دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نئی تاریخ اور نیا جغرافیہ||حیدر جاوید سید

تلخ نوائی پر معذرت یہ فصل آپ کی بوئی ہوئی ہے۔ آپ نے گالی دلوائی ہر شخص کو۔ کسی دن ہمت کیجئے اور لوگوں کو بتایئے کہ 1988ء کے عام انتخابات سے قبل اسلامی جمہوری اتحاد کے میڈیا سیل میں چند اسلام پسند صحافیوں کے ساتھ کون کون تشریف فرما ہوتا تھا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملاتے ہوئے خان نے جس جغرافیائی مہارت کا مظاہرہ کیا تھا اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ اسی طرح تاریخ کے معاملے میں بھی ان کے ساتھ ان مشیروں کا ہاتھ تنگ ہے جنہوں نے انہیں یہ بتایا کہ نواب سراج الدولہ مغلوں کا گورنر تھا۔

اقتدار کے دنوں میں فرماتےتھے میں قوم بنانے آیا ہوں آلو پیاز ٹماٹر اور انڈوں کی قیمت یاد کرنے اور بتانے نہیں۔اب کہہ رہے ہیں کہاں ہیں وہ میڈیا والے جو پہلے صبح شام مہنگائی مہنگائی کا شور مچاتے تھے اب کیوں نہیں بولتے۔

اپنے دور اقتدار میں ایک سے زائد بار وہ میڈیا پر الزام لگاچکے ہیں کہ وہ پیسے لے کر ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ آپ وزیراعظم تھے بناتے ایک کمیشن کراتے تحقیقات کس نے روکا تھا۔ عامر کیانی نے فرح خان نے، مراد سعید یا عثمان بزدار نے؟

یہ بھی کہہ رہے ہیں سازش ہوئی میڈیا بھی اس میں شریک تھا۔ الزام لگانے کا کیا ہے۔

فقیر راحموں مجھے پچھلے کئی سال سے بتارہا ہے کہ "خان کی سیاست کے پیچھے ایم آئی سکیس اور موساد ہیں”۔ وہ تو ہم یقین نہیں کررہے۔

تحریک عدم اعتماد سے قبل جو شخص جناب خالد بن ولیدؓ جیسا کردار رکھتا تھا اب اسے کمانڈر انچیف میر جعفر بتارہے ہیں۔ اوئے توئے، چور ڈاکو لٹیرے ملک دشمن۔ تمہیں الٹا اور تمہیں پھانسی پر لٹکادوں گااس کے علاوہ انہیں اور آتا کیا ہے ،

خطرناک نامی پنجابی فلم بھی 1970ء کی دہائی میں گولڈن جوبلی کرگئی تھی۔ خان کی سیاست سلور جوبلی سے آگے بڑھ گئی لیکن سیاست نہیں آئی۔ ان کا زعم یہ ہے کہ وہ واحد اور فقط واحد دستیاب ایماندار لیڈر ہیں باقی سارے چور اچکے۔ یہی باتیں ان کے ہمنوائوں کو پسند ہیں۔

آزاد صحافیوں (ویسے ان کا خیال ہے جو صحافی ان کاحامی نہیں وہ دشمن کا ایجنٹ ہے) سے چند منٹ سنجیدہ گفتگو ان کے بس کی بات کبھی نہیں رہی شوبز، کھیل اور دوسرے شعبوں کی سیلبرٹیز کی "سب سے بڑی خوبی خودپسندی اور خامی چاپلوسی ہوتی ہے”۔

ویسے وہ اب بھی حکومت میں ہیں سوشل میڈیا کی مختلف سائٹس پر تو انہیں دو تہائی اکثریت حاصل ہے بالکل ایسے جیسے ساڑھے تین سو ڈیم بن گئے تھے خیبر پختونخوامیں اور ایک ارب درخت لگ گئے تھے۔

کہتے ہیں ہم نے گیارہ ماہ میں میٹرو پراجیکٹس مکمل کئے۔ کون سا؟ اور وہ پشاور میٹرو والا پراجیکٹ کتنے میں پڑا کتنے عرصے میں بنا؟

تمہید طویل ہوگئی یہ سب لکھنے کی ضرورت نہیں تھی مگر کیا کیجئے ہر طرف موضوع بلکہ موضوعات یہی ہیں۔ کیا وہ اپنی پیدا کردہ سماجی تقسیم کو اس حد تک لے جانے کے خواہش مند ہیں جہاں ان کی بات سے انکار اور اختلاف کفر ٹھہرے؟

کم از کم میرا جواب اثبات میں ہے۔ مثلاً فرمارہے ہیں الیکشن کرائو مجھے دو تہائی اکثریت نہ ملی تو پھر الیکشن کرائو۔ الیکشن نہ ہوئے گڈی گڈے کا کھیل ہوگیا۔

پالنے والوں کا یہ انوکھا لاڈلہ دو تہائی اکثریت کا چاند مانگتا ہے دیجئے۔ لیکن کون دے گا یہ سوال ہے۔ ہم اس سوال میں سر کیوں کھپائیں۔

’’انہیں‘‘ زعم تھا کہ وہ نظریاتی پیشوا، محافظ دو قومی نظریہ، عظیم رہبر، قوم ساز، دانا و حکیم ، سائنسدان، نیلے آسمان کے نیچے سب سے اچھے بندوبست گان اور وہ سب کچھ ہیں جو "عمران سیریز کے علی عمران میں جمع ہے”۔

ہم تو لگ بھگ نصف صدی سے یہ عرض کرتے آرہے تھے کہ حضور اس ملک میں ایک عدد دستور بھی ہے۔ اس دستور میں فرد اور ریاست، محکموں اور ا داروں پارلیمان اور عدلیہ و انتظامیہ سب کا کردار لکھا ہے۔ حدود طے ہیں فرائض بھی بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حدود و فرائض پر توجہ دی جائے۔ کسی نے نہیں سنی۔

بس تجربے ہوئے۔ اس ملک کو بائیس کروڑ لوگوں کا ملک سمجھنے کی بجائے لیبارٹری سمجھ لیا گیا۔ نصف صدی کے سارے تجربات کے نتائج صاف سامنے دیوار پر لکھے ہیں۔ ایک تجربہ بتادیجئے جو کامیاب ہوا ہو۔

سارے الٹ پلٹ کر گلے پڑے۔ سائنسدانوں کا نقصان کم ہوا لیبارٹری سے باہر والوں کا زیادہ، نقصان کا حساب بھی ہے۔ کتنے لوگ فرقہ واریت میں مرے، کتنے افغان جہاد، کتنے اس لشکر کشی سے جو قاسم شاہ کی قیادت میں گلگت بلتستان پر کی گئی تھی۔

پارا چنار والوں پر کیا بیتی کتنے مرے۔ انسداد دہشت گردی کی جنگ کی بلی تو 80ہزار چڑھے بھی۔ کراچی میں کیا ہوا۔ جو بلوچستان میں جو ہورہا ہے وہ کیا ہے۔ اور اب یہ حالیہ تجربہ ماضی کے سارے تجربوں پر بھاری پڑتا دیکھائی دے رہا ہے۔

عجیب بات ہے نا دنیا کا ہر سائنسدان اپنی تحقیق کے مثبت اور منفی دونوں پہلو سامنے رکھتا ہے ہمارے سائنسدانوں نے مثبت و منفی پہلو سامنے رکھنے کی بجائے فقط اپنے مفادات کو مدنظر رکھا۔ اب بھگتیئے۔ شکوہ اور رونا کس بات کا، یہ پنیری آپ نے ہی لگائی تھی فصل کاٹئے۔

اس ملک کے لوگوں کا کیا قصور ہے یہ ساری ریاست عوام کے خون پسینے کی کمائی سے چلتی ہے۔ دو روز ادھر ایک سابق عسکری نابغے سمجھارہے تھے ’’ہم ٹیکس گزار ہیں ہمیں بات کرنے کا حق ہے”۔

