دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پیسے جیب میں ہیں تو ایلون مسکیاں نہ کریں||حسنین جمال

یاد رکھیں بڑے لوگوں کی جمائی بھی خبر ہوتی ہے اور چھوٹے لوگوں کا تیس چالیس کی تعداد میں ہلاک ہو جانا کولیٹرل ڈیمج کہلاتا ہے۔

حسنین جمال

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کی جیب میں پیسے ہیں تو سارا سال پیاز سے روٹی کھا لیں، مطمئن نظر آئیں گے۔

گاڑی بنگلہ نہ خریدیں، بڑا ٹی وی نہ ہو، آٹومیٹک واشنگ مشین نہ ہو، آئی فون نہ ہو، چار کپڑے کل کائنات ہوں، آپ کو فرق کوئی نہیں پڑے گا۔ کیوں؟ کیوں کہ آپ کے ایک اشارے پہ یہ سب کچھ ترنت حاضر کیا جا سکتا ہے۔

یہ سب چیزیں لیکن ایک چٹ پٹی خبر کو جنم دیں گی۔ ’اتنا امیر انسان اور ایسی سادگی!‘

لوگ آپ سے متاثر ہونا شروع ہو جائیں گے۔

دوسری طرف اگر آپ کے پاس پیسے نہیں ہیں، آپ غربت کا باقاعدہ شکار ہیں، آپ کی تنخواہ یا کاروبار فالتو خرچ کی اجازت نہیں دیتے اور اسی وجہ سے اوپر بتائی گئی نعمتیں آپ کے پاس نہیں ہیں اور کچھ بھی نہ ہونے کے باوجود آپ مطمئن ہیں اور آپ کو خواہش بھی کوئی نہیں تو اصل کمال کی بات یہ ہے۔

کمال کی بات ہونے کے باوجود اس کی خبر کوئی نہیں بنے گی، آپ کسی کی انسپریشن نہیں ہوں گے!

الماری میں دو کپڑے لٹکانا اور صبح شام سادگی کا ڈھول بجانا بہت آسان کام ہے، شرط یہ کہ آپ ایلون مسک یا مارک زکربرگ ہوں۔

دولت آسودگی میں بدلتی ہے، آسودگی بے نیازی میں، بے نیازی کو پھر اشتہار بازی میں تبدیل کرنا بائیں ہاتھ کا کام ہے۔

دنیا بھر میں اکثر بڑے لوگ پیٹ بھرنے  کے بعد سادہ نظر آتے ہیں۔ بورس یلسن کنگھی نہیں کرتے، ایلون مسک دوست کے گھر میں رہتے ہیں، زوکر برگ ہمیشہ ایک ہی جیسی پینٹ شرٹ پہنتے ہیں، وارن بفے نوکیا کا سادہ فون، عام سی گاڑی اور پچاس سال پرانا دفتر اسعمال کرتے ہیں، بل گیٹس چیرٹی میں لاکھوں ڈالر لگاتے ہیں، آئی فون والے سٹیو جابز بھی ایسے ہی تھے لیکن ایک چیز ان سب میں کامن تھی۔ شدید پیسہ، بے تحاشا دولت ۔۔۔ اگر یہ غریب ہوتے، عام آدمی ہوتے تو کیا انہیں لیوش لائف سٹائل کی خواہش نہ ہوتی؟

کیا ان کا دل نہ کرتا کہ ان کے پاس نئے ماڈل کی گاڑیاں ہوں، بڑے گھر ہوں، ہر جدید ترین گیجٹ ہو، اعلیٰ ترین کپڑے ہوں، زیور ہوں؟ یہ سب بے نیازیاں، یہ سادگیاں، یہ سب کچھ اس وقت ہوتا ہے جب پیچھے دانے پورے ہوں یا پھر بندے کو پتہ لگ جائے کہ اتنے دن بعد وہ مرنے والا ہے۔

زندہ ہے اور کوئی چیز دسترس سے باہر ہے اور اس کو پسند ہے اور وہ پھر بھی خواہش نہیں رکھتا ۔۔۔ ایسے والا کیس جینوئن بے نیاز کہلایا جا سکتا ہے۔

یعنی،

افورڈ نہ کر سکتے ہوئے، پیسے نہ ہوتے ہوئے، غربت کا شکار ہوتے ہوئے بھی کسی چیز کی خواہش نہ ہونا ۔۔۔ اصل کمال یہ ہے!

ہمیں کمال یہ لگتا ہے کہ بینک میں کھربوں پڑے ہیں لیکن صاحب کی سادگیاں نئیں مکتیں۔ اس میں کیا بڑی بات ہے؟ کاروباری آدمی ہمیشہ پیسوں کو ری انویسٹ کرنے کی سوچتا ہے، اس کی چیرٹی میں بھی سو پراکسیاں ہوتی ہیں۔ ہم سادہ دل شریف بندے پورے یقین کے ساتھ اسی طرح زندگی گزارنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔

خدا معاف کرے، مجھے ایک زمانے میں لگتا تھا کہ میں بڑا مست ملنگ آدمی ہوں، نہ فائیو سٹار ہوٹلوں کا کھانا پسند ہے، نہ ملک سے باہر جانے کا شوق، پہاڑوں پہ سیر کی آرزو ہے نہ اے سی والے کمروں کی کوئی حسرت۔۔۔ لیکن بہت جلدی پردہ ہٹ گیا۔ یہ ملنگی پن نہیں تھا بس رج گیا تھا میں۔ بندہ اس وقت رجتا ہے جب یا تو ساری عیاشی کے لیے مطلوبہ وسائل چوی گھنٹے جیب میں ہوں اور یا بہت زیادہ کر لی ہو ۔۔۔ وہ جسے ننانوے چوہے پورے ہونا کہتے ہیں ۔۔۔ تو پردہ جب ہٹا تو سمجھ آیا کہ بس کارپوریٹ نوکریوں میں ننانوے پورے ہو گئے ہیں باقی کوئی رولا نہیں، کوئی قلبی واردات نہیں۔  وسائل ہیں لیکن مزاج نہیں بنا، سادگی شادگی کوئی نہیں!

تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خواہ مخواہ والی سادگی کے چکر میں نہ پڑیں۔ جیب اجازت دیتی ہے تو زیادہ ایلون مسکیاں نہ کریں، کیا پتہ کل جیب میں یہ پیسے بھی نہ ہوں اور عیاشی کی حسرت ہی رہ جائے۔

یاد رکھیں بڑے لوگوں کی جمائی بھی خبر ہوتی ہے اور چھوٹے لوگوں کا تیس چالیس کی تعداد میں ہلاک ہو جانا کولیٹرل ڈیمج کہلاتا ہے۔

یہ پیمانہ ذہن میں بٹھائیں اور حساب لگا لیں کہ اگر آپ کی چھینک، کھانسی یا انگڑائی خبر بنتی ہے تب تو آپ کی سادگی پر بھی پنڈ والوں کو پیار آئے گا، وہ آپ کی کہانیاں مشہور کریں گے لیکن اگر آپ وہ ہیں کہ جس کے بارے میں لاؤڈ سپیکر پہ لوگوں کو صرف مرنے والے دن ہی پتہ لگتا ہے تو بہتر ہے کھا پی کے مریں، کپڑے اوقات کے مطابق بہترین ہوں اور دنیا سے جاتے جاتے کوئی ارمان رہ نہ جائے!

جب سادگی کی مشہوری ہی نہ ہوئی تو کس بات کی تسلی ہو گی؟ کون سا جذبہ پورا ہو گا؟ کس کے لیے مثال سیٹ کرتے کرتے خود بھوکے ننگے مریں گے؟ اپنے پیسے اپنے ہی کام نہیں آنے تو درخت کے نیچے بیٹھ جائے بندہ راکھ مل کے، ہلنے جلنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟

آخری بات یہ کہ آپ تک مشہور لوگوں کی صرف سادگی کی خبر پہنچتی ہے۔ انہوں نے کتنے پیسے کسی ناکام سودے میں ضائع کیے، بچوں نے اڑا دیے، بیگم نے خرچ کیے یا کسی نقصان میں اجڑ گئے، یہ سب کچھ آپ تک نہیں پہنچ پاتا۔ فروری میں فیس بک کو 200 بلین ڈالر کا نقصان ہوا ۔۔۔ اس میں سے کوئی سبق نکالا آپ نے؟ 2016 کے ایک غلط سودے پر وارن بفے کو 2021 میں 11 ملین ڈالر کا گھاٹا ہوا ۔۔۔ کوئی خبر یاد ہو؟ جنوری 2022 میں ایلون مسک کو 80 بلین ڈالر کا گھاٹا ہوا، انہیں کوئی فرق پڑا ہو؟

تو بھیا یہ گھر، کپڑے، لائف سٹائل یہ سب ان کی چوائس ہے ۔۔۔ ہماری چوائس لگژری ہونی چاہیے جس کے لیے ساری زندگی ہم جانوروں کی طرح دن رات بھاگتے ہیں!

یہ تحریر سب سے پہلے انڈی پینڈینٹ اردو پر شائع ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیے:

ایک بلوچ سیاسی و سماجی کارکن سے گفتگو ۔۔۔عامر حسینی

کیا معاہدہ تاشقند کا ڈرافٹ بھٹو نے تیار کیا تھا؟۔۔۔عامر حسینی

مظلوم مقتول انکل بدرعباس عابدی کے نام پس مرگ لکھا گیا ایک خط۔۔۔عامر حسینی

اور پھر کبھی مارکس نے مذہب کے لیے افیون کا استعارہ استعمال نہ کیا۔۔۔عامر حسینی

حسنین جمال کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author