محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے تین چار دن سے سوشل میڈیا پر ایک طوفان بپا ہے۔ ویسے تو یہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے چل رہا ہے، اس میںروزانہ بلکہ ہر چند گھنٹوں کے بعد شدت اور کبھی کمی آ جاتی ہے۔ مسجد نبوی ﷺ میںاحتجاج کا جو افسوسناک واقعہ ہوا، اس کے بعد تو لگتا ہے اچانک کشیدگی غیر معمولی حد تک بڑھ گئی۔ فیس بک پر آگ لگی ہے، ٹوئٹر بھی اس سے محفوظ نہیں بلکہ اب تو واٹس ایپ گروپوں میں خونی رشتے، قریبی دوستیاں ٹوٹنا شروع ہوگئی ہیں۔ کئی جگہوں پر تو میاں بیوی میں ان سیاسی بحثوں کی وجہ سے تلخی پیدا ہو رہی ہے۔
یہ سب اس لحاظ سے خوفناک ہے کہ ایک تو ٹکرائو اور جسمانی تصادم کے خطرات بڑھ رہے ہیں، پھر دوسروں پر فتویٰ چسپاں کرنے، لیبل لگانے اور سخت ترین الزامات لگانے کا سلسلہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ یار لوگ نہایت آسانی اور سہولت کے ساتھ اپنے سیاسی مخالفین کو کچھ بھی کہہ ڈالتے ہیں۔ کسی کو غدار اور غیر محب وطن ، چورکرپٹ وغیرہ تو دوسری طرف سے گستاخ رسول ﷺ اور اسی طرح کے سنگین الزامات بھی جڑ دئیے جاتے ہیں۔ یہ سب غلط اور افسوسناک ہے۔
اس حوالے سے لکھنے کا ارادہ تھا کہ نائنٹی نیوز سنڈے میگزین کے ریگولرلکھاری ضیغم قدیر نے ایک تحریر بھیجی۔ ضیغم نوجوان لکھاری اور ریسرچر ہیں، سائنسی موضوعات پر وہ تحقیق کر کے عمدہ لکھتے ہیں۔انہوں نے اس تلخی اور تقسیم کے حوالے سے ایک ایسی تحریر لکھی کہ اسے بے ساختہ اپنے کالم میں شیئر کرنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔ عام طور پر میں تحریر مکمل شائع نہیں کیا کرتا، مگر ضیغم قدیر کی تحریر کے نکات اتنے اہم ہیں کہ کرنا پڑا۔
ضیغم قدیر لکھتے ہیں :’’ آپ یہ جملہ گزشتہ دو تین روز سے پڑھ رہے ہوں گے کہ جو اس موضوع پہ میری پسند کی رائے نہیں دے گا اس کو میں انفرینڈ کر رہا ہوں۔سوشل میڈیا پر اسی طرح کے مختلف واقعات پر کوئی نہ کوئی گروپ یہ سلسلہ شروع کر دیتا ہے کہ اگر آپ اس موضوع پہ فلاں رائے نہیں رکھتے تو آپ کو میں انفرینڈ کر دونگا۔اب وہ ان فرینڈ کرتے بھی ہیں یا نہیں، اس کا علم نہیں مگر چونکہ مجھے انسانی رویوں کا مطالعہ بہت پسند ہے اور میں کراس کلچرل چیزیں دیکھنے کا بہت شوق رکھتا ہوں تو یہ ٹرینڈ بھی مجھے انسانی رویوں کے مطالعے کے لئے بہت موزوں لگا۔
’’اس ٹرینڈ پہ بات کرنے سے پہلے آپ کو کینسل کلچر کا بتاتا چلوں کہ یہ دراصل ہے کیا؟ کینسل کلچر کی شروعات می ٹو موومنٹ کیساتھ شروع ہوئی۔ جی وہی می ٹو(Me Too) موومنٹ جس میں کچھ خواتین اپنے ساتھ ہراسگی کے واقعات کو کافی عرصہ بعد ایک کمپین کے نتیجے میں شئیر کرنا شروع ہوئیں۔ اس تحریک کے دوران پورے سوشل میڈیا پہ ایک پولرائزیشن پیدا ہوگئی کہ جو شخص ایک عورت کے ہراسگی کے الزامات کو جھوٹے الزامات کہتا ہے یا ان کی انکوائری کی بات کرتا ہے وہ شخص دراصل عورتوں کو ہراس کرنے کے حق میں ہے۔کیسے؟ کسی کو علم نہیں مگر چونکہ اکثریت ایسا کہہ رہی ہے تو ایسا ہی ہوگا اور سمجھا جائے گا۔
