نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یوم تکبیر اور بہاولپور||ظہور دھریجہ

خطہ بہاولپور اپنی تاریخ اور جغرافیائی اہمیت کے اعتبار سے سیاحوں کیلئے بھی ہمیشہ وجہ کشش رہا ہے اور ایسے مشہور زمانہ سیاح جنہوں نے بر صغیر کے مختلف علاقوں کی سیاحت کی ہے انہوں نے اس خطے میں بھی قدم رکھے ہیں اور یہاں کے ثقافتی، معاشی اور سیاسی پہلوؤں کا مطالعہ کیا ہے اور اپنے تاثرات کتابی صورت میں شائع کئے ہیں

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
28 مئی یوم تکبیر اور بہاولپور اس عنوان کا مقصد یہ نہیں کہ پاکستان ایٹمی طاقت بہاولپور میں بنا تھا یا ایٹمی تجربہ بہاولپور میں ہوا تھا ، بتانے کا مقصد اتناہے کہ یوم تکبیر کے موقع پر (ن) لیگ کی قیادت نے بہاولپور میں جلسہ کرنے کا فیصلہ کیا، وسیع پیمانے پر انتظامات ہوئے، اسی مناسبت سے بہاولپور کی تاریخ اور اس کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا ، موجودہ حکمرانوں کی معمولی توجہ سے بہت سے مسئلے حل ہو سکتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ بہاولپور کو سی پیک سے محروم رکھا گیا، سی پیک لنک روڈ کو فوری تعمیر ہوناچاہئے،خان پور کیڈٹ کالج کی تعمیر، چنی گوٹھ تا چوک بہادر پور براستہ لیاقت پور ، خان پور، رحیم یار خان دو رویہ سڑک کی تعمیر، بیروزگاری کے خاتمہ کیلئے ٹیکس فری انڈسٹریل زون ،بہاولنگر میں میڈیکل و کیڈٹ کالج اور بہاولپور ڈویژن میں نئے اضلاع کی ضرورت ہے ،بہاولپور کی پاکستان کیلئے بہت خدمات ہیں اور یہ قدرتی طور پر تہذیبی و ثقافتی خطہ ہے جو کہ حکومت کی خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔ خطہ بہاولپور اپنی تاریخ اور جغرافیائی اہمیت کے اعتبار سے سیاحوں کیلئے بھی ہمیشہ وجہ کشش رہا ہے اور ایسے مشہور زمانہ سیاح جنہوں نے بر صغیر کے مختلف علاقوں کی سیاحت کی ہے انہوں نے اس خطے میں بھی قدم رکھے ہیں اور یہاں کے ثقافتی، معاشی اور سیاسی پہلوؤں کا مطالعہ کیا ہے اور اپنے تاثرات کتابی صورت میں شائع کئے ہیں ، ان سیاحوں کا بہاولپور آمد کا سلسلہ قبل از مسیح شروع ہو کر زمانہ حال تک جاری ہے۔ سب سے پہلا سیاح جو یہاں آیا وہ Nerchus تھا جو سکندر اعظم کا درباری تھا ،جس نے اس خطے میں سکندر مقدونی کی فتوحات کا ذکر اپنے سفر نامہ میں کیا ہے، وہ پانچ دریاؤں کا ذکر کرتا ہے ، جن کے قریب سکندر اعظم کا قیام تھا،یہ جگہ اوچ شریف تھی ، جس کا نام اس نے اپنے نام پر سکندریہ رکھا تھا ۔یونانی کتابوں میں سکندر کے نام سے جو شہر ملتے ہیں ان میں ایک نام اوچ شریف کا بھی ہے۔ اس کے بعد جس مشہور سیاح کی آمد کا پتہ چلتا ہے وہ چینی سیاح ہیون سانگ ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں اس علاقے کی سیاحت کرتا ہے۔ کنگھم نے اپنی کتاب (ہندوستان کا قدیم جغرافیہ) میں اس کے سفر کی جو تفصیل دی گئی ہے اس میں وہ جن شہروں کا ذکر کرتا ہے ان میں صرف ملتان ایک ایسا شہر ہے جس سے ہم آشنا ہیں ، باقی شہروں کے نام اجنبی ہیں لیکن ان سے اتنا پتہ ضرور چلتا ہے کہ جب وہ سندھ سے ہو کر ملتان پہنچا ہے تو راستہ میں جن علاقوں سے گزرا ہوگا ان میں وہ علاقے بھی ہونگے جو آج بہاولپور کا حصہ ہیں ، چنانچہ وہ بتاتا ہے کہ یہ علاقہ بدھ مت کے زیر اثر تھا اور یہاں کے حکمران کی قوم سوہدرہ تھی اور وہ بدھ مت کا پیروکار تھا ۔ ہیون سانگ کے بیان کے موجب مہاتما بدھ نے اس علاقے کا سفر شروع کیا تھا اور اشوکا نے اس تاریخی سفر کی یادگار کے طور پر متعدد اسٹوپا تعمیر کئے ، معلوم ہو اکہ اس وقت سوئی وہار کا سٹوپا جو اس وقت سمہ سٹہ کے قریب ہے وہ بھی متذکرہ سٹوپوں میں شامل تھا۔ بہاولپور کی شمالی سرحد کے ساتھ ساتھ دریائے ستلج بہتا ہے جس کے پار ضلع ملتان اور ضلع وہاڑی ہیں ، مشرق میں ضلع بہاولنگر ہے ،جنوب میں بھارت کا علاقہ ہے اور مغرب میں رحیم یارخان۔ شہر بہاولپور دریائے ستلج کے کنارے ریلوے لائن پر لاہور سے 271میل اور ملتان سے 60میل کے فاصلے پر واقع ہے ۔ نواب بہاول خان عباسی اول نے اس کی بنیاد رکھی تو شہر کے گرد ایک فصیل تعمیر کرائی ، فصیل باقی نہیں رہی پر شہر میں داخل ہونے کے جو چھ دروازے بنائے گئے ان کے نام اور آثار اب بھی باقی ہیں ، ان میں شکار پوری گیٹ ،بوہڑ گیٹ ، ملتانی گیٹ، بیکانیری گیٹ ( اب یہ فرید گیٹ کے نام سے مشہورہے ) ، احمد پوری گیٹ اور دراوڑی گیٹ شامل ہیں۔ شاہی بازار سب سے اہم اور خوبصورت ہے، مچھلی بازار اور گری گنج قابل ذکر ہیں، اندرون شہر چوک کے نزدیک جامع مسجد ہے جو بہاولپور کی سب سے قدیم اور عظیم مسجد ہے۔ بہاولپور کی جامعہ اسلامیہ ، صادق پبلک سکول ، صادق ایجرٹن کالج ،قائداعظم میڈیکل کالج، وکٹوریہ ہسپتال ، انجینئر نگ کالج ، ہائی ، مڈل پرائمری اور فنی تعلیم کے سکول موجود ہیں ۔ پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز اور ادارے ہیں ، ریڈیو اسٹیشن بھی موجود ہے، کئی مقامی اور قومی اخباروں کے دفاتر بھی موجود ہیں،فوجی چھاونی بھی بنائی گئی ، صنعتی مراکز بھی ہیں ، گھی ، ٹیکسٹائل ، ہوزری اور پلاسٹک کی مصنوعات کے کئی کارخانے ہیں ۔ بین الاقوامی معیار کا اسپورٹس سٹیڈم ہے، عجائب گھر اور چڑیا گھر بھی ہیں ، ڈویژن کا صدر مقام ہونے کے باعث تمام محکموں کے ڈویژنل دفاتر بھی ہیں ، لاہور ہائی کورٹ کا بینچ بھی موجود ہے ، سیشن کورٹ اور زیریں عدالتیں بھی موجود ہیں ، نور محل ، گلزار محل ، دوست خانہ اور قدیم طرز رہائش والی دو آبادیاں ماڈل ٹاؤن اور سٹیلائٹ ٹاؤن ہیں ۔ بہاولپور کی خدمات کے حوالے سے یہ عرض کروں تو جب پاکستان قائم ہوا سعودی عرب سمیت کسی ملک نے پاکستانی کرنسی کے اجراء کی ضمانت نہ دی ، نواب آف بہاولپور نے کرنسی کی ضمانت دی ، تقسیم کے بعد زر مبادلہ کے سارے ذخائر ہندوستان کے پاس تھے ۔ کہا گیا کہ نواب آف بہاولپور نے کرنسی کی ضمانت دے دی ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کی پہلی تنخواہ کہاں سے آئے گی ؟ بانی پاکستان پریشان تھے ، نواب آف بہاولپور نے اپنے خاص فنڈ میں سے خطیر رقم مشرقی اورمغربی پاکستان کے ملازموں کیلئے دی ۔ نواب آف بہاولپور صادق محمد عباسی کو بانی پاکستان نے مسلمانوں کا محسن قرار دیا اور کہا کہ پاکستان سے پہلے برصغیر میں ایک پاکستان موجود تھا اور وہ ریاست بہاولپور تھی ۔

 

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author