دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماش کی دال کے ستر پکوان ||حیدر جاوید سید

سکیورٹی اسٹیٹ کے مالکوں کو طبقاتی جمہوریت وارے کھاتی ہے۔ وہ ہمیشہ طبقاتی جمہوریت کو جی جان سے قبول کرتے ہیں کیونکہ اس میں روزی روٹی ان کی لگی رہتی ہے اور ذلت پروگرام سیاستدانوں کا۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کچے پکے دانشوروں کا ’’ہڑ‘‘ آیا ہوا ہے۔ بھانت بھانت کے راگ سواگ ہیں۔ دعوے، انکشاف، کہانیاں، انقلاب کے گرم دوپہر میں پگھل جانے کا خطرہ ہے۔ شب ٹھنڈی ہوتی ہے میک اپ قائم رہتا ہے۔ ویڈیو اور تصاویر کے ایڈٹ کئے جانے کو میک اپ کہا ہے کسی اور طرف بات موڑنے پر صورتحال کے آپ ’’خود ذمہ وار‘‘ ہوں گے ادارے کا مراسلہ نگار اور مرضی کی رائے قائم کرنے والے سے کوئی لینا دینا نہیں۔

اس ملک کے پچھلے سارے حکمران چور تھے ایک اکیلا سادھو سنت عمران خان اب کس کس کا مقابلہ کرے۔ تھک ہار کر اس نے بھی توشہ خانہ کے آگے ہتھیار ڈال دیئے۔

توشہ خانہ سے فیض سب نے پایا، رہ کوئی نہیں گیا کیا شریفین و زرداری گیلانی و دیگران۔ اور تو اور وہ ہمارے دہلوی سرکار قبلہ پیر جنرل پرویز مشرف کاظمی المعروف کمانڈر صدر۔

انہوں نے تو توشہ خانہ کے علاوہ نقدو نقد ہدیات بھی قبول کئے ان ہدیات کا حساب کہیں نہیں لکھا۔ کس میں جرات ہے کہ پوچھے سرکار وہ جو بڑے منہ بولے بھائی شاہ عبداللہ مرحوم نے ڈالروں سے بھرا بریف کیس دیا تھا اس میں کتنے ڈالر تھے؟

سچی بات یہ ہے کہ تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کے حکمران وکھری ٹائپ کی مخلوق ہوتے ہیں۔ سبھی ایک جیسے، بس ہم میں سے ہر ایک کو اپنی پسند کا لیڈر محب وطن، ایماندار، باوقار اور وہ سب کچھ لگتا ہے جیسا نسیم حجازی کے ناولوں کے ہیرو جیسی خصوصیات رکھنے والا باقی تو سب یہودوہنود کی سازشیں ہیں۔

یہ یہودی سازشوں کی کہانی بھی الیاس سیتاپوری کے ناولوں جیسی ہے۔ مسلم دنیا کے پاپائیت بازوں کا کاروبار ان سازشی کہانیوں پر ہزار برس سے چل رہا ہے۔ چلنے دیں ہمیں اور آپ کو کیا تاریخ کے دسترخوان پر اور ہے کیا۔ سازشوں کی کھچڑی ہے۔ گائو ماتا کی نہاری، پکوان اور بھی ہیں مگر لمبی فہرست ہے۔

کہتے ہیں لکھنؤ کے کسی تاجدار کے پاس ایسا باورچی تھا جو صرف دال ماش کی ستر مختلف اقسام کی ہانڈیاں پکالیتا تھا۔ ایک دن ہم نے ہمزاد فقیر راحموں سے پوچھا، کیا واقعی دال ماش کی ستر مختلف اقسام کی ہانڈیاں پک سکتی ہیں؟

تڑاخ سے بولے ’’کیوں نہیں اگر نسیم حجازی کے رومانی ناول، مسلم تاریخ کے تڑکے کے ساتھ تاریخی دستاویزات کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں تو پھر دال ماش کی ستر ہانڈیاں کیوں نہیں پک سکتیں‘‘۔

