مئی 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انسانی اقدار کو سربلند کرنے کی ضرورت||ظہور دھریجہ

آج میں سرائیکی کی کتاب ’’سنیہا‘‘ جو کہ اسلم بھٹی کی تصنیف ہے میں سے چنداقوال زریں کا اُردو ترجمہ پیش کررہا ہوں۔ان اقوال پر عمل کرنے سے کشیدگی کا ماحول بہت حد تک کم ہوسکتا ہے اور انتہاء پسندی ،عدم برداشت سے ہم چھٹکارہ پاسکتے ہیں۔

ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر دل خون کے آنسو روتا ہے ،عمران خان کے دور اقتدار کی تبدیلی تلخ یادیں رقم کر رہی ہے ،رات کو 12بجے عمران خان کی ایوان وزیراعظم سے بنی گالہ آمد ،پنجاب اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر چوہدری پرویز الہٰی کے حامیوں کا تشدد اور بعد میں چوہدری پرویزالہٰی پر مخالف فریق کا تشدد اور لندن میں جمائمہ خان کے گھر کے ن لیگیوں کی ہلڑ بازی اور مدینہ منورہ میں وزیراعظم کی قیادت میں جانے والے وفدکے خلاف تحریک انصاف کے افراد کی باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ نعرے بازی سے پاکستانیوں کے سر شرم سے جھُک گئے۔یہ تو وہ جگہ ہے جہاں سانس بھی آہستہ لیا جاتا ہے کہ کہیں بے ادبی نہ ہو جائے مگر جو کچھ ہوا بہت غلط ہوا ہے ،لیڈر صاحبان کی تو اپنی دوکانداریوں کے مسئلے ہیں مگران سے کوئی پوچھے کہ وہاں کس جرم میں پکڑے گئے اور آگے سزائیں بھی ہونگی ۔
بہتریہی ہے کہ انسانی اقدار کو بلند کیا جائے۔ خواجہ فریدسرائیکی کے بہت بڑے شاعر ہیں،انسان دوستی کے حوالے سے ان کا ایک واقعہ سنہری حروف کے ساتھ لکھنے کے قابل ہے۔واقعہ یہ ہے کہ نواب آف بہاولپور نے غلطی پر ایک شخص کو ریاس بدر کردیا وہ شخص نواب آف بہاولپور کے مرشدخواجہ فرید کی خدمت میں حاضر ہوا اور التجا کی مادر وطن سے میری بے دخلی کے حکم کو واپس کرایا جائے،خواجہ فرید نے اس موقع پر بادشاہ کو ایک سرائیکی میں خط لکھا جو دنیا کے مختصر ترین خطوں میں شمار ہوتا ہے۔جس میں نا کوئی القاب نہ کوئی خطاب اور نہ دعا سلام ۔آپ نے لکھا صادق زیر تھی زبر نہ بنڑ ،متاں پیش پووی گویاخواجہ فرید نے اعراب کے ذریعے پوری کائنات کا فلسفہ بیان کردیا ۔آج کے سیاسی بحران کے موقع پر سیاستدانوںکو اسی فلسفے پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔آج میں سرائیکی کی کتاب ’’سنیہا‘‘ جو کہ اسلم بھٹی کی تصنیف ہے میں سے چنداقوال زریں کا اُردو ترجمہ پیش کررہا ہوں۔ان اقوال پر عمل کرنے سے کشیدگی کا ماحول بہت حد تک کم ہوسکتا ہے اور انتہاء پسندی ،عدم برداشت سے ہم چھٹکارہ پاسکتے ہیں۔
