نور الہدیٰ شاہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج صبح صبح نجانے کیوں ایک یاد ذہن کے کینوس پر اپنا سیاہ و سفید رنگ چھوڑ گئی۔
اپنا پہلا اردو سیریل جنگل میں نے ضیاء کے سفاک دورِ عروج میں لکھا۔ میری عمر اس وقت 26 سال تھی۔
ایک دن پی ٹی وی کراچی سینٹر سے کال آئی کہ اسلام آباد سے پی ٹی وی کے بڑے صاحب آئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ جی ایم کراچی سخت پریشان تھے کہ آپ کو آنا ہوگا، میری نوکری کا سوال ہے۔ میں حیدرآباد سے سیدھی کراچی سینٹر پہنچی۔ جی ایم کے کمرے میں بڑے صاحب سے ملاقات ہوئی۔ جی ایم کراچی سینٹر کے آفس میں وہ صوفے آج بھی اسی ترتیب سے رکھے ہیں جن پر بیٹھ کر ہم نے میٹنگ کی تھی۔ میٹنگ شروع ہوئی۔ بڑے صاحب نے ایک سوال پوچھا اور وہی سوال پوچھنے وہ اسلام آباد سے آئے تھے۔
سوال تھا کہ جنگل کی فلاں قسط میں ایک ڈائیلاگ آن ائر چلا گیا ہے کہ دو شیر ایک گھاٹ سے پانی نہیں پی سکتے۔ جبکہ اصل میں کہا جاتا ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی نہیں پی سکتے۔ آپ نے دو شیر کیوں لکھا ہے؟
میں حیرت سے پی ٹی وی کے بڑے صاحب کو دیکھ رہی تھی کہ یہ سوال پوچھنے کے لیے یہ اسلام آباد سے چلے ہیں۔
کمرے میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ جی ایم صاحب سانس روکے بیٹھے تھے۔ سوال پھر دہرایا گیا۔ میں نے کہا کہ شیر اور بکری والا معاملہ کہاوت ہے۔ میں نے جو ایک ہی گھاٹ پر دو شیر لکھے ہیں وہ کہانی کی مناسبت سے ڈائیلاگ ہے۔
بڑے صاحب جوں کے توں مجھ پر نظریں جمائے بیٹھے رہے۔ پوچھا، مگر اس ڈائیلاگ کا مطلب کیا ہے؟
میں نے سوچ سوچ کر مطلب نکالا اور ٹھہر ٹھہر کر بتایا کہ اس کا مطلب ہے کہ دو طاقت ور ایک گھاٹ سے پانی نہیں پی سکتے۔
بڑے صاحب نے ایکدم سے جیسے میری چوری پکڑ لی۔ بولے، یہی تو میں جاننا چاہتا ہوں کہ دو طاقت ور کون؟
میں نے جواب میں کہانی کے دو طاقت ور کرداروں کے نام لے دیے۔ بڑے صاحب مطمئن نہیں ہوئے اور انکار میں سر ہلا دیا۔ کہا، نہیں اصل مقصد بتائیے۔ میں دل ہی دل میں ابھی اصل مقصد تلاش کر ہی رہی تھی کہ خود ہی بولے کہ ایک شیر تو جنرل ضیاء الحق صاحب ہیں۔ دوسرا شیر کون ہے؟
میں اس حملے کے لیے تیار نہیں تھی۔ بے اختیار میرے منہ سے نکل گیا کہ ’جنرل ضیاء شیر ہیں کیا؟‘
اب کمرے میں موت جیسا سناٹا چھا چکا تھا۔ بڑے صاحب نے جی ایم کی طرف گردن موڑ کر سخت سی آواز میں کہا۔ سنا آپ نے؟ میں نے کہا تھا نا آپ کو؟
اس کے بعد کا معاملہ جی ایم کو یہ کہہ کر سنبھالنا پڑا کہ سر بچی ہیں یہ ابھی۔ انہیں اندازہ نہیں ہے اس بات کا۔ مگر مجھے اندازہ ہو گیا تھا بات کا۔ میں نے ایک دم سے احتجاج ڈال دیا۔ بڑے صاحب کو کہا کہ ایک تو میں بچی نہیں ہوں۔ دوسرے یہ کہ جب مجھے بھٹو کو شیر لکھنا ہوگا تو میں کئی اور طریقوں سے لکھ سکتی ہوں۔ کیونکہ میں محض ڈرامہ نگار نہیں ہوں۔ سندھی کی کہانی کار بھی ہوں۔ میں ایک نیگیٹوِ کردار کو بھٹو سے تشبیہ دے ہی نہیں سکتی اور ضیاء کو میں شیر سمجھتی ہی نہیں۔
کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر مجھے میٹنگ سے مائنس کر دیا گیا۔
بعد میں میں نے جی ایم کراچی سینٹر عبدالکریم بلوچ صاحب سے پوچھا کہ مگر ایسا کیوں سمجھا گیا؟
وہ ایک اداس سی مسکراہٹ مسکرائے۔ بولے، بی بی اس لیے کہ میں سندھی ہوں۔ آپ سندھی ہیں۔ ڈرامہ کا ڈائریکٹر بھی سندھی ہے۔ ہم پر برا وقت آیا ہوا ہے۔
پھر میرے سر پر ہاتھ رکھا۔ بولے۔ آمریت میں ادیب پر ایسا وقت آتا ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر