں بنائے جاتے تھے۔ برتن وغیرہ کچن کی بجائے گھر کے واحد نلکے پہ دھوئے جاتے۔ ٹی وی کا ریموٹ نہیں ہوتا تھا، گھر کا سب سے چھوٹا بچہ ریموٹ کی جگہ استعمال ہوتا یا پھر بزرگ خود ہی اٹھ کے چینل بدلتے، انٹینا چھت پہ جا کے ہلاتے یا اس سے متعلق چھتیس دوسرے کام کرتے تھے۔

بچے گلی میں کھیل لیتے تھے، انہیں اغوا کا ڈر تھا نہ ہاتھوں میں پب جی آئی تھی۔ بڑے سوشل میڈیا کی بجائے ہوٹلوں یا تھڑوں پہ جا کے بیٹھک کرتے تھے لیکن اس سب میں فزیکل ایکٹویٹی ہوا کرتی تھی۔

ہوا یہ کہ ہم نے ہر کام آہستہ آہستہ ٹیکنالوجی یا ان لوگوں کو سونپ دیا جنہیں ہم ‘نوکر’ کہتے ہیں اور خود بالکل ٹھنڈے ہو کے بیٹھ گئے۔ فوڈ پانڈا کھانا دیتا ہے، کریم اوبر سواری، بائیکیا سودے پہنچا دیتا ہے اور ٹی وی، ریڈیو، فون، وی سی آر، ٹیپ ریکارڈ سب کچھ ویسے ہی موبائل کے اندر سما چکا ہے۔

ہم جسمانی کام نہیں کرتے، قصور ہمارا نہیں ہے۔ لائف سٹائل اب یہی بن چکا ہے لیکن اس کا نقصان بس اتنا ہے کہ چلتے پھرتے مر جانا اب ایک خواب بن چکا ہے۔ سائنس ہماری موت کا وقت شاید نہیں بدل سکی لیکن زندگی کو بستر سے لگا کے چھوڑ دیا ہے۔ آپ گھنٹوں بیٹھے ہیں، یا گھنٹوں لیٹے ہیں۔ حساب لگائیں آخری بار ایک ڈیڑھ گھنٹے مسلسل کھڑے کب رہے تھے؟ چلے کب تھے چھ سات کلومیٹر ایک ساتھ؟ کوئی جوتے ایسے ہیں آپ کے پاس جنہیں پہن کے آپ سارا دن چل پھر سکتے ہوں؟

تو وہ بزرگ جن کے بارے میں سنا جاتا تھا کہ چلتے پھرتے تھے اور صبح فوت ہو گئے وہ والی ورائٹی اب نایاب ہو گئی ہے۔ ہم پہلے بیمار ہوتے ہیں، پھر دواؤں پہ جاتے ہیں، پھر ہسپتال ملتے ہیں، پھر بچ جاتے ہیں یا مر جاتے ہیں لیکن بیمار ہونے سے مرنے تک کا عرصہ کافی سال کھینچ جاتا ہے۔ فرض کریں یہ عرصہ بیس سال بھی ہو تو کیا ہم اس سے بچنا نہیں چاہیں گے؟

بے شک ہونا وہی ہے جو لکھا ہے لیکن کم از کم پچھتاوا تو نہیں ہو گا کہ ہم اپنی حرکتوں سے وہاں تک پہنچے؟

اس کا بہترین حل یہی ہے کہ اپنے زیادہ سے زیادہ کام خود اپنے ہاتھوں سے کرنے کی ٹرائے کریں۔ مرد ہیں تو خواتین کا ہاتھ بٹا دیں اور خاتون ہیں تو ہیلپرز سے کچھ کام اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ان کی تنخواہ مت کم کریں لیکن سمجھیں کہ آپ ان کی مدد کر رہی ہیں۔

موبائل سائلنٹ پہ لگا کے پندرہ بیس منٹ میں ڈھیروں برتن دھوئے جا سکتے ہیں۔ دفتر سے واپس آ کے ویڈیو گیم کھیلنے کی بجائے باہر چھڑکاؤ یا صفائی ہو سکتی ہے۔ آدھے گھنٹے کی واٹس ایپ کی جگہ تین جوڑے استری ہو سکتے ہیں۔ ڈیڑھ گھنٹے والی فلم کے بجائے اتنی دیر میں بازار پیدل جا کے سودا لایا جا سکتا ہے۔ ایک ٹک ٹاک بنانے پر لگے وقت میں پورے گھر کی ڈسٹنگ ہو سکتی ہے۔ فیس بک پر لوگوں کی پوسٹوں پر کمنٹ کرنے جتنے ٹائم میں تو پائے بنا کے آٹھ بندوں کی روٹی تیار ہو سکتی ہے۔

یہ سارے کام ہم خود کر سکتے ہیں۔ یہ سب باقاعدہ والی ورزشیں ہیں۔ ہمارے بزرگ خود کرتے تھے۔ مرد عورت کی تمیز کوئی نہیں ہوتی تھی اور گھریلو ملازم کا بھی ان کاموں کے لیے کانسیپٹ نہیں تھا۔ وہ لوگ یہ سب کچھ کرتے تھے اور انہیں کسی ورزش کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔

ہم کچھ بھی نہیں کرتے اور ورزش تو خیر بالکل بھی نہیں کرتے۔ ہم کرتے کیا ہیں پھر سارا دن؟ وہی جو آپ اس وقت کر رہے ہیں!

السلام علیکم۔

یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author