 ٭خوش اخلاق انسانوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنا کمال نہیں ہے بلکہ بے اخلاق کے ساتھ اخلاق سے پیش آنا اصل کمال ہے۔ ٭انسان کا اصل تعارف اس کا اخلاق ہوتا ہے،جیسا کہ پھول کسی قسم کا ہو اور اس کا کوئی بھی رنگ ہو اس کی اصل پہچان اس کی خوشبو ہے۔ ٭ ہمیشہ غلط فیصلوں سے فاصلے پیدا ہوتا ہیں، خلوص ، محبت اور پیار نے ہمیشہ فاصلوں کو کم کیا اور قربتیں پیدا کیں۔ ٭ انسان ایک دوکان ہے، زبان اس کا تالا ہے۔ تالا کھلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دکان سونے کی ہے یا کوئلے کی۔ ٭ انسان چاہے آسمان پر پہنچ جائے پر اس کی عظمت زمین کو چھونے میں ہے۔
 ٭ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ کلام میں نرمی اختیار کروکہ سخت کلامی کا اثر زہر سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ ٭ اچھائی ہمیشہ اچھے کردار کے لوگ کرتے ہیں، اچھا کردار ایسا ہیرا ہے جس سے پتھر بھی موم ہو جاتا ہے۔
٭ محبت کسی فلسفے کی محتاج نہیں وہ علم کی مانند ہوتی ہے جتنا خرچ کرو اتنا بڑھتی ہے۔ ٭ نفرت دوسروں سے پہلے خود کو جھلساتی ہے ٭تلوار کا زخم مندمل ہو جاتا ہے زبان کا نہیں۔ ٭ کہاوت ہے کہ پہلے تولو پھر بولو اور اللہ نے بھی حسن کلام کا حکم فرمایا ہے۔ ٭ سچائی ایک حقیقت ہے جسے دبایا جا سکتا ہے مٹایا نہیں جا سکتا۔ ٭ جو دوسروں کے عیب تلاش کرتا ہے اس کے اپنے عیب اس سے اوجھل ہوتے ہیں۔ ٭ جو تعلیم کی مشقت نہیں اٹھا سکتا اُسے ذلت کا بار اٹھانا پڑتا ہے۔ ٭ کسی دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالو کہ پہلے تمہارے اپنے کپڑے خراب ہوں گے ۔
 ٭ انسانیت کا سب سے زیادہ انسانیت سے محبت کے سبق کی ضرورت ہے۔ ٭ برے کام کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہئے ورنہ آدمی کو پچھتاوے کی موت جیتے جی مار دیتی ہے۔ ٭ اپنی سوچ کو پانی کے قطروں کی طرح صاف شفاف رکھو کہ قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے ٭ نفرت کو ہزار بار موقع دو کہ وہ محبت میں تبدیل ہو جائے مگر محبت کو نفرت میں تبدیل ہونے کا ایک بھی موقع فراہم نہ کرو۔ ٭ وہ لوگ عظیم ہوتے ہیں جو اپنی غلطی تسلیم کر لیتے ہیں۔ ٭ نصیحت ہمیشہ اس شخص کیلئے ہوتی ہے جو اسے قبول کرتا ہے۔ ٭ بدترین شخص وہ ہے کہ جس کی بدزبانی سے لوگ محفوظ نہ ہوں۔
٭ جب عقل مر جاتی ہے تو آدمی کمینہ ہو جاتا ہے اور پھر بے عزتی اُسے اعزاز لگتی ہے۔ ٭ بے عقل لوگ ہمیشہ عقل مندوں سے لڑتے ہیں ، انجام بے عزتی ہوتا ہے۔ ٭سچ کڑوا ہوتا ہے لیکن اس کی ادائیگی مشکل ہوتی ہے۔ ٭ آزادی کا ایک پل غلامی کے ہزار سال سے بہتر ہے۔ ٭ بے وقوف لوگ سکون کیلئے دولت اکٹھی کرتے ہیں مگر بے سکون اور برباد ہو جاتے ہیں۔ ٭ وقت اور حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے۔ ٭ جتنا آپ زندگی میں کم بولیں گے ، آپ کی بات اتنی زیادہ سنی جائے گی ۔ ٭ انسان کا مقدر اس کی ہاتھوں کی لکیروں میں نہیں ، اس کی ہاتھ کی محنت سے ہے۔ ٭فضول بحث بہترین دوستوں کو ضائع کرنے کا ذریعہ ہے ۔

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

%d bloggers like this: