نومبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

امریکی "سازش” اور چینی کمپنیوں کی ناراضگی||حیدر جاوید سید

یونیورسٹی حکام نے اہلیہ کے معاملے میں شہباز گل پر یونیورسٹی کو دبائو میں لانے کا الزام بھی لگایا ہے۔ شہباز گل خود بھی امریکی گرین کارڈ ہولڈر ہیں۔ بہاولپور اور اسلام آباد کی یونیورسٹی سے کیوں نکالے گئے وہ "داستانیں ” ہمارا موضوع نہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لیجئے جناب عمران خان کے چیف آف سٹاف ڈاکٹر شہباز گل کی اہلیہ گیارہ برس قبل سرکاری خرچہ پر ’’کامسیٹس یونیورسٹی‘‘کی طرف سے پی ایچ ڈی کرنے امریکہ گئی تھیں اور واپس نہیں آئیں۔ انہیں سرکاری فنڈ سے 99ہزارڈالر اور 85ہزار روپے کی رقم ادا کی گئی تھی۔

یونیورسٹی سے معاہدہ کے مطابق 2016ء میں انہیں اپنی ڈگری مکمل کرکے وطن واپس آکر یونیورسٹی میں پڑھانا تھا مگر وہ گیارہ برس گزرجانے پر بھی امریکہ سے نہیں لوٹیں۔

یونیورسٹی نے محترمہ اعزا اسد رسول کو ایک کروڑ 86لاکھ روپے کا نادہندہ قرار دیا اس میں 25فیصد جرمانے کی رقم بھی معاہدہ کے مطابق شامل ہے۔

یونیورسٹی حکام نے اہلیہ کے معاملے میں شہباز گل پر یونیورسٹی کو دبائو میں لانے کا الزام بھی لگایا ہے۔ شہباز گل خود بھی امریکی گرین کارڈ ہولڈر ہیں۔ بہاولپور اور اسلام آباد کی یونیورسٹی سے کیوں نکالے گئے وہ "داستانیں ” ہمارا موضوع نہیں۔

تحریک انصاف کے برسراقتدار آنے کےبعد انہیں پہلے پنجاب حکومت کا ترجمان مقرر کیاگیا۔ پنجاب میں اپنی تعیناتی کے دوران وہ ’’اصلی‘‘ وزیراعلیٰ کہلاتے تھے ان دنوں ان پر کچھ سنگین الزامات بھی لگے پھر پنجاب سے رخصت کردیئے گئے۔ اسلام آباد پہنچ کر نعیم الحق مرحوم کے کمرے میں ڈیرہ ڈالا اب خیر سے اسی شہر میں بہترین قیام گاہ کے مالک ہیں۔

یقیناً یہ قیام گاہ وغیرہ بالائی آمدنی کی بجائے امریکی کمائی سے خریدی گئی ہوں گی۔

ہمزاد فقیر راحموں کہتے ہیں شہباز گل کی اہلیہ کا پی ایچ ڈی کرکے وطن آنے کی بجائے امریکہ میں ہی قیام پذیر ہوجانا عالمی سازش کا حصہ نہیں بلکہ وہ عالمی سازش کو ناکام بنانے کے لئے امریکہ میں مقیم ہیں۔

ڈاکدار شہباز گل اٹھتے بیٹھتے ایمانداری کے لیکچروں سمیت بہت کچھ کہتے ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کے رہنما ہیں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں ویسے بھی سارے ’’ایماندار اور محب وطن‘‘ اسی جماعت میں شامل ہیں باقیوں کے بارے میں اس جماعت کے مالک اور دوسروں کی آراء کسی سے ڈھکی چھپی ہرگز نہیں۔

مندرجہ بالا تفصیلات پڑھتے وقت جو پہلی بات ذہن میں آئی وہ تھی ’’میری بُکل دے وچ چور نی‘‘ مگر خیر رہنے دیجئے مبلغ ایک کروڑ 86لاکھ روپے کی خاطر کسی معزز خاتون کو چور یا مطلوبِ یونیورسٹی کہنا اچھا تو نہیں لگتا

عمران خان اپنے چیف آف سٹاف کی ناموس کے لئے صرف دو دستخط شدہ کرکٹ بیٹ فروخت کردیں تو شہباز گل 2کروڑ کی رقم یونیورسٹی کے منہ پر دے ماریں گے۔ ’’ذاتیٔ‘‘ طور پر ہماری رائے یہ ہے کہ صرف دو کروڑ کی کرپشن اور بے اصولی کو اس لئے اچھالا گیا ہے کہ اربوں کی کرپشن کی طرف لوگوں کی توجہ نہ جائے۔

مجھے چونکہ گزشتہ شام فقیر راحموں نے سمجھادیا ہے کہ کرپٹ بھی اپنے اپنے اس لئے اب ہم صرف اپنے کرپٹ لوگوں کا دفاع اور دوسروں کے کرپٹوں کا سوا ستیاناس مارا کریں گے۔

معاف کیجئے گا یہ شہباز گل کی اہلیہ متحرمہ والا واقعہ کچھ طویل ہوگیا ویسے پی ایچ ڈی کے لئے بیرون ملک جانے اور جاکر نہ آنے والے مردوزن کی تعداد تقریباً 500 کے لگ بھگ ہے ان میں سے جن چند خواتین و حضرات سے فقیر راحموں کے توسط سے شناسائی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تحریک انصاف کے حامی ہیں اور اپنے اپنے نئے وطنوں میں پرانے وطن کو ڈاکوئوں چوروں غداروں میر جعفروں و میر صادقوں سے بچانے کے لئے اکثر وقت نکال کر مظاہروں میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی حب الوطنی، نیک نیتی اور عمران خان کی پیروی کو قبول و منظور فرمائے آمین۔

کالم کے دوسرے حصے میں پاکستان سے چینی کمپنیوں کے تنازع پر بات کرلیتے ہیں۔

اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان میں کام کرنے والی 2درجن کے قریب چینی کمپنیوں نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ اگر ان کے 3کھرب روپے سے زائد کے واجبات کی ادائیگی نہ کی گئی تو وہ رواں ماہ کے دوران اپنے پراجیکٹس پر کام بند کردیں گی۔

ان کمپنیوں میں توانائی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ نیپرا کی جانب سے ان پر گرمیوں میں پیداوار بڑھانے کے لئے شدید دبائو ہے مگر ہمارے بقایا جات نہیں دیئے جارہے جس سے ایندھن کے دستیاب (موجود) ذخائر اگلے چند دنوں میں ختم ہوجائیں گے۔

ان میں سے بعض کمپنیوں کا کہنا ہے کہ حکام نے ان پر ایسے وقت میں زیادہ شرحوں پر ٹیکس لگانا شروع کردیا ہے جب پہلے سے فراہم کردہ بجلی کی ادائیگیاں نہیں ہورہیں جس سے وہ مالی مسائل کا شکار ہیں۔

چینی کمپنیاں کہتی ہیں کہ ادائیگیوں کے لئے آئی پی پیز ریوالونگ فنڈ کے کنٹریکٹ کے تقاضوں پر عمل ہوا نہ سابق وزیراعظم عمران خان کے دورہ چین کے دوران چینی حکومت سے اس معاملے کے حوالے سے کئے گئے وعدوں پر عمل ہوپایا۔

چینی کمپنیاں قابل تجدید توانائی پالیسی کے آئندہ مسودے پر بھی تشویش ظاہر کررہی ہیں۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس حوالے سے گزشتہ دنوں ہونے والے ایک اجلاس میں نیپرا کے سربراہ نے چینی پاور کمپنیوں پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے معاملات کو درست کریں ہر مسئلہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے کی بجائے معاہدوں پر عمل کو ضروری سمجھیں۔

