دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

والدین تھانیدار نہیں دوست ہوتے ہیں ||حیدر جاوید سید

یقیناً سلگی ہوں گی۔ کچھ نے بغاوت کی ہوگی کچھ نے سپر ڈال دی۔ یہی ہوتا ہے ہاں اب آپ کا فرض یہ ہے کہ زندگی اس ڈھب پے بیتائیں کہ مثالی والدین شمار ہوں۔ یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ ایسا ممکن نہیں۔ بالکل ممکن ہے۔ آپ نے بس یہ نہیں کہنا کہ تمہارے نمبر کم ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ بہت اچھے ہیں ہماری توقع سے بہتر یقیناً اگلے امتحان میں اس سے بھی بہتر ہوں گے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک وفاقی وزیر مملکت ہیں ڈاکٹر مصدق ملک، کہتے ہیں حکومت کے پاس ’’زہر کھانے‘‘ کو بھی پیسے نہیں ہیں۔ اللہ آلیو زہر کھانے کھیلانے کی ضرورت کیا ہے۔ اخراجات

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں، سفر حیات کے اب تک کے ماہ و سال اکارت ہوئے۔ دین داری ہوپائی نہ دنیا داری۔ دوستوں اور کتابوں کا ساتھ نہ ہوتا تو عین ممکن ہے عشروں پہلے اختتام ویسا ہی ہوتا جیسے اختتام کے لئے ہمارے دو مرحوم دوستوں نے خود کو ذہنی طور پر تیار کیا اور بے خطر خود گئے۔

پہلے دوست جمیل بھٹی تھے۔ پاک گیٹ کے نشیب کی جانب بھیتی سرائے نامی محلے کی کسی گلی میں ان کا گھر تھا۔ دوسرے دوست احسن فارقلیط تھے۔ شاعر، دانشور، ادیب، ملتان آئے ڈاکٹر بننے تھے، ڈاکٹر کی بجائے صحافی بن بیٹھے۔ زندگی کے آخری دنوں میں حسین آگاہی روڈ پر محفل سینما کے سامنے ایک بلڈنگ میں مقیم تھے ایک صبح اخبارات نے ان کی ٹرین کے آگے کود کر خودکشی کی خبر دی۔

اس سانحہ سے ہفتہ دس دن قبل ان سے زندگی سے بھرپور نشست رہی اس شب مجھے کراچی واپس جانا تھا احسن رخصت کرنے کے لئے ریلوے سٹیشن تک آئے۔ لمحہ بھر کے لئے بھی اندازہ نہیں ہوا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے۔ وہ مجھے رخصت کرنے نہیں بلکہ رخصت ہونے کے لئے ساتھ ہیں۔ چند دن بعد جب اس کے سفر حیات کے تمام ہونے کی خبر ملی تو ملتان میں مقیم دو مہربانوں سے تصدیق چاہی۔

لالہ عمر علی خان بلوچ اور فیاض رسول دونوں نے تصدیق کردی پھر بھی ایک آس تھی یہ اس وقت ٹوٹی جب ہمارے محترم دوست اور معروف صحافی خان محمد رضوانی مرحوم نے بھی خبر کے درست ہونے کی تصدیق کی۔

جمیل بھٹی اور احسن فارقلیط نے بھری جوانی میں زندگی سے دامن کیوں چھڑوالیا کوئی سمجھ پایا نہ کبھی ایسا ہوا کہ دونوں سے تعلق رکھنے والے مشترکہ دوستوں سے کوئی تفصیلی نشست ہوتی کہ جان پاتا کہ دونوں نے انتہائی قدم کیوں اٹھایا۔

جمیل بھٹی کے والد بزرگوار سے چند ماہ بعد ملتان پہنچ کر تعزیت کے لئے ملاقات کی تو بزرگوار پھوٹ پھوٹ کر روتے اور فقط یہی کہتے رہے، ’’بی بی جی دے پوترآ بیا قیامت کیا ہوسی میڈا جوان بال قبر اچ سُم پئے‘‘۔

سچ یہی ہے کہ جوان اولاد کی موت قیامت صغریٰ سے کم نہیں۔ احسن فارقلیط کا ذکر چند دن قبل ایک نوجوان شاعر کی بے وقت رخصتی کے تعزیتی کمنٹس میں عامر حسینی کے ساتھ ہوا تھا۔ پچھلے چند دنوں سے دونوں مرحوم دوستوں کی یادوں کی دستک بڑی شدید ہے۔

یاد پڑتا ایک بار کسی نوجوان کی خودکشی کی خبر پڑھ چکنے کے بعد استاد مکرم سید عالی رضوی کہہ رہے تھے۔ والدین کو اولاد کے ساتھ دوستانہ برتائو کرنا چاہیے اور دوستوں کا فرض ہے کہ وہ دوستوں کے حالات سے بے خبر نہ رہیں۔

یہاں جوان اولاد کی آرزوئوں کے قتل کو خاندانی روایات، بھرم، اصول اور نجانے کیا کیا کہا جاتا ہے۔ پتہ نہیں کیوں ہم خود تو اپنے زمانے میں ہی جینا چاہتے ہیں مگر اولاد اور دوسروں کے لئے زمانہ قبل از مسیحؑ کا ماحول درست سمجھتے ہیں۔

میری رائے تو یہی ہے کہ اولاد کی رہنمائی واجب ہے اس پر اپنی خواہشیں مسلط کرنا غلط ہے۔ انہیں کیا پڑھنا بننا ہے یہ فیصلے انہیں کرنے دیجئے۔ آپ کا فرض فقط اتنا ہے کہ اپنے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں رہنمائی کیجئے۔

والدین بسا اوقات نکے تھانیدار کا سا رویہ اپنالیتے ہیں اپنی محرومیوں اور مسائل کا غصہ اولاد پر نکالتے ہیں۔ یہ درست رویہ نہیں ہے۔ ہر دور کی نئی نسل اپنے عہد میں جینا چاہتی ہے۔ پتہ نہیں ہماری عمر کے لوگ ہر دور میں نئی نسل پر یہ پھبتی کسنا فرض کیوں سمجھتے ہیں کہ زمانہ تو ہمارا تھا کیا ادب آداب تھا۔ بڑوں کو دیکھ کر بچے سانس روک لیتے تھے۔ ابا کے کھانسنے کی آواز پر سارا گھر دبک کر بیٹھے رہتا۔ ابا نہ ہوئے جلاد ہوگئے کہ سارا گھر دبک کر بیٹھ رہا ان کے کھانسنے پر۔

ویسے تجربہ اور مشاہدہ یہی سمجھاپایا کہ جو لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ بس باتیں ہی کرتے ہیں۔ اپنی تعلیم کے دنوں میں وہ بھی اس دور کو ورثے میں ملی بعض قدروں کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ کالم یہاں تک آن پہنچا تو احساس ہوا کہ بالائی سطور میں جو لکھ آیا ہوں اس میں پڑھنے والوں کے لئے کیا ہے اور وہ کیوں دلچسپی سے پڑھیں گے۔

زیادہ تر قارئین تو شاید ابتدائی چند سطور کے بعد اخبارایک طرف رکھتے ہوئے کہیں گے۔ ملک میں ہلچل مچی ہے۔ انقلاب پشاور میں انگڑائیاں لے رہا ہے یہاں شاہ جی کہہ رہے ہیں اولاد سے دوستوں جیسا برتائو کرو۔

بہت ادب سے عرض کروں اگر آپ اپنے ٹوٹے بکھرے خوابوں کی تعبیر کے لئے اولاد کی طرف دیکھتے ہیں تو پھر گھر کو سی آئی اے سٹاف کی چوکی بنانے کی بجائے اسے گھر رہنے دیجئے اور خود بھی والد کے مرتبہ پر فائز رہیں۔ ایس ایچ او بننے کی ضرورت نہیں۔

صاحب اولاد کا فرض یہ ہے کہ اپنی محرومیوں کو کسی اندھے کنویں میں پھینک دے اولاد کیلئے زمانے سے لڑنے بھڑنے، تعبیریں پانے اور اپنی فہم کے مطابق زندگی پر دسترس حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا کرنے میں معاونت کریں۔ دوستوں کی طرح اولاد کی قدم قدم پر رہنمائی کریں گے تو وہ بھی سفر حیات کے مسائل کھلے دل سے آپ کے سامنے رکھ کر مشاورت و رہنمائی چاہے گی ۔ یہ عادت ترک کردیجئے کہ ہمارے دور میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے دور سے کیا مراد ہے۔ آپ کا بچپن؟

