حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وفاقی وزیر مملکت ہیں ڈاکٹر مصدق ملک، کہتے ہیں حکومت کے پاس ’’زہر کھانے‘‘ کو بھی پیسے نہیں ہیں۔ اللہ آلیو زہر کھانے کھیلانے کی ضرورت کیا ہے۔ اخراجات کم کیجئے، بجلی، ٹیلیفون، پٹرول، موبائل، گیس، لگژری گاڑیاں، شاہانہ مراعات سب بند کیجئے، اگر گریڈ پانچ سات کا سرکاری ملازم یوٹیلٹی بلز اپنی تنخواہ سے دیتا ہے تو افسر شاہی آسمان سے اتری مخلوق ہے نہ ہی محسن ملت بن کر کام کرتی ہے تنخواہ لیتی ہے بس لے تنخواہ، سرکاری مراعات کی عیاشی بند کرادیں۔
وفاق اور چاروں صوبوں میں سالانہ اربوں روپے کی بچت ہوگی۔ غیرترقیاتی اخراجات کم کیجئے۔ یہ نہیں کرنے ہیں تو ایٹم بم کیوں بنایا تھا اسے ٹاکی شاکی مار کر دو دو پیس سرحدوں پر نمائش کے لئے رکھوادیں۔
قرضوں کے طوق گلوں کا پھندا بنے ہوئے ہیں اور یہاں شوقِ تجربات ہی کم نہیں ہورہے۔
ایک کمیشن بنائیں اور تحقیقات کروائیں کہ کم از کم پچھلے 22برسوں کے دوران عالمی مالیاتی اداروں سے لئے گئے قرضوں اور امریکی سپورٹ پروگرام کی رقومات میں سے کتنی غیرترقیاتی مدوں پر خرچ ہوئیں۔
ہم ایسے سادہ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اسلام آباد میں جس شان سے ججوں، بیوروکریٹس اور "دوسروں” کو مفت سرکاری پلاٹ ملتے ہیں کیا اس شان سے کسی دفتر کے ٹی بوائے، معاون (چپڑاسی) اور کلرک کو بھی مہنگے سیکڑوں میں پلاٹوں کی ریوڑیاں ملتی ہیں وہ بھی کارنر پلاٹس کی؟
ذرا حساب لگواکر عوام معاف کیجئے گا رعایا کو یہ ہی بتادیجئے کہ واپڈا کے علاوہ کس کس محکمے کے بڑوں کو ملازمت اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد کتنے کتنے یونٹ ماہانہ مفت بجلی ملتی ہے۔
اچھا یہ کیوں مفت میں ملتی ہے کیا انہوں (سب نے) نے دوران ملازمت تنخواہ نہیں لی؟ یا اللہ واسطے خدمات سرانجام دیتے رہے۔
مسلح افواج کے بڑوں کو ملازمت سے سبکدوشی کے بعد زرعی اراضی، ڈی ایچ اے کے پلاٹ کن داموں پر ملتے ہیں؟ کیا یہ عوام کے ٹیکس سے تنخواہ نہیں لیتے رہے۔ اچھا ٹیکس دینے والوں (یاد رکھئے ماچس تک خریدنے پر ٹیکس دیتے ہیں بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کے علاوہ فیول ایڈجسٹمنٹ کا بھتہ بھی شامل ہوتا ہے) کو کس سوسائٹی میں مفت یا رعایتی قیمت پر پلاٹ ملتا ہے؟ نہیں ملتا تو کیوں۔
سرکاری افسر شاہی کا قصہ لکھ آیا آیئے اب عوام اور ملک کے خدمت گاروں (سیاستدانوں) کی بات کرلیتے ہیں۔ 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں سفید پوش طبقات کے کتنے ارکان تھے؟
ہماری معلومات کے مطابق یہ 5فیصد بھی نہیں تھے۔ چلیں رعایت کرتے ہیں یہ 20فیصد تھے۔ باقی کے 80فیصد 3سے 5کروڑ کے درمیان رقم انتخابی عمل پر خرچ کرکے منتخب ہوئے۔ انہیں ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ گھر نہیں بیٹھنے دیتا۔
تو پھر کریں خدمت۔ تنخواہ، مراعات، اسلام آباد اور چاروں صوبوں کے دارالحکومتوں میں مفت سرکاری قیام سیشن کے دوران معمولی سے نرخوں پر اسمبلیوں کے کیفے ٹیریا پر شکم سیری کا سامان، آمدرفت خزانے کے ذمے، کیوں بھائی، جو کچھ آپ ملکی خزانے سے وصول کررہے ہیں، خدمت خلق کا اتنا ہی شوق ہے تو تنخواہوں اور مراعات سے دستبردار ہوجائیں۔
اسمبلیوں کے سیشن میں آئیں چلیں اس دوران قیام و طعام کی سہولت آپ کو ملنی چاہیے۔ اس کے سوا آپ جو وصول کر اور کھارہے ہیں یہ سب بھائیوں کا گوشت کھانے جیسا عمل ہے۔
