ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیروں اور ان کے نواسوں سے فراغت کے بعد قادر نگر کے لیے نکلے تو میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا کہ بھائی یہ پیروں اور باچاؤں کے نواسے ہی کیوں ہیں پوتے کیوں نہیں تو راشد نے جز بز ہو کے بتایا کہ پشتو میں انگریزی کی طرح نواسوں پوتوں کے لیے ایک ہی لفظ ہے اور لفظ پوتا غالبا” پشتونوں کی زبانوں پہ چڑھ نہیں سکا ہے۔
پھر اس نے ایک جانب اشارہ کرکے بتایا کہ بلندی پہ جو دو گھر ہیں ان میں سے ایک پھوپھی کا ہے، دوسرا چچا کا اور ارد گرد اوپر نیچے کی کوئی تین ساڑھے تین سو کنال زمین ہماری ہے یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ایک پہاڑ اپنا بھی ہے۔
پھر وہ بتانے لگا کہ جہاں ہم جا رہے ہیں اسے علی گڑھ یونیورسٹی کے ایک سابق پرنسپل عبیداللہ درانی نے اباد کیا تھا۔ وہ خلافت کے قیام کے حق میں تھے۔ انہوں نے اطراف کے لوگوں کے بچوں کی تعلیم کا بیڑہ اٹھایا اور ساتھ ہی اردگرد کے لوگوں کو ہومیوپیتھک معالجہ مفت فراہم کرنا شروع کیا۔۔۔ پھر بیچ میں کہیں ان کے کسی مینیجر کا ذکر تھا جس نے درانی صاحب کے انتقال کے بعد، کہ ان کے بچے غیر ممالک میں زیر تعلیم تھے، خوب پر پرزے نکالے، زمینیں اونے پونے اینٹھیں، لوگوں کو تنگ کیا، تھانہ کچہری میں ذلیل و رسوا کیا۔۔۔۔ اور پھر درانی صاحب کے بجے پڑھ کر لوٹ آئے جنہوں نے معاملات درست کیے۔ ان کے ایک فرزند جہانگیر درانی صاحب پشاور یونیورسٹی کے وی سی ہیں۔ ان کے ایک نواسے، یعنی پھر نواسا تعلیم اور معالجے کے تمام معاملات کا دھیان رکھتے ہیں۔
ان کی اولاد نے قادر نگر فاؤنڈیشن نام کی ایک این جی او بنا دی ہے جو کام کی پیشرفت کی ذمہ دار ہے۔ یہ سب اپنی جگہ مگر میرے لیے سطح سمندر سے تین ہزار چھ سو کچھ فٹ بلند اس مقام پر دنیا بھر سے بھانت بھانت کے پودے اور درخت لگا کر اگانے گئ بلند اور قائم درخت اور پودے باعث تعجب تھے۔ ان درختوں میں ساحلی مقامات پر اگنے والے پام کے درخت اور صحرا میں پنپنے والے تھوہر کے بوٹے بھی شامل ہیں۔ میدانی اور پہاڑی علاقوں کے درخت اور پودے تو ہیں ہی۔ مجھے یہ چیز باعث حیرت کے ساتھ خوشگوار بھی لگی۔
راشد نے ایک بہت بلند چٹان دکھائی جس میں اس کے مطابق عبیداللہ درانی صاحب نے ایک جگہ عصا مارا تو چٹان کا چھوٹا سا ٹکڑا اڑا ضرور، جس کا اس نے مجھے نشان دکھایا۔ پھر اس سے ڈیڑھ بالشت دور عصا سے ضرب لگائی تو چشمہ پھوٹ نکلا جہاں لوہے کی ایک نالی نصب کی ہوئی ہے جس میں سے قطرہ قطرہ پانی ٹپک رہا تھا۔ بقول راشد کے درانی صاحب پہنچے ہوئے بزرگ تھے اور چشمہ نکالنا ان کی کرامت تھی جس کے لیے اس نے لفظ معجزہ برتا تھا۔
سیدھا راستہ بند تھا کیونکہ راشد کے مطابق فاؤنڈیشن کے اہلکاروں کے چند کتبوں نے وہاں رہائش اختیار کی ہوئی تھی، اس لیے ہم اترتے چڑھتے، گرمی بھی خاصی تھی، پسینہ بہاتے اور میں کبھی کبھار رکتے درانی صاحب کے مقبرے پر پہنچے۔ اونچائی چڑھنے سے پہلے، وہاں لکھی ہدایت کے مطابق جوتے اتار کے پہلے زینے سے نیچے رکھے۔ بیس پچیس زینے چڑھ کے سر پہ ایک بیل کے سفید بڑے بڑے پھول لٹکنے لگے۔ ایک چبوترے کے گرد سبز روغن کردہ آہنی جنگلے پہ ادھر ادھر دور تک یہ بیل تھی جس میں کہیں تازہ بہت سے تو کہیں کچھ مرجائے ہوئے یہی سفید پھول صاحب قبر کے ذوق کی گواہی دینے کو موجود تھے۔ چبوترے کے بیچوں بیچ ایک اور پنجرہ نما بڑا سا جنگلا تھا، جس میں پانچ فٹ اونچے مستطیل سیمنٹ شدہ تعویذ پر چادر چڑھی قبر تھی جو انہیں عبیداللہ درانی صاحب کی تھی جو استاد سے مرشد بن کر جہان سے گذرے تھے۔
فاتحہ پڑھ کے، زینہ اترے، جوتے چڑھائے، کار تک پہنچے جہاں گاوہر ہمارا بیتابی کے ساتھ انتظار کر رہا تھا۔ اب ہمارا رخ ایک اور جانب کے پہاڑوں کی چوٹیوں کی جانب تھا۔ ہم پیچواں سڑک پر چڑھتے ہوئے صحت افزاء مقام کلیل کی جانب رواں تھے، جہاں ابھی کچھ تعمیر نہیں ہوا مگر زمینیں اکثر خریدی جا چکی ہیں۔ خریداروں میں زیادہ کرنیل جرنیل ہیں، سابق بھی اور موجودہ بھی۔
ساڑھے چھ ہزار فٹ کی بلندی پر ہوا تازہ اور کسی حد تک خنک تھی۔ ایک ہوٹل تعمیر ہو رہا تھا۔ ایک پہلے سے موجود تھا۔ بننے والے کے ڈالے گئے لینٹل پر کھڑے ہو کر ہم نے تصویریں بنائیں۔ راشد نے دور اشارہ کرکے دکھایا کہ وہ جو ہلکا ہلکا دکھائی دے رہا ہے وہ سوات کا صدر مقام مینگورہ ہے۔
وہاں زیادہ ٹھہر کے کیا کرنا تھا، کہیں بیٹھنا چاہیے تھا مگر کہاں بیٹھتے۔ کار میں بیٹھے۔ پانچ چھ کلومیٹر کے بعد ایک روڈ سائیڈ ڈھابہ تھا۔ ڈھابے کے عقب میں ایک طرف دور بچھی چارپائیوں پر کچھ لوگ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ گاوہر نے ایک چارپائی لا کر درخت تلے بچھا دی، میں اس پہ دراز ہو گیا۔ راشد ایک پتھر پہ بیٹھ کے موبائل میں مصروف ہو گیا۔ گاوہر نے دور ایک درخت کے پاس پلاسٹک کی چٹائی بچھائی، درخت کے تنے کو تکیہ کیا، اور موبائل پہ کچھ دیکھنے لگا۔
ڈھابے میں ایک داڑھی والے نوجوان نے غالبا” پکوڑے بنانے کو بھٹی سلگا لی تھی اور اس پہ کڑاہی دھرنے کو تھا جسے دیکھ کے راشد نے پوچھا یہیں پہ روزہ افطار نہ کر لیں لیکن میں نے چہرے سے چپکنے کی کوشش کرتی مکھیوں اور ادھر ادھر بیزاری سے آتے جاتے مریل کم عمر کتے کو دیکھ کے کہا، نہیں افطاری گھر جا کے کریں گے۔
یہ کہہ کر کے میں اٹھ کھڑا ہوا۔ راشد اور گوہر بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم کار میں جا بیٹھے جسے گوہر پیچواں سڑک پہ نیچے اور نیچے اتارنے لگا۔ راشد بولا، میں سوچ رہا ہوں کہ راتیں تو ٹھنڈی ہو ہی جاتی ہیں یہاں کیوں نہ ایک دو روز مزید قیام کر لیا جائے، میں نے کہا کر لیتے ہیں مگر فورا” ہی بیت الخلا میں بیٹھنے اور اٹھنے کے عمل کے دوران اپنے گھٹنوں کے درد کے کرب کا، احساس کرتے ہی تیور بدلے اور کہا، نہیں کل ہی لوٹ چلیں گے۔
افطار کی۔ ایک بار پھر راشد کے والد امین صاحب سے نشست رہی۔ چٹان سے چشمہ پھوٹنے کی کرامت کا ذکر ہوا تو میں نے کہا کہ ہمارے ایک دوست علم الارضیات کے ماہر ہیں جن کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی ہے ہی نہیں۔ وقت نامعلوم سے پہاڑوں پر جو بارشیں ہو رہی ہیں وہ سارا پانی بہہ کے دریا اور پھر سمندر میں نہیں جاتا بلکہ بہت سا پانی قطرہ قطرہ پتھروں میں جذب ہو جاتا ہے۔ چٹانوں تلے اور چٹانوں کے اندر بھی پانی کا ایک بڑا، ذخیرہ ہے۔ جدید ٹکنالوجی کا، استعمال کرتے ہوئے ان ذخائر کو باہم کیا جانا ممکن ہے۔ ایسا کیا جائے اور پھر ایک بڑا سا سٹاپر لگا دیا جائے جس کو کھولو تو جتنا پانی درکار ہو لے لو اور پھر بند کر دو تو یہ چشمہ بھی ایسے ہی کسی سوتے سے پھوٹا ہوگا، ممکن ہے درانی صاحب کو خدائے بزرگ و برتر نے چشم بینا دی ہو اور انہوں نے عین اس وقت وہاں عصا سے ضرب لگائی ہو جب چشمہ بس پھوٹنے کو تھا۔ امین صاحب نے میری بات سے اتفاق کیا۔
میں نے عرض کی کہ اپ آج چاہے جتنا اچھا بن کے مذہبی پرچار کرنے لگ جائیں۔ لوگ آپ کی تعظیم تو کر سکتے ہیں مگر پیر بابا کی طرح آپ کو مرشد نہ جانیں گے اور ظاہر ہے نہ مانیں گے۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ موبائل فون پہ انٹرنیٹ سے سوچ تبدیل ہو رہی ہے۔ اب لوگوں کا چلن مختلف ہے البتہ سیاسی چشمک زن کو مسیحا ماننے کا گمان تا حال ہمارے ایسے نیم پختہ معاشرے میں اب بھی ہے۔ انہوں نے اس سے بھی اتفاق کیا کیونکہ وہ کب سے تحریک انصاف سے بد دل ہو چکے ہیں۔
اگلے دن میں تو معمول کے مطابق تیار ہو چکا تھا مگر راشد دن چڑھے، کندھے پہ رگ سیک لیے نمودار ہوا۔ دل دھک سے بیٹھ گیا کہ جی لوٹنے کو نہیں کر رہا تھا مگر افسوس پیری میں گھٹنوں کے قابل کار نہ ہونے کا کیا کیا جائے۔ راشد نے ایک اور ڈرائیور کی ٹیکسی کار منگوائی ہوئی تھی جس میں سوار ہو کر ہم پیر بابا پہنچے۔ بلال کوچ سے ویگن دو بجے روانہ ہونی تھی۔ میں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے قصر ظہر پڑھ لی اور پیشاب کرنے اڈے کے باتھ روم گیا۔ خلاف معمول زندگی میں پہلی بار اڈے کا دیسی باتھ روم صاف ستھرا ملا۔ حیرت بھی ہوئی، خوشی بھی۔ واپسی میں گھٹنوں نے بہت مضطرب کیا، جاتے ہوئے ایسا نہیں تھا۔ غالبا” قیام کے دوران دیسی باتھ روم کی اٹھک بیٹھک نے گھٹنوں کو ضرر پہنچایا تھا۔
ہمیں لینے کو کرنل فرقان گاڑی لے کر پہنچے ہوئے تھے۔ افطار میں زیادہ وقت نہیں تھا چنانچہ کرنل صاحب، پنڈی وال ہونے کی وجہ سے افطاری کا سامان خریدنے والوں سے بھری ایسی ایسی گلیوں سے، جن کا شاید ٹیکسی والوں کو بھی علم نہ ہو، گزارتے ہوئے ہمیں اور تو اور افطاری کے لیے اشیاء خرید کرکے گھر لے آئے۔ میں گھر لوٹ آیا تھا۔ ہر وہ جگہ جہاں میں ہفتہ سے زیادہ قیام کر لوں میرا گھر ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر