نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چوری اور پھر سینہ زوری ||حیدر جاوید سید

جس کا بھی تھا اب یہ ہلڑبازی اور نعرے لگانے والوں کے گلے پڑے گا۔ سعودی قوانین کے تحت اگر ان افراد کو سزائیں ہوئیں تو لکھ کے رکھ لیجئے ان کا والی وارث کوئی نہیں بننا۔ نہ ہی ان کے گھر والوں کی دادرسی ان جہادیوں نے کرنی ہے جو سوشل میڈیا پر اس طوفان بدتمیزی کے درست ہونے کے حق میں تاویلات پیش کررہے ہیں۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دو اڑھائی برس قبل عمران خان کے خلاف بیت اللہ (خانہ کعبہ) میں نعرہ بازی ہوئی تھی تو مریم نواز سے لے کر ہر چھوٹے بڑے (ن) لیگی نے اسے ’’جہاد‘‘ قرار دیا سب کہہ رہے تھے، عمران خان "سنو یہ خلقِ خدا کی آواز ہے”۔ گزشتہ روز مسجد نبویؐ میں وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ سعودی عرب کے دورے پر گئے وفد کے بعض ارکان اور خود شہباز شریف کو جس ہلڑبازی اور مخالفانہ نعروں کا سامنا کرنا پڑا اسے تحریک انصاف کے رہنما و ہمدردان "آواز خلق” قرار دے رہے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ چور کو چور نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ بیت اللہ میں عمران خان کے ساتھ پیش آئے واقعہ پر ان سطور میں عرض کیا تھا ’’یہ اچھا نہیں ہوا بدلے کی بھائونا مستقبل میں مقدس مقامات کے تقدس کو پامال کراتی رہے گی ،

بدقسمتی سے گزشتہ روز جو ہوا اس پر سیاسی جماعتوں کو سوچنا سمجھنا ہوگا۔

گزشتہ روز کے واقعہ کے بعد بھی ہماری رائے یہی ہے کہ اب بھی وقت ہے سیاسی اختلافات کو نفرت میں بدلنے سے گریز کیجئے۔ یہ منطق کہ چور کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں درست نہیں۔ یہی زبان عمران خان کے خلاف برتی گئی اور برتی بھی جاسکتی ہے۔ ایک امریکی عدالت کا ماضی میں جاری ہوا حکم نامہ لہراتے ہوئے جب اس کے مخالفین جوابی ’’غزلیں‘‘ گائیں گے تو پھر رونا دھونا اور اقدار و روایات کی باتیں بے وقت کی راگنیاں ہوں گی۔

گزشتہ روز مسجد نبویؐ میں جو کچھ ہوا اس کے دفاع میں کچھ عرض کرنے سے قاصر ہوں۔ کچھ عزیز حالیہ واقعہ کو لے کر انہدام جنت البقیع کا مقدمہ لے بیٹھے اور سوال کرتے ہیں اس پر کیوں نہیں بولتے۔ ان کی منطق درست ہے ناہی ان کا موقف درست ہے جو کہہ رہے ہیں کہ حج کی عبادات میں شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل بھی تو موجود ہے پھر یہ نعرہ بازی کیسے غلط ہوئی۔ معاف کیجئے ہم محبت و نفرت اصول و بے اختیاری پر نہیں بلکہ پسندوناپسند پر پالتے ہیں۔

ہم ظالم اور مظلوم بھی اپنی اپنی پسند کا رکھتے ہیں۔ اس سوچ پر تو پھر شیطان بھی اپنی اپنی پسند کے ہی ہوں گے۔ اس پسند و ناپسند کے چکر میں جو تباہیاں ہوں گی شاید ہم (ہم سے مراد سارے پاکستانی ہیں) اس کے متحمل نہ ہوسکیں۔ بات مقدس مقامات سے نکل کر گلی محلوں اور گھروں تک جائے گی اور اس سے ہوئی سماجی ٹوٹ پھوٹ کا خمیازہ صدیوں تک بھگتنا پڑے گا۔

