نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کراچی خودکش حملہ، سوالوں اور تاریخ کا رقص ||حیدر جاوید سید

ہمیں (یعنی آبادی کے مختلف الخیال طبقات) کو موجودہ صورتحال میں کرنا کیا چاہیے؟ سادہ سا جواب ہے ریاست سے کہنا چاہیے کہ طاقت کا استعمال مسئلہ کا حل نہیں مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے باہر خودکش حملے کے بعد سامنے آنے والی اطلاعات کی روشنی میں چند بلوچ دوستوں سے ابتدائی معلومات کے لئے رابطہ کیا تو بدقسمتی سے ان کی فراہم کردہ معلومات بس ’’ہوائی فائر جیسی‘‘ ثابت ہوئیں۔ اس پر معذرت تو کرنا ہی پڑی لیکن ساکھ بھی متاثر ہوئی۔ خودکش حملہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ بلوچ خاتون نے کیا۔ شاری بلوچ عرف برمش کے تعارف کی حامل یہ خاتون ایم فل ایجوکیشن اور ایم ایس سی زویالوجی تھیں۔

اپنے آبائی علاقے کے ایک سکول میں معلمہ کے طور پر فرائض بھی ادا کرتی رہیں۔ شادی شدہ اور 2بچوں کی والدہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون خودکش بمبار کیوں بنیں؟

اس سوال پر منگل کی سپہر سے بحث جاری ہے۔ ایک طبقہ اس عمل کا حامی ہے۔

ایک طبقے کی رائے میں بلوچستان کے مسائل تلخ حقیقت ہیں مگر خودکش حملہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کی تائید نہیں کی جاسکتی۔

تیسرا طبقہ ہمارے انجمن محبان حب الوطنی کا ہے وہ مسائل کے وجود سے ہی انکاری ہے۔ اس طبقے کے خیال میں یہ پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور سلامتی پر حملہ ہے۔

ہر تین طرح کی آرا رکھنے والوں کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں سوالات ہیں اور کچھ جوازات بھی لیکن تینوں اپنے سوالات کے ساتھ کچھ کچھ جذباتی بھی ہیں۔

ہمارے ہمزاد فقیر راحموں کے بقول

’’بے رحمی، درندگی اور شقاوت کی ہر حد عبور کرجانے کے بعد کسی ایسے طبقے سے جو نسل کشی کا شکار بھی ہو وہ مزاحمت کے دوران حدود کا خیال رکھے گا، کی توقع جاگتی آنکھوں کے خواب کے سوا کچھ نہیں‘‘۔

گزشتہ سپہر اس خودکش حملے کے بعد عرض کیا تھا کہ

’’کسی کو اچھا لگے یا برا کڑوا سچ یہی ہے کہ فیڈریشن میں آباد قوموں اور ریاست کے درمیان مکالمے میں جتنی تاخیر ہوگی نقصان اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ ریاست کو فاتحین والا تکبر ترک کرکے اس حقیقت کوتسلیم کرنا ہوگا کہ فیڈریشن کے اصل مالک یہاں بسنے والے زمین زادے ہی ہیں۔ انہیں وسائل اور حق حکمرانی سے محروم رکھ کر مسلط راج پاٹ زیادہ دیر نہیں چلتا یہی انسانی تاریخ کا سبق ہے‘‘۔

اس رائے سے بہت سارے محترم دوستوں نے اختلاف کرتے ہوئے سوال کیا، تربیت کس نے دی، تکنیکی سہولت و معاونت کے ساتھ معلومات کس نے فراہم کیں اور یہ کہ یہ واقع سامراجی پراکسی وار کا حصہ ہے۔

عرض کیا اس پر مکالمہ ہوسکتا ہے مگر اس سے قبل کھلے دل کے ساتھ یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ریاست اور جغرافیائی حدود میں آباد قوموں کے درمیان خلیج موجود ہے کہیں کم اور کہیں زیادہ۔ ہم جب تک اس تلخ حقیقت کوتسلیم نہیں کرلیتے مکالمہ بے معنی ہوگا۔

اس پر دو آرا نہیں کہ دہشت گردی بہرطور دہشت گردی ہے۔ دہشت گردی کی اقسام اور وجوہات پر سر کھپانے کی بجائے کیوں نہ ہم یہ سوال اٹھائیں کہ معاملات یہاں تک کیسے پہنچے کہ دو بچوں کی ماں اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون جو معلمہ بھی تھیں اس انتہا تک کیوں پہنچیں؟

بلوچستان کے سلگتے مسائل، ریاست کی پالیسیوں اور اقدامات پر ایک سے زائد آراء ہیں۔ بدقسمتی سے ان ایک سے زائد آراء پر ہمارے ’’آزاد‘‘ میڈیا پر کبھی مکالمہ نہیں ہوا۔ اخبارات کے صفحات میں آپ کو بلوچستان کے حوالے سے دو طرح کی خبریں قدرے نمایاں دیکھائی دیں گی ایک سکیورٹی فورسز پر حملے کی اور دوسری سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی کی۔

آگے بڑھنے سے قبل میں آپ کے سامنے ایک سوال رکھتا ہوں۔ آپ میں سے کتنے لوگوں کو حالیہ سانحہ چاغی کے بارے میں کُلی معلومات ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ سانحہ چاغی کیسے پیش آیا۔ اور اس کے مقتولین کے جنازے میں خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلہ میں دو تین سو فیصد زیادہ کیوں تھی؟

اختر مینگل نے قومی اسمبلی تک میں اس پر بات کی مگر کیا ہوا؟

سرتسلیم خم یہ ہمارا ملک ہے ہم سبھی کا، ان سب کا جو کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں سے آکر انڈس ویلی (اب پاکستان) میں آباد ہوئے۔ ہزاریوں، صدیوں یا پون صدی سے لیکن کیا اس فیڈریشن پر زمین زادوں کا حق ملکیت تسلیم کیا گیا؟

اس بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ ذاتی طور پر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ دو بچوں کی والدہ کے خودکش بمبار بننے اور حملہ میں بے گناہوں کے مارے جانے پر دُکھی ہوں۔

ہوسکتا ہے آپ میری رائے کو منافقت پر مبنی قرار دیں۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ خود میری فکر اس حوالے سے ابہام کا شکار ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ میں ابہام کا شکار نہیں ہوں۔

سال 2009ء اور 2010ء میں بلوچستان کے سلگتے مسائل اور دوطرفہ تصادم کے پس منظر کو سمجھنے کیلئے میں نے بلوچستان کے دوردراز علاقوں تک کا سفر کیا تھا جو دیکھا سنا اور مکالمے سے جو سمجھ آیا اسے گیارہ بارہ اقساط میں روزنامہ ’’مشرق‘‘ پشاور کے لئے رقم کیا۔ مجھے یاد ہے کہ 12 ویں قسط کی اشاعت والے دن مجھے دفتر کی جانب سے یہ پیغام موصول ہوا کہ

’’آپ اب دیگر مسائل پر لکھئے ادارہ بلوچستان کے ایشو سے متعلق آپ کی تحاریر مزید شائع کرنے سے قاصر ہے‘‘۔

پچھلے برسوں کے دوران درجنوں سے زائد بار دوستوں کے یہ طعنے بھی سنے کہ بڑے آزادی پسند بنتے ہو بلوچ ایشو پر کیوں نہیں بات کرتے۔ حالانکہ توفیق مطابق اس ضمن میں گاہے بگاہے عرض کرتا رہتا ہوں۔

ہم آگے بڑھتے ہیں۔ صحافت و سیاسیات کے طالب علم کی حیثیت سے میری رائے یہی ہے کہ فیڈریشن میں آباد قوموں کے مسائل، ریاست سے ناراضگی و شکایات، ریاست کے اپنے کردار اور دیگر معاملات پر بات ہونی چاہیے۔

ریاست اگر کالعدم ٹی ٹی پی سے بات کرسکتی ہے، سینکڑوں افراد کے قاتل عصمت اللہ معاویہ کو عام معافی دے سکتی ہے تو پھر ناراض (چلیں ریاست کے بقول دہشت گرد) بلوچوں سے بات کیوں نہیں ہوسکتی؟

یہ جو طعنہ ہے نہ کہ بلوچستان کی صورتحال کے ذمہ دار سردار ہیں، یہ طعنہ دینے والے ریاست سے یہ ضرور سوال کریں کہ سرداروں کو اپنی اپنی ضرورت پر پالا کس نے؟

جب سوچ یہ بن جائے کہ 35/40 لاکھ افراد اگر باہر سے (بیرون بلوچستان سے) لاکر بسادیئے جائیں تو سارا مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا۔

یہ بات ہوائی ہرگز نہیں سال بھر قبل جب ایک اہم اجلاس میں یہ بات کی گئی تھی تو میں نے اس کالم میں عرض کیا تھا کہ یہ درست سوچ ہے نہ مسلہ کاحتمی حل بلکہ یہ سامراجی ذہنیت کے تکبر کا اظہار ہے۔

لاریب خودکش حملے کی حمایت نہیں کی جاسکتی لیکن اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ آخری اور انتہائی راستہ کب اختیار کیا جاتا ہے۔

بی ایل ایف کے مجید بریگیڈ نے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ حالیہ عرصہ میں بلوچستان کے اندر اس گروپ نے ریاستی اداروں کے خلاف متعدد کارروائیاں کیں۔ قبل ازیں کراچی سٹاک مارکیٹ والی کارروائی سمیت ایک سے زائد واقعات کی ذمہ داری بلوچ تنظیموں نے قبول کی

جیسا کہ کچھ عرصہ قبل انارکلی لاہور میں ہونے والی کارروائی کی ذمہ داری قبول کی گئی۔

ہمیں (یعنی آبادی کے مختلف الخیال طبقات) کو موجودہ صورتحال میں کرنا کیا چاہیے؟ سادہ سا جواب ہے ریاست سے کہنا چاہیے کہ طاقت کا استعمال مسئلہ کا حل نہیں مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے۔

بلوچستان کے مسائل راتوں رات پیدا نہیں ہوئے یہ ریاست قلات کو پاکستان میں ضم کرنے والی رات سے شروع ہوئے تھے۔ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ ان کی سنگینی میں اضافہ ہوا۔

منگل کے خودکش حملے کو ماضی کے واقعات اور پالیسیوں سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ ہمیں فتوے دینے اور تبرے سے گریز کرنا ہوگا۔

ہاں ہم نے اگر آواران میں دو سال قبل ہوئی بمباری پر سوال اٹھایا ہوتا تو آج ہمارے سوال کی اخلاقی طاقت زیادہ ہوتی۔

مجھے معاف کیجئے گا فقط دکھ ہی اور طرح کے نہیں ہیں دامن قاتل کی ہوا بھی قدرے مختلف ہے۔

اگر مگر چونکہ چنانچہ کے بغیر سوال اٹھانے ہوں گے اس کے بغیر دوریاں ختم ہوں گی نہ جوابدہی کا خوف تکبر کے ماروں کو حدود میں رکھنے میں معاون ثابت ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:

About The Author