شمائلہ حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایسا وقت بھی آیا کہ کسی گھر میں جھاڑو پونچا کرنے اور روزانہ کے برتن دھونے کی ملازمت کا سن کر میں ان کے ہاں چلی گئی ۔ گھر کی مالکن مجھے دیکھا تو پریشان ہوگئی کہ تم تو کہیں سے بھی ماسی نہیں لگ رہی۔ میں نے اس کی منت کی کہ کام پر رکھ لو لیکن مجھے آدھی تنخواہ ایڈوانس میں دے دو۔ اس نے مجھے ٹرائل پر رکھ تو لیالیکن شاید وہ خود بھی شرمندہ تھی ۔میں دو دن کلاسز کے بعد چپ کر کے یونیورسٹی بس پر بیٹھتی اور اس کے گھر چلی جاتی لیکن اس نے مجھے کام سے منع کر دیا اور کہنے لگی کہ میں ویسے اس سے روپے لے لوں لیکن یہ کام وہ مجھ سے نہیں کروا سکتی ۔
اب ویسے روپے کیوں لے لیتی میں ، خاموشی سے واپس آگئی ۔ اس بات کا ذکر میں نے کبھی کسی سے نہیں کیا ۔ اتنے میں تھیسس کے عنوانات فائنل ہوگئے اور ریسرچ کا کام شروع ہو گیا ۔ میں نے ابو جی کو معاشی صورت حال سے آگاہ کیا تو انہوں ہر ہفتے مجھے دو سو کبھی چار سو کبھی پانچ سو اس طرح سے رقم بھجوانی شروع کردی ۔تھیسس تو لکھ لیا لیکن اب اس کی کمپوزنگ اور دیگر مراحل تو کوئی مفت میں نہ کرتا ۔۔۔
اب کوئی سستا سا کمپوزر ڈھونڈنا اور اس سے کام کروانے کا مسئلہ درپیش تھا ۔ یہاں میری مدد کو آئے ڈاکٹر ساجد خان ۔۔۔
انہوں نے اپنے کمپوزر سے کہہ کر تھیسس کمپوز کروا دیا لیکن اس کا بل بنا کوئی ساڑھے تین ہزار ، اب این جی او سے آنے والی امداد تعطل کا شکار تھی اور میں بار بار رابعہ سے پوچھتی کہ کس بندے کے ذریعے وہ این جی او رقم پہنچاتی ہے میں اس سے خود رابطہ کرنے کا سوچ رہی تھی کہ یہاں میری بے بسی دیکھتے ہوئے رابعہ نے بھانڈا پھوڑا کہ میری امداد کوئی این جی او نہیں بلکہ کوئی فرد واحد ہے کر رہا ہے ۔اب یہ بات میرے لیے کس قدر سوہان روح تھی صرف میں ہی سمجھ سکتی تھی لیکن اب ہوا یہ کہ مجھے اس شخص کا نام نہیں بتایا گیا اور میں نے اپنے آ س پاس کے ہر شخص کو شک کی نگا ہ سے دیکھنا شروع کر دیا۔
کبھی لگتا خود رابعہ ہی وہ سب کر رہی تھی کبھی لگتا کوئی ٹیچر ہو سکتا ہے کبھی سوچتی سب دوست چندہ اکٹھا کر کے مدد کر رہے ہو ں گے ۔
غرض ہر پہلو سے سوچنے کے بعد میں ایک بار پھر شدید ڈپریس ہوگئی ۔ بہر حال ایک بار پھر روپوں کا انتظام ہو گیا اور ساتھ ہی اس شخصیت سے پردہ بھی اٹھ گیا ۔
سائیں تھا وہ۔ وہ کوئی عجیب ہی درویش تھا۔ بندہ آنکھوں سے پہچانا جاتا ہے، اس کی ‘تکنی’ سے بھی اندازہ نہیں لگا سکی کہ چاہتا کیا ہو گا وہ۔
پلیٹونک لوو سے بھی اوپر کا معاملہ تھا۔ سمجھ لیں فلموں کا ایسا بے ضرر ہیرو جسے ہیروئن خوش حال چاہیے لیکن بذاتہ اسے نہ ہیروئن کی طلب ہے نہ کسی اور چیز کی۔
وہ بے نیاز تھا، اپنے نشے پانی میں غرق، سارے پیسے اسی نے بھرے تھے این جی او کے نام پہ اور کبھی زندگی بھر میرے سامنے کوئی کشکول بھی نہیں رکھا، نہ مجھے کسی پریشانی میں ڈالا۔
مجھے پتہ لگا جس وقت کہ خالصتاً میری پڑھائی جاری رکھے جانے کے واسطے یہ سارا ناٹک رچایا گیا ہے تو فطری طور پہ ایک کم عمر لڑکی جیسے اور جتنا پریشان ہو سکتی ہے میں بھی ہوئی۔ جیسا ری ایکشن میری جگہ اس دبدھا میں پڑی کسی بھی ذی روح کا ہو سکتا تھا، میرا بھی رہا۔
لیکن مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ انسان ایسا بے غرض کس طرح ہو سکتا ہے؟ انسان تو سراپا طلب ہے وہ سر تا پا بے نیاز بھی نہیں تھا، فقیر تھا۔
سائیں آج بھی زندہ ہے، خدا اپنی امان میں رکھے، گھر بار کا سکھ نصیب ہو، کسی حادثے کے بعد اس کے ہاتھ میں چھڑی آ چکی ہے لیکن سائیں اس کے بغیر ادھورا تھا شاید، یا شاید وہ سدا کا ادھورا تھا۔
اس شمائلہ حسین کی بنیاد اسارنے والا سائیں تھا۔ اس کے بعد زندگی جیسی رہی سو رہی، سائیں نہ ہوتا اور اس کا سلوک نہ ہوتا، تو میں شاید انسانوں پر اعتبار کرنے کے معاملے میں بہت ڈرا کرتی ۔ میں سوچتی ہوں کہ میں شمائلہ حسین ہوتی لیکن شاید کئی دوسری شمائلاؤں میں گم ہو جاتی جن کے پاس وسائل نہیں ہوتے، صرف خواب ہوتے ہیں ۔
میرے لیے انسانوں کے یہ روپ ہمیشہ حیران کن رہے ہیں کسی صلے کی چاہ کیے بغیر ، کسی لالچ کے بغیر کیسے کوئی کسی کی ایسے مدد کر سکتا ہے کہ واقعی مدد لینے والے کو خبر تک نہ ہو ۔
بس دوستو ! ایم اے ہو گیا ۔ اب ملازمت کی تلاش شروع ہوئی ساتھ ہی ایم فل میں داخلے کی خواہش بھی ۔
مس شائستہ جمال کی سفارش سے نشاط سکول ملتان شالیمار میں ملازمت تو مل گئی لیکن وہاں اساتذہ کے ساتھ ایڈمنسٹریشن کا رویہ دیکھ کر جلد ہی انچارج سے منہ ماری ہوگئی اور وہ جاب چھوڑنی پڑی ۔
ایم فل میں کسی نا کسی طرح ایڈمیشن ہوگیا لیکن اس دوران روہی ٹی وی چینل کا آغاز ہوا تو مجھے وہاں اینکرنگ کی آفر ہوئی ۔
یہ میری پہلی باقاعدہ جاب تھی لیکن ابو جی نہیں مان رہے تھے ۔ یوں بھی خاندان بھر کی مخالفت مول لے کر بیٹی کو پڑھانے والی بغاوت کا بھگتان ابھی بھگت رہے تھے ایسے میں میڈیا کی جاب وہ بھی سکرین پر ان کے حوصلے کا کچھ زیادہ بڑا امتحان ثابت ہوتی ۔
لہٰذا میں نے انہیں منع کردیا مگر چند دنوں بعد ڈاکٹر انوار احمد نے دوبارہ مجھے چینل جا کر آڈیشن دینے کے لیے کہا تو ابو جی سے ایک بار پھر میں نے اجازت چاہی ۔
اب کی بار ابو جی نے اس شرط پر ہاں کر دی کہ میں اپنے خاندان میں کسی کو نہیں بتاؤں گی کہ کسی ٹی وی چینل میں جاب کر رہی ہوں ۔اب جاب تو ہو گئی لیکن میرے پروگرام کے اوقات اور ایم فل کی کلاس کے اوقات میں ٹاکرا ہو گیا۔
جاب نہ کرتی تو گزارا نہیں تھا اور ایم فل نہ کرتی تو بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا شوق ادھورا رہ جاتا ۔ لیکن شوق کے سامنے ضرورتیں ہمیشہ جیت جاتی ہیں سو یہ ہی ہوا میں نے ایم فل چھوڑ دیا اور ملازمت جاری رکھی ۔
اب کمانے کے قابل ہوئی تو گھر والوں کی معاشی مدد کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ۔ادھر مشترکہ خاندانی گھر بیچ کر دادا ابو نے سب کو ان کا حصہ دے کر رخصت کرد یا ۔ دو چچاؤں نے اپنا گھر بنا لیا اور ہم بے گھر ہو گئے اور پہلی بار ہم نے کرائے کے گھر میں رہنے کا تجربہ کیا مگر یہ گھر تھا ریلوے لائن کے ساتھ بنی ہوئی کچی آبادی میں ۔۔۔
گھر کیا تھا بس ایک بڑا سا کمرا ساتھ ایک چھوٹا سا سٹور ایک برآمدہ اور چھوٹا سا صحن ، دروازے سے نکلتے ہی کوئی پندرہ بیس فٹ دور ریلوے لائن تھی وہاں سے جب کوئی ٹرین گزرتی تو پورا گھر لرزنے لگتا ۔
بہر حال سر چھپا کے بیٹھنے کے لیے اس سے سستی اور مناسب رہائش میرے گھر والوں کو نہیں مل سکتی تھی وہ وہاں رہ رہے تھے اور میں ملتان کے ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں ۔۔۔
ایک سال میں نے ملتان روہی ٹی وی سے مارننگ شو کی میزبانی کی ۔ میں سرائیکی نہیں تھی لیکن میرے کولیگز مجھے سرائیکی بولنا سکھاتے تھے ۔
سرائیکی سیکھنے کی شوق میں آفس کے چوکیدار سے لے کر مالی تک سب سے ٹوٹی پھوٹی سرائیکی میں باتیں کرتی رہتی ۔ وہ لوگ اس شوق میں کہ میڈم ہماری زبان سیکھنا چاہتی ہے مجھے مشکل سے مشکل لفظوں کی ادائیگی پورے خلوص سے سکھاتے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ میں سرائیکی بولنے اور سمجھنے کی حد تک خاصی بہتر ہوگئی ۔پھر مجھے نیوز اینکرنگ کا شوق ہوا اور میں نے انتظامیہ سے درخواست کی کہ مجھے اسلام آباد آفس بھیج دیں تاکہ وہاں میں نیوز کے شعبے میں کام کر سکوں ۔
انہوں نے میری خواہش کا احترام کرتے ہوئے مجھے اسلام آباد ٹرانسفر کردیا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