فقیر راحموں کا دعویٰ ہے کہ وہ کراچی کے ایک ایسے باورچی کو جانتے ہیں جو ’’گوشت پیاز‘‘ کی 200سے زیادہ مختلف اقسام کی ہانڈیاں پکایا کرتا تھا۔ مزید سوال پوچھنے سے پرہیز کیا یہی صحت کے لئے اچھا ہے۔

ہم سبھی ویسے ہی ہیں بس دوسرے کی آنکھ کا شہتیر تلاش کرنے میں ملکہ حاصل ہے۔ معاف کیجئے بات کدھر نکل گئی۔ بات تو کچے پکے دانشوروں کی ہورہی تھی۔

اس ٹچ موبائل نے جس پر اردو کمپوزنگ ہوجاتی ہو ایسے ایسے دانشوروں سے متعارف کروایا کہ کئی بار ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر یہ تیس پچاس برس پہلے جنم لے لیئے ہوتے تو عنایت اللہ، نسیم حجازی، الیاس سیتا پوری اور طارق اسماعیل ساگر کی ’’ہٹیاں‘‘ ٹھپ ہوجانی تھیں۔

شکر ہے انہوں نے تشریف آوری میں کچھ تاخیر کردی ورنہ مندرجہ بالا چاروں شخصیات کے بچوں نے روٹی نان کو ترستے رہنا تھا۔ دانش وروں کے ہڑ کو ہر مسئلہ کا حل معلوم ہے وہ سب جانتے ہیں جو نہیں بھی جانتے اچھا یہ تاثر دیا ہی کیوں جائے کہ کچھ نہیں جانتے۔

حضرت گوگل بابا جی کس مرض کی دوا ہیں۔ وکی پیڈیا ہے، تانک جھانک کرو اور دانشوری ریڑھ دو یہاں سچ جھوٹ کی نہیں وقت پر مارے ہوئے ’’وٹے‘‘ کی قیمت ہے۔ دانشوروں کو رہنے دیجئے یہ بہت قیمتی مخلوق ہے بڑی محنت مشقت سے تیار ہوئی۔

آپ کسی سابق پپلے سے ملئے جو حاضر ناظر انصافی ہو، اس سے کسی بھی موضوع پر بات کیجئے اگر چودہ طبق روشن اور سترہ تاریک نہ ہوجائیں تو بتایئے گا۔

اب کل سے یہ سابق پپلے حاضر انصافی وال وال لور لور کھجل ہوکر بتارہے ہیں بلاول نے بھٹو خاندان کی ناک کٹوادی شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر خارجہ بن کر۔وہ بھول گیاکہ شریف ٹبری اس کی ماں کو گالیاں دیتی تھی۔ بیہودہ تصاویر ہیلی کاپٹر سے پھینکوائی تھیں۔

یہ حاضر انصافی ابھی پپلے ہی تھے جب بلاول کی ماں نے میثاق جمہوریت کیا تھا۔ ہمت تھی تو تب بولتے اختلاف کرتے۔ اب جس زبان دانی میں جُتے ہوئے ہیں یہ کس کام کی۔ خیر چھوڑیں یہ سابق پپلے اور حاضر انصاف ’’ترسی‘‘ ہوئی مخلوق ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو ہر پانچ دس برس بعد بھٹو خاندان سے ایک نیا جنازہ اٹھتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

ان کے خیال میں سیاسی اختلافات کا اظہار ننگی گالیاں دے کر ہی ہوتا ہے۔ آج کل یہ مخلوق صبح و شام یہی کام کرتی ہے۔ خیر اب عید کے بعد جب یہ قائد انقلاب قبلہ عمران خان بنی گالوی کی قیادت میں انقلاب لینے کے لئے نکلے گی پھر پتہ چلے گا کتنے بیس میں سو ہوتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک نئی جنگ شروع ہوچکی ہے سابق خاتون اول کی سہیلی محترمہ فرخ کا اپنا اکائونٹ ہے یا جعلی بہر طور اس اکائونٹ سے چھوٹے میاں فواد حسین چودھری کے لتے لئے جارہے ہیں۔

گزشتہ روز فواد حسین چودھری نے الیکشن کمیشن کے دفاتر کے باہر تاریخ ساز احتجاج پر تحریک انصاف کے کارکنوں کو مبارکباد دی تو فقیر راحموں کے چہرے پر عجیب سے مسکراہٹ دوڑ رہی تھی۔ احتجاج واقعی تاریخ ساز تھا جو لوگ اسے تاریک ساز کہہ لکھ رہے ہیں وہ نومولود انقلابیوں کے سینوں میں مچلتے دوڑتے اور آتش فشاں کی طرح پھٹنے کو تیار انقلاب اور غصے دونوں سے واقف نہیں۔

انگلی کٹاکر شہیدوں میں اسم گرامی درج کرانا اور دھوپ سے تپتی سڑکوں پر انقلاب کے لئے دھکے کھانا دو الگ الگ فیشن ہیں۔ اللہ نہ کرے ان انقلابیوں کی جدوجہد اور جلوسوں پر پولیس کبھی حملہ آور ہو، لاٹھیاں، آنسو گیس، حوالاتیں، چھتر پریڈ، آجا مورے بالما تیرا انتظار ہے والا ٹیوب ویل کے پٹے والا لمبا چھتر جو پڑتے ہی کھال ادھیڑ دیتا ہے۔

امید ہے کہ انقلابی ان ساری سوغاتوں سے محفوظ رہیں گے۔ ورنہ اکثریت اعلان لاتعلقی کے کلاسیفائیڈ اشتہارات چھپواتے ملے گی۔ ساعت بھر کے لئے رکئے، یقین کیجئے میں فقیر راحموں کے کہنے پر پروپیگنڈہ کررہا ہوں نہ میرا مقصد انقلابیوں کا ’’دل کھٹا‘‘ کرنا ہے۔

انقلاب بہرحال جدوجہد کے بغیر نہیں آتا۔ اس ملک میں اقتدار ایسے مل جاتا ہے جیسے 2018ء میں عمران کو ملا تھا یا 2013ء میں میاں نوازشریف کو۔ اقتدار سمجھوتوں کے بغیر نہیں ملتا کسی بھی سکیورٹی اسٹیٹ میں۔

سکیورٹی اسٹیٹ کے مالکوں کو طبقاتی جمہوریت وارے کھاتی ہے۔ وہ ہمیشہ طبقاتی جمہوریت کو جی جان سے قبول کرتے ہیں کیونکہ اس میں روزی روٹی ان کی لگی رہتی ہے اور ذلت پروگرام سیاستدانوں کا۔

قائد انقلاب کل سے پرلے روز پشاور میں آزادی اظہار و صحافت پر سوال اٹھارہے تھے۔ ان کے اپنے دور میں دونوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ریکارڈ پر ہے۔

حرف آخر یہ ہے کہ سیاسی اختلافات عمر بھر کی ذاتی دشمنیاں اور پرانے قبائلی نظام کے قتل مقاتلے نہیں ہوتے۔ سیاسی عمل کو آگے بڑھانا ہے تو درگزر سے کام لینا پڑتا ہے اس ملک کی سیاسی تاریخ میں درگزر کا حوصلہ صرف پیپلزپارٹی نے دیکھا یا پہلی بار ایم آر ڈی میں بھٹو کے قتل میں شریک سیاسی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر۔ دوسری بار اے آر ڈی میں ن لیگ کے ساتھ بیٹھ کر۔ تیسری بار میثاق جمہوریت کے ذریعے اور اب سیاسی مفاہمت پر عمل کرتے ہوئے۔ سیاسی عمل کے یہی حقیقی تقاضے ہوتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ جو بات (ن) لیگ کو 34برس بعد سمجھ میں آئی ہے وہ ہمارے نومولود انقلابیوں کو 70برسوں میں عین ممکن ہے سمجھ میں آجائے لیکن اس کے لئے دماغ کی کھڑکی کھلی رکھنا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author