نیپرا کے سربراہ نے اجلاس میں یہ بھی کہا تھا کہ اس حوالے سے چینی کمپنیوں کو جو خطوط لکھے گئے، طویل عرصہ گزرجانے کے بعد بھی ان کی طرف سے جواب نہیں آیا۔

چینی کمپنیوں اور نیپرا کے اس تنازع میں دونوں فریق اپنا اپنا موقف رکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ واجبات کی رقم سے نیپرا بھی انکاری نہیں۔

جن امور پر تنازعات ہیں وہ پچھلے ساڑھے تین برسوں میں طے کیوں نہ ہوپائے یہ اہم سوال ہے کیونکہ چینی پاور کمپنیوں اور مقامی حکام کے درمیان پہلا تنازع اپریل 2019ء میں پیدا ہوا تھا۔ اصولی طور پر ممالک کے درمیان ہوئے معاہدہ جات پر مقامی سیاست کے بھونڈے اختلافات کی گرد نہیں پڑنی چاہیے لیکن بدقسمتی سے ہمارے یہاں ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ ایک حکومت کسی بھی شعبہ کے حوالے سے غیرملکی کمپنیوں اور ممالک سے معاہدے کرتی ہے دوسری حکومت ان معاہدوں میں سے کیڑے نکال لگتی ہے۔

توانائی کا شعبہ تو پچھلے 20برسوں سے ان تماشوں میں نمبرون ہے۔ ہر حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ سابق حکومت نے زائد نرخوں پر معاہدے کئے خوب دھول اڑائی جاتی ہے پھر ماضی کے مقابلہ میں زائد نرخ پر معاہدے بھی ہوجاتے ہیں۔

آپ (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کے ادوار میں گیس سے متعلق معاہدوں کو اٹھاکر دیکھ لیجئے۔

بہرطور یہ حقیقت ہے کہ چینی پاور کمپنیوں اور مقامی حکام کے درمیان معاملات سدھرنے میں نہیں آرہے۔ ان کمپنیوں نے ستمبر 2021ء میں چینی وزارت خارجہ کو مدد کے لئے خط بھی لکھا تھا جس پر دونوں ممالک کے درمیان وزارت خارجہ کی سطح پر اس معاملے پر تبادلہ خیال بھی ہوا لیکن بات آگے اس لئے نہ بڑھ پائی کہ چینی حکام داسو ڈیم سانحہ اور چند دوسرے معاملات پر برہم تھے۔

برہمی کی ایک وجہ سابق جنرل عاصم سلیم باجوہ کو ماضی میں سی پیک کا سربراہ لگایا جانا بھی تھا۔ مواصلات کے وفاقی وزیر مراد سعید کے معاملے میں چینی حکام کی رائے کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن چونکہ وہ اس وقت کے وزیراعظم کے قریبی افراد میں شمار ہوتے تھے ان کا کچھ نہیں گیا

البتہ ایک وقت آیا جب عاصم باجوہ کو سی پیک اتھارٹی کی سربراہی سے الگ کردیا گیا۔

ان موصوف بارے چینی حکام کو مطمئن کرنے کے لئے جنرل قمرجاوید باجوہ کو خود چین کے دورے پر جانا پڑا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ گزشتہ ساڑھے تین برسوں کے دوران پاک چین تعلقات میں اعتماد سازی کی وہ صورت بہرطور نہیں رہی جو ماضی میں ہوا کرتی تھی۔

چین جیسے دوست ملک کو کیوں ناراض کیا گیا، اس کا جواب تو عمران خان کو دینا چاہیے جو آجکل امریکی بالادستی کے بڑے ناقد بنے امریکہ پر الزام لگاتے پھرتے ہیں کہ اس نے ان کی حکومت مقامی میر جعفر و میر صادق اور اپوزیشن کے ذریعے گروائی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author