سیاسی عمل میں بدزبانی کو کس نے رواج دیا اس پر بھی اپنے اپنے فضائل و مصائب ہیں۔ فی الوقت پچھلے چند برسوں سے جو طبقہ اسے پروان چڑھارہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ رویہ ہمارا حق اور ردعمل ہے وہ جواز کے طور پر بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ اسلامی جمہوری اتحاد اور (ن) لیگ کی جانب سے ماضی میں روا رکھے گئے سلوک کو پیش کرتا ہے۔ ایسا کرتے وقت وہ یہ بھول جاتاہے کہ محترمہ بیگم نصرت بھٹو نے جمہوری عمل کی بحالی کے لئے پاکستان قومی اتحاد کی بعض جماعتوں کے ساتھ ایم آر ڈی نامی اتحاد میں بیٹھنا اس کے باوجود گوارہ کیا تھا کہ ان میں سے ایک جماعت کے سربراہ اصغر خان ذوالفقارعلی بھٹو کو کوہالہ کے پُل پر پھانسی چڑھانے کا اعلان کیا کرتے تھے۔

محترمہ بینظیر بھٹو نے آئی جے آئی اور (ن) لیگ کی اخلاقی باختگیوں کو نظرانداز کرکے سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے (ن) لیگ کے ساتھ اے آر ڈی میں سیاسی اتحاد کیا۔ بعدازاں جدہ کے سرور پیلس گئیں۔ لندن میں میثاق جمہوریت بھی کیا۔ ٹھنڈے دل سے ان دو خواتین کی اعلیٰ ظرفی کا تجزیہ کیجئے دونوں نے جمہوریت کے لئے ذاتی رنج کو دفن کیا۔

اس پر یہ کہنا کہ یہ مفاد پرستی تھی یا اقتدار طلبی۔ یہ سطحی سوچ ہے۔ اس طرح کی سوچ رکھنے والے نفسیاتی مریض ہیں انہیں سیاسی روایات اور جمہوریت کی الف ب کا بھی پتہ نہیں ان کے خیال میں 25سال سے ہر مخالف کو اوئے توئے کرکے بلاتا اور الزام اچھالتا ہوا شخص نجات دہندہ و مسیحا ہے باقی سب چور ہیں۔ دوسروں کو چور کہنے اور اس پر اترانے والے اپنے چوروں اور دوسری پارٹیوں سے چھانٹ کر لائے گئے کرپٹ عناصر کی صفائیاں پیش کرتے ہوئے جب فضائل بیان کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔

مکرر عرض ہے گزشتہ روز مسجد نبویؐ میں جو ہوا اس کے حق میں پیش کی جانے والی ہر دلیل اتنی ہی بھونڈی ہے جتنا بعض افراد کا عمل۔

البتہ یہ حقیقت ہے کہ مسجد نبویؐ میں ہوئی ہلڑبازی اور مخالفانہ نعرے بے ساختہ ہرگز نہیں بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔ اس واقعہ سے ایک دو دن قبل سابق وزیر داخلہ شیخ رشید ایک پریس کانفرنس میں کہہ رہے تھے کہ شہباز شریف وغیرہ جاکر تو دیکھیں حرم میں ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے مطلب واضع ہے کہ وہ یعنی شیخ رشید بھی منصوبہ سازوں میں شامل تھے۔

ورنہ وہ کیسے دعویٰ کرسکتے تھے کہ وہاں کیا ہوگا۔ اطلاع یہ ہے کہ مدینہ منورہ کی انتظامیہ نے کچھ افراد (80سے 150 کی تعداد بتائی جارہی ہے) کو گرفتار کیا ہے ان سے تفتیش جاری ہے۔ کسی جہانگیر چیکو کا نام لیا جارہا ہے کہ یہ سارا منصوبہ اس کا تھا۔