’’اس کینسل کلچر کو دوسرا بڑا عروج بلیک لائیو میٹرز (Black Lives Matter)کے دوران ملا۔ستم ظریفی دیکھیں کہ جس شخص نے یہ ٹرینڈ شروع کیا اب وہ اس کاز کے نام پہ کروڑوں ڈالر چندہ اکھٹا کرکے امریکہ سے بھاگ کر آسٹریلیا میں رہ رہا ہے لیکن تب بھی مغرب میں خاص کر ہر جگہ عام ہو گیا کہ جو شخص سیاہ فام کمیونٹی کے حق میں اٹھی اس کمپین کی شفافیت پر بولے گا، وہ دراصل سیاہ فام دشمن ہے اور اس کو معاشرے میں جینے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔کیوں؟ اس بات کا کسی کو علم نہیں ۔ ’’یہ سلسلہ تھما نہیں، جینڈر پروناؤنز کا مسئلہ عروج پہ آ گیا۔
مغرب اور امریکہ میں اب یہ راسخ بات ہے کہ آپ کسی کو اس کی مرضی کے بغیر اس کی بائیولوجیکل جنس کے مطابق بلانے کی کوشش کریں گے تو آپ ایک racist کا لقب پائیں گے۔ مطلب آپ کے سامنے ایک انسان ہے وہ بائیولوجیکلی آپ کو عورتوں والے خدوخال رکھتا دکھائی دیتا ہے مگر اس کو آپ اس کی مرضی کے پروناؤن جیسا کہ They/Their نہیں کہہ کر بلاتے تو آپ بنیادی طور پہ ایک شدت پسند ہیں اور آپ کو نوکری سے نکالنا بنتا ہے کیونکہ آپ اس کو ایسا کہہ کر ٹرانس جینڈر کے حقوق کی تلفی کر رہے ہیں۔کیسے اور کیوں؟ نہیں معلوم، مگر جو ہے سو ہے۔
’’مغرب اور امریکہ کے مقابلے میں ہمارے سماج کے مسائل کچھ مختلف ہیں۔ چونکہ سوشل میڈیا گلوبلائزڈ ہے اس لئے وہاں کے ڈیجیٹل رسوم یہاں آنا عین فطری مظہر ہے مگر ان کو کلچرل پاجامہ پہنانا ہماری ذمہ داری ہے، سو وہ شروع ہو گئی۔یہاں پہ قصور میں زینب بچی کیساتھ زیادتی والا واقعہ ہوا۔ اس کی سب نے مذمت کی مگر ان دنوں سوشل میڈیا پہ ایک پول بن گیا کہ زینب کے واقعے پیچھے پورا ایک گروہ ہے جو کہ بچوں کی ویڈیوز بلیک مارکیٹ میں بیچتا ہے۔ اب یہ گروہ کہاں ہے اور اس کے ثبوت کی کچھ ویڈیوز کہاں سے ملیں گی، کسی کو علم نہیںمگر چونکہ یہ کانسپریسی وائرل ہو گئی تھی اس لئے اس کی وجہ پوچھنے والا یا اس پر تکنیکی اعتراض کرنے والاہر شخص اس ریپ کرنے والے کا ساتھی قرار دیا جانے لگا۔ ’’کچھ سال پیچھے چلتے ہیں۔ 2018 کے الیکشن سے پہلے تک، ملک پہ نوازشریف کی حکومت ہے۔ پانامہ کیس چل رہا ہے۔ ابھی کیس کا فیصلہ نہیں آیا مگر سوشل میڈیا پہ اس بات کا فیصلہ ہو چکا تھا کہ نوازشریف ایک چور اور ڈاکو ہے۔ اب جو شخص نواز شریف کا حامی نہ ہونے کے باوجود بھی اس بات کا ثبوت مانگے کہ نوازشریف چور کیوں ہے؟
تو وہ سیدھا ملک دشمن ہے اور اس کوانڈین ایجنسی را سپورٹ کر رہی ہے۔ ثبوت؟ وہ تو نہیں ہیں مگریہ تھیوری چونکہ وائرل ہے، اس لئے درست بات ہے۔ ’’اسی طرح حالیہ واقعہ جس کی بنا پہ اتنا کچھ یاد آیا کہ مسجد نبویﷺ کے باہر یا مسجد نبویﷺ کے کمپائونڈ میں کچھ لوگوں نے ہلڑ بازی شروع کی۔ میرے نزدیک انہوں نے غلط کیا۔ اس کی مذمت کرنا بنتی ہے سو بہت سے لوگوں نے کی مگر اس دوران ایک ٹرینڈ شروع ہوتا ہے کہ جو اس واقعے پہ خاموش رہے گا وہ میری لسٹ میں نہیں رہے گا۔ حالانکہ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کچھ لوگ یہ سن کر یا وڈیو دیکھ کر اتنے دکھی ہوگئے کہ وہ اس پر بول کر مزید دکھی نہیں ہونا چاہتے۔
’’جو لوگ یہ مطالبہ کر رہے ہیں وہ خود تین سال پہلے اسی طرح کے ایک واقعہ پہ چپ تھے تب مریم نواز شریف اور رانا ثنااللہ نے اس واقعے کو درست قرار دیا تھا۔ اب کچھ لوگوں نے ان کے کلپس اور ٹوئیٹ شئیر کرنا شروع کر دئیے کہ حالیہ واقعہ کو تو غلط کہہ لیتے ہیں مگر اس کا کیا کریں جو اسی چچا کی بھتیجی نے کہا تھا کیا وہ غلط ہے؟ اس مطالبے کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جیسا کہ وہ ہمیشہ کے لئے مقدس مقامات پہ یوں ایسے کرنے کو غلط کہلوانا چاہتے ہوں۔ مگر نہیں، ان کو وائرل ٹرینڈ والوں نے مذہب دشمن کہنا شروع کردیا۔
وجہ؟ پتا نہیں، مگر یہ سوال کرنے والے غلط ہیں ۔کیوں؟ ’’معاشرے میں یہ پولرائزیشن بہت ہی خطرناک ہے۔ ہر ایشو پہ اگر آپ وائرل ٹرینڈ کا حصہ نہیں ہیں تو لوگ جینے کا حق چھیننے لگ جاتے ہیں۔ یہ بہت ہی غلط چلن چل نکلا ہے۔ مذہب، کرنٹ افئیر یا سیاست پہ ضروری ہو ہی نہیں سکتا کہ ہر کوئی آپ کی پسند کا نظریہ رکھ سکے۔ ایسے میں آپ ہر کسی کو یوں انفرینڈ، بلاک، ملک دشمن، سماج دشمن یا مذہب دشمن کا ٹائٹل دینے پہ آگئے تو کل کلاں آپ کے پاس نئی سوچ نہیں بلکہ ایک دبی سوچ ہو گی جو محض مشہور مؤقف پہ ہی بولنے کی ہمت رکھے گی اور مخالف رائے نہیں رکھے گی۔اس وجہ سے معاشرے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ فری سپیچ ہر کسی کا حق ہے مگر اس کی آڑ میں صرف اپنے منہ کے علاوہ سب منہ بند کرنے کی روش غلط ہے۔
’’ہم سب کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ مخالف نظریے بھی اہم ہیں۔ اگر کوئی ایک ایشو پہ آپ کو رائے نہیں دے رہا تو بھی نارمل بات ہے۔ اگر اس ایشو پہ مخالف رائے رکھتا ہے تب بھی اور اگر وہ اس ایشو کو قابل بحث نہیں سمجھتا تب بھی، اگر آپ لٹھ لیکر پیچھے نکلنے کی سوچ پہ کارفرما رہے تو باپ بیٹوں کی جان لیں گے اور بیٹے باپ کی، اور ایسا ہوتا آ رہا ہے۔ ’’مغرب تو چلیں پولرائزیشن کو اپنے تئیں کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے مگر ہمارے ہاں اس ایشو کی وجوہات تک کو ڈسکس نہیں کیا جاتا جو کہ الارمنگ ہے۔ ہمیں تب تک فری سپیچ کا حق نہیں چھیننا چاہیے، جب تک یہ کسی کی جان و مال کے لئے خطرہ نہیں ہے ورنہ ہم شدت پسندی کی ایک نئی لہر کا شکار ہوجائیں گے بلکہ ہو رہے ہیں۔ اس شدت پسندی سے بچنا چاہیے۔ ہر کسی کو حق دیں کہ وہ مخالف مؤقف رکھ کر بھی آپ کا دوست رہے۔ دوست رہنے کے لئے آپ کی "وائرل” رائے کا ساتھ دینا ضروری نہیں ہے۔‘‘
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر