حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیجئے بدھ کو صوابی انٹرچینج سے شروع ہوا لانگ مارچ جس نے اسلام آباد پہنچ کر دھرنے میں تبدیل ہونا تھا، جمعرات کی صبح عمران خان کی اسلام آباد کے جناح ایریو پر خطاب کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ خان مصاحبین کے ہمراہ بنی گالہ روانہ ہوگئے۔ کارکنوں کا ایک گروپ جو ڈی چوک پر قائد کا منتظر تھا وہ آگے بڑھ کر ریڈ زون میں داخل ہوگیا۔
جناح ایونیو پر موجود کارکنان گھروں کو لوٹ گئے۔ بدھ کی شام سپریم کورٹ کا فیصلہ سابق وزیراعظم کے لئے فیس سیونگ ثابت ہوا۔ عمران خان نے اعلان کیا اگر 6دن میں اسمبلی توڑ کر انتخابات کی تاریخ اعلان نہ کیا گیا تو وہ 30لاکھ افراد کے ہمراہ دوبارہ اسلام آباد آئیں گے۔
25 مئی کے لانگ ماچر دھرنا کے لئے ان کا دعویٰ تھا 20 لاکھ افراد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچوں گا دو مطالبات تھے، حکومت ختم اور انتخابات کا اعلان، مطالبات تسلی کئے جانے تک انہوں نے دھرنے کی صورت میں اسلام آباد میں رہنے کا اعلان کیا تھا۔
لانگ مارچ کم دھرنے میں کتنے ہزار یا کتنے لاکھ لوگ موجود تھے اس پر بحث فضول ہے۔ بہرحال وہ خیبر پختونخوا سے کارکنوں کے ایک بڑے قافلے کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ لانگ مارچ کا آغاز پشاور کی بجائے صوابی انٹرچینج سے کیوں ہوا؟
یہ اصل سوال ہے۔
اس کا جواب صرف وزیراعلیٰ محمود خان کے پاس ہے۔ اڑتی اڑتی خبر یہ ہے کہ کچھ سیاسی اور دوسرے خطرات تھے ایک سرگوشی کسی کے کسی کو فون کرنے کی بھی ہے کہ یوں ہوا تو معاملہ بگڑ سکتا ہے درست بات مولانا فضل الرحمن ہی جانتے ہوں گے ،
کہتے یہی ہیں کہ” اسی ” لئے پشاور کی بجائے صوابی انٹر چینج کا انتخاب کیا گیا۔ خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت کے ہونے کے باوجود روانہ ہونے والا قافلہ غیرمتاثر کن تھا۔
صوبہ پنجاب کے وسطی شہروں میں البتہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بدھ کو ’’رونق میلہ‘‘ لگائے رکھا۔ کارکنوں نے اسلام آباد تک جانے کے لئے مزاحمت کی۔ پولیس نے لاٹھی چارج سے زیادہ آنسو گیس پھینکنے پر اکتفا کیا۔ ہدایت یہی تھی کہ لاٹھی چارج ناگزیر صورتحال میں کیا جائے۔ اس پر من و عن عمل ہوا۔
بدھ کی صبح لاہور سمیت چند دوسرے شہروں میں جو صورتحال تھی اس کا نظارہ یقیناً آپ الیکٹرانک میڈیا پر کرچکے ہوں گے۔ فی الوقت دو سوال اہم ہیں اولاً یہ کہ سوموار کی شام یعنی لانگ مارچ کے آغاز سے ایک دن قبل شاہ محمود قریشی نے شہباز شریف کو اور پرویز خٹک نے راجہ پرویز اشرف اور ایاز صادق کو فون کیوں کئے۔ پرویز خٹک، شاہ محمود اسد قیصر اور اسد عمر کی ایک ملاقات کے چرچے ہیں۔
پی ٹی آئی انکاری ہے مگر آزاد ذرائع ملاقات کی تصدیق کررہے ہیں۔ کیا لانگ مارچ کم دھرنے کو جناح ایونیو پر ختم کرنے کا اعلان اس ملاقات کا نتیجہ سمجھ لیاجائے؟
اگر کہیں ملاقات نہیں ہوئی، ’’کسی‘‘ کا فون نہیں آیا، کوئی وعدہ وعید بھی نہیں تو پھر لانگ مارچ کو دھرنے میں بدلنے کی بجائے بنی گالہ روانگی کو ترجیح کیوں دی گئی۔
کیا کارکنان اس قابل بھی نہ تھے کہ انہیں بتایا جاتا کہ قیادت نے کس سے کیا طے کیا یا کس نے قیادت سے کیا وعدہ کیا؟
یہاں یہ سوال بھی غور طلب ہے (درست یا غلط کی بحث اپنی جگہ) کیا واقعی اس لانگ مارچ کے لئے 25مئی تاریخ کا اعلان اس لئے کیا گیا تھا کہ حکومت اور آئی ایم ایف کے مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہوں؟
اچھا اس سے ملتی جلتی بات چند حکومتی زعما بھی کہہ رہے ہیں۔ اسے اٹھارکھتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے وقت پاکستان میں سیاسی بدامنی کا منظرنامہ بنانے کا مقصد یہی تھا کہ آئی ایم ایف دبائو میں آئی ہوئی حکومت سے اپنی شرائط منوائے۔
ادھر حکومت کے مذاکراتی وفد نے آئی ایم ایف سے شرائط پر عمل کے معاملے پر مشاورت کے لئے وقت لیا ادھر عمران خان نے 6دن کی مہلت دے کر لانگ مارچ ختم کردیا۔
تو کیا اب 6دن بعد دونوں میلے دوبارہ لگیں گے۔ حکومتی وفد اسلام آباد آکر وزیراعظم اور کابینہ سے مشورہ کرے گا اور جواب بھجوائے گا۔
آئی ایم ایف اور عمران خان دونوں کے اگلے اقدامات حکومت کے جواب سے مشروط ہوں گے؟ سوال کو سوال سے ملاکر دیکھنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے۔ (ن) لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری نے بدھ کو تحریک انصاف پر پابندی کا مطالبہ کیا۔ میرے خیال میں ایک احمقانہ مطالبہ ہے اس لئے ہم آگے بڑھتے ہیں۔
بدھ کو وسطی پنجاب کے کچھ شہروں میں پی ٹی آئی اور پولیس کے درمیان ہلکے پھلکے میچ ضرور ہوئے لیکن جو توقع کی جارہی تھی کہ عوام کے باقابو سیلابی ریلے سارے انتظامات کو بہاکر لے جائیں گے ویسا کچھ نہیں ہوسکا۔
تحریک انصاف کو اس کی وجوہات کے ساتھ حکمت عملی کی کمزوریوں کا جائزہ لینا ہوگا۔
یہ منطق درست نہیں کہ خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت تھی اس لئے لانگ مارچ وہاں سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اصل سوال یہ ہے کہ 20لاکھ لوگ لے کر اسلام آباد داخل ہونے کا اعلان کرنے والی قیادت پچاس ہزار لوگ بھی کیوں نہ کرسکی۔ پی ٹی آئی تعداد کے حوالے سے جو مرضی دعوے کرے، تلخ حقیقت یہی ہے کہ صوابی انٹرچینج سے قافلہ روانہ ہوا تو اس میں مشکل سے سات آٹھ ہزار افراد تھے راستے سے مزید لوگ شامل نہ ہوتے تو یہ تعداد بڑھ نہ پاتی۔ تحریک انصاف کے مرکزی قافلے میں مشکل سے پندرہ سترہ ہزار ا فراد تھے۔
دو تین ہزار لوگ مختلف طریقوں سے اسلام آباد پہنچے اور اسلام آباد سے باہر نکلے۔ وہ دعوے کہ ایک سروس مین سوسائٹی کے لوگ خاندانوں کے ہمراہ لانگ مارچ میں شریک ہوں گے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ چند سابق عسکری نابغے ضرور تصاویر بنواتے پائے گئے فوٹو سیشن کے بعد وہ کہاں گئے ’’اللہ جانے یا لالہ‘‘۔
اب اس پر غور کیجئے حاصل وصول کیا ہوا؟ بظاہر کچھ نہیں۔ ماسوائے اس کے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے عمران خان کی فیس سیونگ ہوگئی، اس فیصلے کے بعد اسلام آباد میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار کون ہے؟ فقط کل کی بات نہیں ماضی کے واقعات کے حوالے سے بھی ان سطور میں یہی عرض کرتا رہا کہ سیاسی فیصلے سیاستدانوں کو کرنے دیجئے۔
سیاسی معاملات میں ان کی دادفریاد سننے کی بجائے صاف کہیں اگر آپ لوگ سیاسی حل تلاش نہیں کرسکتے تو سیاست چھوڑدیں۔ بدقسمتی سے ہیرو پنتی کا شوق چین نہیں لینے دیتا۔ ایک فریق کے ہیرو کو دوسرا فریق گالیاں دیتا ہے۔
اسلام آباد میں بدھ کی شام کچھ توڑپھوڑ ہوئی درخت وغیرہ پٹرول پھینک کر جلائے گئے، ذمہ دار کون ہے۔ محفوظ راستہ اور فیس سیونگ کرنے والے؟ لانگ مارچ کے منتظمین یا بپھرے ہوئے کارکن جو قیادت کے بغیر تھے۔
بدھ کو صوابی انٹر چینج سے شروع ہوا لانگ مارچ دھرنے میں تبدیل ہوئے بغیر جناح ایونیو پر تمام ہوا۔ دو مطالبات جن کا جواب لے کر اٹھنا تھا انہیں تسلیم کرنے کے لئے 6دن کا وقت کیوں دیا گیا۔ کیا سوموار کو شہباز شریف، راجہ پرویز اشرف اور ایاز صادق کے علاوہ بھی ’’کسی‘‘ سے فون پر بات ہوئی تھی؟ ایک ملاقات کا بھی دبا دبا چرچا ہے۔ یہ فقط سرگوشیوں تک محدود ہے اس لئے اس پر کیا بات کریں۔
ویسے لاکھ اختلاف کیجئے سچ یہی ہے کہ تحریک انصاف کے مقابلے میں حکومت کی حکمت عملی کامیاب رہی مگر اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ لانگ مارچ میں ملتان کے کامیاب جلسہ سے نصف لوگ بھی نہ آئے کیوں؟ ہلکی ہلکی ہوائوں اور بہتر موسم کے ساتھ رات کے جلسوں اور دن میں احتجاج دونوں میں فرق ہے۔ فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ
’’25مئی کا لانگ مارچ اصل میں پریکٹس میچ تھا، خان نے اپنے کھلاڑیوں کے دم خم کا امتحان لیا، مایوس ہوکر ٹیسٹ میچ کھیلنے کی بجائے بنی گالہ روانہ ہوگیا‘‘۔
چلتے چلتے فقط یہی عرض کرسکتا ہوں کہ تحریک انصاف اپنے دعوئوں کے مطابق 25مئی کے لانگ مارچ سے وہ سب کچھ حاصل نہیں کرپائی جس کے لئے سوچا جارہا تھا کہ ’’وہ سب‘‘ انہیں پلیٹ میں رکھ کر پیش کیا جائے گا اس لئے 6دن بعد اگر عمران خان پھر گھر سے نکلتے ہیں تو کیا کارکنوں کا جوش و خروش 25مئی والا ہوگا؟
۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