جس کا بھی تھا اب یہ ہلڑبازی اور نعرے لگانے والوں کے گلے پڑے گا۔ سعودی قوانین کے تحت اگر ان افراد کو سزائیں ہوئیں تو لکھ کے رکھ لیجئے ان کا والی وارث کوئی نہیں بننا۔ نہ ہی ان کے گھر والوں کی دادرسی ان جہادیوں نے کرنی ہے جو سوشل میڈیا پر اس طوفان بدتمیزی کے درست ہونے کے حق میں تاویلات پیش کررہے ہیں۔

مقامی سیاست کی تلخیوں اور نفرت و غصے کے اظہار کے لئے مقدس مقامات کا تقدس مجروح کرنا کسی بھی طرح درست نہیں۔ ایک وقت میں لیگیوں نے عمران خان کے ساتھ بیت اللہ میں اسی طرح کا مذموم رویہ اپنا یا تھا اب تبدیلیوں کے علمبرداروں نے ویسے ہی ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ لیگیوں کی ہرکت کو بلاجواز اور حرم اللہ کی حرمت پامال کرنے کا کہنے والے اب حرم سرکار دوعالمؐ کے تقدس کی پامالی کے حق میں دلیلیں دے رہے ہیں۔ بالائی سطور میں عرض کرچکا ہم ظالم و مظلوم اور شیطان اپنی اپنی پسند کا رکھتے ہیں۔ اب ٹھنڈے دل سے سوچئے اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوا؟

گزشتہ شب ہی اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری پر فوڈ سٹریٹ کے ایک ہوٹل میں اس وقت حملہ ہوا جب وہ ایک ساتھی کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔ یہ واقعہ بھی لائق تحسین ہرگز نہیں بلکہ قابل مذمت ہے۔ اس واقعہ کی ویڈیو میں موجود نعرے اور بعض باتیں کچھ اور کہتی ہیں مگر قاسم سوری کا دعویٰ ہے کہ ان پر حملہ (ن) لیگ نے کیا۔ ویڈیو موجود ہے حملہ کرنے والوں کی شناخت کرکے انہیں گرفتار کیا جانا چاہیے تاکہ اصل منصوبہ سازوں کے چہرے بے نقاب ہوں۔ مسجد نبویؐ کا واقعہ ہو یا اسلام آباد کی فوڈ سٹریٹ میں پیش آنے والا واقعہ دونوں کسی اگر مگر کے بغیر قابل مذمت ہیں۔ دونوں واقعات یہ سمجھارہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ عدم برداشت کی ’’نانگا بربت‘‘ پر کھڑا ہے۔

یہاں ہر شخص خود مدعی، وکیل، گواہ اور منصف ہے۔ ان رویوں کا نتیجہ کیا نکلے گا یہ سمجھنے کے لئے سماجی سائنس میں پی ایچ ڈی ہونا ضروری نہیں۔ فکر مندی والی بات یہ ہے کہ عدم برداشت اور نفرت کی خلیج بہت گہری ہوچکی ہے۔ اس پر ستم یہ ہے کہ شیخ رشید اور فواد چودھری جیسے لوگوں کے غیرذمہ دارانہ بیانات ہیں جو جلتی پر تیل چھڑکنے کے مصداق ہیں، ذاتی طور پر اس تجویز کو صائب سمجھتا ہوں کہ مدینہ منورہ میں مسجد نبویؐ میں پیش آنے والے واقعہ، قاسم سوری پر حملہ اور شیخ و چودھری کے بیانات ان سب کی تحقیقات کرائی جائیں۔ منصوبہ سازوں اور منصوبے پر عمل کا کردار بننے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہیے۔

آخری بات یہ ہے کہ جو لوگ اس طوفان بدتمیزی کے حق میں دلائل اٹھارہے ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ آگ اور سیلاب سب کے ساتھ یکساں سلوک کرتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ ان رویوں کی حوصلہ افزائی کرنے اور جواز میں مذہبی روایات پیش کرنے سے اجتناب برتا جائے۔ سیاست کو سیاست رہنے دیں، کفرو اسلام کی جنگ نہ بنائیں بصورت دیگر نتائج سب کو بھگتنا ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author