اچھا اگر آپ کے بچپنے کا زمانہ یا لوگ قدرے سخت گیر تھے تو کیا آپ کے اندر ان سخت گیریوں کے خلاف بغاوت کی چنگاریاں نہیں سلگیں؟

یقیناً سلگی ہوں گی۔ کچھ نے بغاوت کی ہوگی کچھ نے سپر ڈال دی۔ یہی ہوتا ہے ہاں اب آپ کا فرض یہ ہے کہ زندگی اس ڈھب پے بیتائیں کہ مثالی والدین شمار ہوں۔ یہ نہ کہہ دیجئے گا کہ ایسا ممکن نہیں۔ بالکل ممکن ہے۔ آپ نے بس یہ نہیں کہنا کہ تمہارے نمبر کم ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ بہت اچھے ہیں ہماری توقع سے بہتر یقیناً اگلے امتحان میں اس سے بھی بہتر ہوں گے۔

میری دانست میں بہتری کی توقع کے لئے یہ رویہ زیادہ مناسب ہے بجائے اس کے کہ آپ سارا گھر سر پر اٹھالیں اور اپنے ہی بچے (اس میں بیٹی اور بیٹا دونوں شامل ہیں) کی عزت نفس مجروح کریں۔ عزت نفس عمر کے کسی خاص حصے کی مرہون منت نہیں۔ ہمیشہ سے ہوتی ہے ہمیشہ رہے گی۔

زیادہ سہل لفظوں میں عرض کرسکوں تو یہ کہ گھر کے ماحول کو حبس زدہ بنانے کی بجائے خوشگوار بناکر دیکھیں۔ بچے تعلیم حاصل کررہے ہیں تو ان میں علم دوستی کے بیج بوئیں۔ اپنے مستقبل کا فیصلہ انہیں خود کرنے دیں۔ بجائے اس کے کہ آپ ان پر ان کا مستقبل مسلط کریں۔ والدین کے درجہ پر فائز احباب کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم اپنا وقت گزار آئے ہیں نئی نسل نے اپنی زندگی کا سفر ابھی شروع کرنا ہے اس کی قدم قدم پر حوصلہ افزائی ضروری ہے۔

ایسا بھی نہیں کہ کسی غلطی پر بازپرس نہیں ہونی چاہیے لیکن بازپرس کرتے وقت زندگی کی حقیقتوں کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ چند ماہ ادھر مجھ سے ایک دوست نے کہا، شاہ جی میں اور تمہاری بھابی بھر گھرے میں تنہائی محسوس کرتے ہیں۔

عرض کیا اس کی وجوہات پر غور کیجئے بلاوجہ کی روک ٹوک، جھڑک دینا، مین میخ نکالنا یہ درست نہیں اس سے بہتر یہ ہے کہ مشورے کے اندازمیں پیغام پہنچائیں۔

مکرر عرض ہے ہر نسل اپنے چار اور کے ماحول میں پروان چڑھتی ہے مگر اپنا ماحول خود بناتی ہے۔ موسم ہر شخص کے اندر دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ضرورتیں، خواہشیں، خواب سب مختلف۔

ادھر ہم اور آپ ہیں کہ نئی نسل کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے اور ایک ہی پھبتی کسنے پر بضد ہیں۔ یہ نسل تو جی بہت ہی خودسر ہے۔ بڑوں کی سنتی نہیں۔ معاف کیجئے زمانے کے تقاضوں کو بڑے نظرانداز کرکے اولاد کو اپنے بچپنے کے ماحول میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں یہی غلط ہے۔

ہمیں (والدین کو) یہ حقیقت تسلیم کرلینی چاہیے کہ ہمیں نئی نسل کو ان کے عہد کا کارآمد انسان بنانے کے لئے رہنمائی کرنی چاہیے۔ باقی فیصلے وہ خود کرلیں گے۔ موسم ضرورتیں، رشتے وہ بھی ہماری طرح ہی محسوس کرتے ہیں۔

۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author