عرض کیا جس کمائی پر ٹیکس دیتے ہو وہ ہمارے خون پسینے کی ہے ماچس سے خوردنی تیل اور بجلی سے پینے کے پانی کے بل تک ہر چیز پر ٹیکس دیتے ہیں ہم۔ ہم یعنی اس ملک کے اصل مالک۔ ناراض ہوگئے جواب سن کر ہونا نہیں چاہیے تھا بھلا اس میں ناراضگی کی بات کیا ہے۔

آئی ایس پی آر کے سربراہ نے گزشتہ روز بعض لوگوں کے نامناسب بیانات پر شکوہ کیا۔

حضور ہم نے تو دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات سے قبل کی ایک ملاقات میں آپ کے بھائی بندوں کی خدمت میں یہ عرض کردیا تھا کہ "جن گالیوں پر آج تالیاں پیٹی جارہی ہیں ان کا رخ بدلے گا تو پشیمانی ہوگی”۔

بھلا کانٹے بوکر بھی گلاب اگے کبھی؟ کیا آپ نہیں جانتے کہ جن صحافیوں کی زبان آج قابو میں نہیں انہیں دستور پسندوں پر کس نے "چھوڑا” تھا اور ان میں سے کس کا داعش سے کیا رشتہ تھا اور کس کا طالبان سے کیا رشتہ؟

تلخ نوائی پر معذرت یہ فصل آپ کی بوئی ہوئی ہے۔ آپ نے گالی دلوائی ہر شخص کو۔ کسی دن ہمت کیجئے اور لوگوں کو بتایئے کہ 1988ء کے عام انتخابات سے قبل اسلامی جمہوری اتحاد کے میڈیا سیل میں چند اسلام پسند صحافیوں کے ساتھ کون کون تشریف فرما ہوتا تھا۔

چلئے اس ملک کے لوگوں کو یہ بتادیجئے کہ اس ملک میں کس کس کو کاروبار میں ٹیکس کی چھوٹ حاصل ہے۔ معاف کیجئے گا نصف صدی سے ہم یہی تو کہتے آرہے تھے دستور فقط دستور کی بالادستی، جمہوریت اور مستقبل دونوں کی ضمانت ہے۔

آپ کو شوق ہوا دو جماعتی (حالانکہ یہ تھیوری صریحاً غلط تھی اور ہے) نظام میں ایک ہماری پارٹی بھی ہونی چاہیے۔ آپ نے پارٹی بنوائی اس کے پھلنے پھولنے میں مدد کی آپ کے ہاں سے لوگ خاندانوں کو لے کر اکتوبر 2011ء میں مینار پاکستان والے جلسہ میں شریک ہوئے تھے۔ بتایئے دنیا کے کس جمہوری یا لُولے لنگڑے جمہوری نظام میں ایسا ممکن تھا؟

یاد رکھنے والی بات فقط یہ کہ ناراض ہونے کا حق صرف اسے ہوتا ہے جو پہلے اپنی غلطیاں کھلے دل سے تسلیم کرلے۔ کیجئے غلطیاں تسلیم۔

معاف کیجئے گا آپ کے بھائی بندوں نے ہمارے آفتاب کو پھانسی چڑھایا۔ چاندنی سڑک پر مارگرائی۔ سوچا یہ گیا کہ ’’پیدل‘‘ قیادت سے ملک چلالیں گے۔ چلاتے اور چلایئے نا روکا کس نے ہے۔

آخری بات یہ ہے کہ اب بھی وقت ہے دستور کی بالادستی اور عوام کے حق حاکمیت کو کھلے دل سے تسلیم کرلیجئے۔ اور رہبرو پیشوا بننے کی بجائے دستور میں طے شدہ فرائض پر توجہ دیجئے، ہوسکتا ہے اس سے ہم اُس انہونی سے بچ جائیں جس کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author