کاش کوئی حکومت قانون بنادے کہ پارلیمان کے ارکان کی کوئی تنخواہ نہیں ہوگی بس اجلاسوں کے لئے آمدورفت اور سیشن کے دوران قیام و طعام عوام کے ذمہ ہوگا۔ اس ملک کے ایک عام آدمی کے گھر دو وقت جو پکتا ہے وہی اسمبلیوں اور ارکان اسمبلی کے ہاسٹلوں کی کینٹینوں پر پکنا چاہیے کیونکہ "اللہ کا دیا اور عوام سے لیا سب کچھ ہے آپ کے پاس”۔
خدمت خلق کیجئے عبدالستار ایدھی مرحوم کے جذبے کی طرح ورنہ صاف بتادیں ہم خدام وادم نہیں سیاسی تاجر ہیں۔ 3سے 5کروڑ خرچ کرکے آتے ہیں 10سے 15کروڑ کم از کم کھانا ہمارا حق ہے۔
معاف کیجئے گا لاکھوں روپے ماہانہ میں حاضر اور ریٹائر منصف حضرات کی مدت ملازمت کے دوران کی کارکردگی سے آگاہی ایک عام شہری کا حق ہے ہم شہری یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انہوں نے مدت ملازمت کے دوران کتنے مقدمات سنے، کتنوں کے فیصلے کئے۔ ریٹائر ہوئے تو ان کی عدالت میں کتنے مقدمات زیرالتواء تھے۔
معاف کیجئے گا ہماری اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کی تنخواہیں خطے کے تمام ممالک سے زیادہ ہیں۔ پنشن، مراعات، مفت کارنر کے پلاٹ الگ پھر ہمارا نظام انصاف لیرو کتیر کیوں ہے۔
یہی حال جرنیلوں کا ہے۔ کیوں چلچلاتی دھوپ اور بدترین برف باری میں کھڑے سپاہی کو وہ مراعات نہیں ملتیں جو افسروں کا ’’حق‘‘ ہے۔
آیئے ایک دو باتیں پولیس والوں کی کرلیتے ہیں۔ چھ دہائیوں کے سفر حیات میں بطور طالب علم اپنے مشاہدے کی بنا پر عرض کرسکتا ہوں کہ اس ملک میں سب سے اہم ذمہ داریاں پولیس اہلکاروں کی ہیں یہ 24/7 کے ملازم ہیں عید شب برات جمعہ یا محرم چھٹی کوئی نہیں۔ پٹرول پاس سے ڈلوائے، سٹیشنری پلے سے خریدے، اسے بدلے میں دیتے کیا ہیں۔
کیا ستم ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں سکون اور آرام کی نیند بھی لیکن اس کے لئے موسموں کی سختیاں برداشت کرنے والے پولیس کے سپاہی کو ہم زندگی کی خوشیاں اور بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے سکون فراہم نہیں کرسکتے۔
سب بدلنا ہوگا، پورے کا پورا نظام۔ یہ استحصالی نظام ہے صرف افسر شاہی (اس میں سارے بڑے شامل ہیں) کے اللوں تللوں کو پورا کرنے والا نظام جو عوام کے خون پسینے کی کمائی پر چلتا ہے یا غیرملکی قرضوں پر۔
قرضوں کی مے پیتے ہیں ترقی کی سوچتے ہیں۔ ارے بھائی اس حال میں صرف فاقہ مستی سے نجات کے خوابوں والے اشعار لکھے جاسکتے ہیں۔
کیا کسی میں اخلاقی جرات ہے کہ وہ لمبا چوڑا حساب رہنے دے صرف یہ بتادے 2002ء سے اب تک بننے والی اسمبلیوں کے ارکان کی اسمبلیوں کی مدت کے دوران اثاثوں میں کتنا اضافہ ہوا اور اس اضافے میں محنت اور کرپشن دونوں کا تناسب کیا رہا؟
یقیناً یہ ہمیں کوئی نہیں بتائے گا اندر کھاتے سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ آسان لفظوں میں یہ کہ سب بھائی بند ہیں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ورنہ کوئی تو بتا ہی سکتاہے پی آئی اے کیونکر تباہ ہوا اور ایئربلیو کیسے مستحکم؟
معاف کیجئے گا آج کے کالم میں کچھ تلخ نوائیاں لکھی گئیں۔ کیا کیجئے یہ ہمارے چار اور جیتے بستے لوگوں کے سوال ہیں، وہ سوچتے ہیں اپنے ابتر حالات پر روتے ہیں اپنی کمائی پر پلنے والی مخلوقوں کی عیاشی دیکھتے ہیں۔ کبھی کبھار ان کی سوچوں، باتوں اور سوالوں کو بھی ان کالموں میں لکھنا ضروری ہے۔
جواب ملے بھلے نہ ملے آواز سے آواز ملانا ضروری ہے۔ آج کا کالم فقط یہی ہے۔ آواز سے آواز ملائو لوگو، خاموشی قبرستان میں ہی اچھی لگتی ہے۔
۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر