حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سمجھنے والی بات فقط یہ ہے کہ یہاں فرشتہ کوئی نہیں۔ لیڈر، جج، جرنیل، مولوی سبھی انسان ہیں خوبیوں اور خامیوں سے عبارت ہم میں سے ہر شخص کو اپنی پسند کے کردار میں فقط خوبیاں ہی دیکھائی دیتی ہیں۔
پسندیدگی بُری چیز ہرگز نہیں لیکن آدمی دیوتا نہیں ہوتا۔ اچھا ویسے یہ لیڈران کرام مولوی صاحبان اور دوسرے ’’بڑوں‘‘ نے کبھی اپنے سماجی مراسم برباد کئے؟ جی نہیں۔ پھر ہم اور آپ ان کی خاطر اپنے سماجی مراسم برباد کیوں کرتے ہیں؟
اس سوال پر ٹھنڈے دل سے غور کیجئے، تسلی بخش جواب ہی آپ کی درست سمت رہنمائی کرے گا۔
پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے سوشل میڈیا پر دو موضوعات کا قبضہ ہے ایک سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کا، دوسرا بلاول بھٹو کا امریکہ میں ایک صحافی کے سوال پر یہ کہنا کہ ’’عمران خان نے پاکستانی ریاست کی خارجہ پالیسی کے مطابق ہی روس کا دورہ کیا تھا انہیں نہیں معلوم تھا کہ روس یوکرائن پر حملہ کرنے والا ہے۔ میں سابق وزیراعظم کے دورہ روس کا دفاع کروں گا‘‘۔
بلاول بھٹو کی جگہ عمران خان ہوتے تو کیا کہتے۔ وہی جو عموماً کہتے ہیں۔ مزاج، تربیت، ماحول اور فہم۔ آدمی جب کلام کرتاہے تو اس کی شخصیت کھلتی ہے۔
سیکھنے کا عمل آخری سانس تک جاری رہتا ہے۔ سب ملعون ہیں، میں ہی درست ہوں وہ بکواس کرتا ہے۔ یہ تینوں رویے تکبر سے جنم لیتے ہیں۔
خیر بلاول نے اچھا جواب دیا اسے یہی کہنا چاہیے تھا کیونکہ وہ پاکستان کے وزیر خارجہ ہیں۔ داخلی سیاست کے گندے کپڑے دوسرے ملکوں کے چوراہوں پر وہی دھونے بیٹھ جاتے ہیں جنہیں ککھ پتہ نہیں ہوتا سیاست اور سیاسی روایات کا۔
ہم انتہائوں میں تقسیم شدہ معاشرے میں جینے بسنے پر مجبور ہیں۔ باردیگر عرض ہے "مجبور محض ہیں”، سو اس تقسیم شدہ معاشرے کے ہر شخص کے کاندھے پر اپنی صلیب ہے
فقیر راحموں کے بقول "اور بغل میں اپنا مرغا‘‘۔
ان سطور میں ایک سے زائد بار عرض کرچکا کہ ہم نفرت پر ہوئے بٹوارے کے وارث ہیں اس لئے تندبیانی، بدزبانی اور اوئے توئے ہی مرغوب ہیں۔ رہی سہی کسر ہمارے نصاب تعلیم نے پوری کردی جس میں انسان سازی کا ایک سبق بھی نہیں۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ کبھی صدیوں قبل جب ’’درس نظامی‘‘ ترتیب دیا گیا تھا تو اس کا مقصد دفتری ضروریات پوری کرنے والے اہلکار تیار کرنا تھا پھر پتہ نہیں کب اس سے مذہبی مستری بنانے کا کام لیا جانے لگا "۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارے نصاب تعلیم کا ہے۔ تحقیق و جستجو کی لگن پروان چڑھانے کی بجائے۔ یہ بس پڑھ لکھ کر اچھی سی سرکاری نوکری، ایک گھر ایک گاڑی، تابعدار قسم کی مالدار اہلیہ۔ یہی تین خواب اس نظام تعلیم کی دین ہیں۔ بھیڑچال ایسی ہے کہ رہے نامِ خدا
ارے ہاں وہ ازخود نوٹس والی بات تو بیچ میں ہی رہ گئی۔ ازخود نوٹس کے ریکارڈ میں سوشل میڈیا سے لیا گیا مواد 60فیصد ے اور اخبارات کی خبریں 30فیصد ہیں باقی دس فیصد کیا ہے اسے جانے دیجئے۔
ویسے جس سوشل میڈیائی مواد کو ازخود نوٹس لینے کے قابل سمجھ لیا گیا اسی سوشل میڈیا پر کچھ جزیروں کے خریداروں اور 20ویں 21ویں گریڈ کے سرکاری ملازموں کے ارب و کھرب پتی ہونے کی کہانیاں بھی دوڑ بھاگ رہی ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ویسے سچ ہے تو سب سچ جھوٹ ہے تو تمام جھوٹ۔ خورشید شاہ درست کہتے ہیں، "جسے شوق حکمرانی ہے آئے اور حکومت سنبھال لے”۔
درست بھی یہی ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی حکومت چل سکتی ہے۔ حکومت کرنا جن کا کام ہے انہیں کرنے دیجئے یا پھر آگے بڑھ کر عنان اقتدار سنبھال لیجئے تاکہ پتہ چلے کہ کتنے بیس میں پورا سو ہوتا ہے۔
مطلب یہ کہ ایک ویب ٹی وی (باغی ٹی وی) کہے گا فلاں افسر قتل ہوا ہے آپ مان لیں گے۔ کیا بات ہے۔ بس کمال ہی ہے۔
یہ ویسا ہے بلنڈر ہے جیسا ماڈل گرل ایان علی کے معاملے میں ہوا تھا اس پر مقدمہ کے دنوں میں ایف آئی اے کا ایک انسپکٹر جس کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا سوشل میڈیا نے اس کے قتل کا رشتہ ایان علی کے کیس سے جوڑدیا آج بھی کچھ عقل سے پیدل لوگ اسے سچ سمجھتے ہیں حالانکہ اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا وضاحتی بیان موجود ہے۔
پرسوں سے اگلے دن ہمارے نئے نویلے امریکہ دشمن لیڈر کو بھی ایان علی کیس یاد آیا۔ موصوف نے وہی قتل والا قصہ چھیڑدیا۔ اس پر انہیں جو جواب ملا اگر کسی نے پڑھ کر سنادیا ہو تو برسوں یاد رکھیں گے حضرت۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس معاملے بارے درست علم نہ ہو اس میں "حصہ” ڈالنے سے گریز لازم ہے۔ ہمارے بہت سارے دوست کہتے ہیں لطیف کھوسہ نے ایان علی کا کیس کیوں لڑا۔ یہی تو ثبوت ہے اس کے زرداری سے تعلق کا۔
اچھا اگر وہ مقدمہ ایس ایم ظفر کا بیٹا لڑتا تو پھر عمران خان سے تعلق ہوتااور اگر مولوی اقبال حیدر کیس لڑتا تو تعلق کس سے ہوتا؟
ارے بھیا وکیل اور مولوی اچھی فیس پر مقدمہ اور جلسہ لیتے ہیں۔
خیر چھوڑیں یہ ہم بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے۔ آج کل ہمارے انصافی بہن بھائیوں اور بھانجوں بھتیجوں کو مہنگائی اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ لوڈشیڈنگ چین نہیں لینے دیتی۔ ہمیں وہ عزیز یاد آرہے ہیں جو تحریک انصاف کے جلسوں میں پلے کارڈ لے کر گھومتے تھے پٹرول بھلے پانچ سو روپے لٹر ہوجائے خان صاحب ’’ان‘‘ کو چھوڑنا نہیں ہے۔
کڑوا سچ یہ ہے کہ مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں عمران خان کی حکومت بھی ناکام رہی اور یہ پانچ ہفتوں والی حکومت بھی۔ البتہ دونوں کو برابر کا قصوروار قرار دینا غلط ہوگا۔
ڈالر نے ڈبل سنچری مارلی۔ مجھے یہ تناسب نہیں نکالنے کہ پچھلے تین سال سات ماہ اور بائیس دن میں ڈالر کی قیمت کنی بڑھی۔ ہاں یہ یاد ہے کہ اس وقت کے وزیراعظم نے کہا تھا ’’ڈالر کی قیمت میں اضافے کا مجھے ٹی وی سے پتہ چلا‘‘۔
آجکل الیکٹرانک میڈیا کے کچھ نابغے فوری الیکشن کے لئے زمین آسمان ایک کررہے ہیں۔ فقیر راحموں کہتے ہیں کہ حکومت ہی ان نابغوں کے حوالے کردی جانی چاہیے تاکہ انہیں بھی دال تیل کے نرخ پتہ چلیں۔
لال حویلی والے شیخ رشید بتاتے پھرتے ہیں نگران سیٹ اپ کے لئے ’’کہیں‘‘ انٹرویو ہورہے ہیں، ہورہے ہوں گے ویسے دستور میں کہیں نگران سیٹ اپ لکھا ہوا تو نہیں ہے۔ ماضی میں اگر غیردستوری کام ہوتے رہے ہیں تو ضروی نہیں کہ اب بھی ہوں یا کئے جائیں۔
پچھلی نگران حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو زرمبادلہ کے ذخائر 16ارب ڈالر سے زائد کے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت بنی کہاگیا زرمبادلہ میں 10ارب ڈالر ’’پڑے‘‘ ہیں۔ چیخ چیخ کر مرگئے پوچھیں نگرانوں سے 6ارب ڈالر کہاں گئے؟ کسی نے نہیں پوچھا جبکہ اس نگران حکومت نے بعض معاملات میں حدود سے بھی تجاوز کیا تھا
بات صرف اتنی ہے کہ غیردستوری نگران بندوبست صریحاً غلط تھا اب بھی غلط ہوگا اور جب کبھی ہوگا تو غلط ہی ہوگا۔
آئینی مدت کے خاتمے پر حکومت ہی عبوری حکومت ہوتی ہے ساری دنیا میں وہی الیکشن کراتی ہے ہم کوئی آسمان سے اترے ہیں یہاں حکومت ہی الیکشن کیوں نہیں کراسکتی۔ اصل بات احساس ذمہ داری، قانون کی بالادستی اور دستوری تقاضے پورے کرنا ہے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابات کروانے ہوتے ہیں۔ عبوری مدت میں بہت سارے اختیارات الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجاتے ہیں۔ عبوری حکومت نے روزمرہ کے امور انجام دینے ہوتے ہیں۔ یہ امور نگرانوں سے زیادہ بہتر حکومت میں موجود لوگ سرانجام دے سکتے ہیں۔ پھر کھیچل کی ضرورت کیا ہے؟
حرف آخر یہ ہے کہ ہمارے یہاں فرد ہو،محکمہ، ادارہ یا ریاست، سبھی کو اپنی اپنی حد میں رہ کر فرائض ادا کرنے چاہئیں۔ مجھ سا قلم مزدور جج نہیں لگ سکتا۔ جج صاحب کور کمانڈر نہیں بن سکتے۔ خراد مشین پر کام کرنے والا مستری، ابلاغیات کا پروفیسر نہیں بن سکتا۔ ہماری گلی کی مسجد کے پیش نماز (امام صاحب) ٹریفک کنٹرول نہیں کرسکتے۔
اسی طرح نان چھولے فروخت کرنے والا سروسز ہسپتال کا سربراہ نہیں لگ سکتا۔ یہی تلخ حقیقت ہے تو سب اپنے اپنے فرائض پر توجہ کیوں نہیں دیتے؟
جس دن ہم (ہم سبھی) نے اس سوال کا جواب تلاش کرلیا سب ٹھیک ہوجائے گا۔
۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