حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکرر چند سوال آپ کے سامنے رکھنے سے قبل دو باتیں عرض کرنا ضروری ہیں، اولاً یہ کہ ’’اسٹیبلشمنٹ کی مبینہ غیر جانبداری پچھتر سال کے دوران اس کے پیدا کردہ مسائل کا مداوا ہیں نہ کفارہ۔
اس فیڈریشن کی بقا اور محفوظ مستقبل کی ضمانت صرف اور صرف دستور کی بالادستی، جمہوریت، خلق خدا کی حاکمیت کا احترام ہے۔ جرنیلی یا طبقاتی جمہوریت ہرگز نہیں‘‘۔
ثانیاً دنیا بھر میں امریکی اسٹیبلشمنٹ کے ناقد کی شہرت رکھنے والے دانشور نوم چومسکی کی رائے ہے پاکستان کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے نوم چومسکی کہتے ہیں
’’دنیا میں کسی بھی غیرمعمولی سرگرمی کو سی آئی اے اور مغرب کے منصوبوں سے منسوب کرنے کا رجحان ہے۔ عمران خان کے خلاف ’’بغاوت‘‘ کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہے نہ ہی امریکہ میں سابق پاکستانی سفیر اسد مجید کے خط میں کسی سازش کا ذکر ہے۔
نوم چومسکی نے کرتارپور امن راہداری کے خلاف بھارتی پروپیگنڈے کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ بھارت خطے میں مذہبی ہم آہنگی کے لئے اٹھائے جانے والے اقدامات کی مخالفت کی بجائے اپنے ہاں مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا نوٹس لے”۔
اب آیئے ان سوالات کی طرف، ان کالموں میں 27مارچ کے بعد تفصیل کے ساتھ اس حوالے سے عرض کرتا آرہا ہوں بار دیگر غور کیجئے کہ بقول عمران خان 7مارچ کو دھمکی آمیز خط آیا، 8مارچ کو اپوزیشن نے میرے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروادی۔ وہ پچھلے ایک ماہ سے امریکی سازش، دھمکی اور غیرت کا بیانیہ بنائے اپنے حامیوں کو یہ باور کروارہے ہیں کہ محب وطن وہی ہے جو ان کے ساتھ کھڑا ہے باقی سب غدار ہیں۔
ایک سوال تو یہ ہے کہ جب مبینہ دھمکی آمیز خط 7مارچ کو موصول ہوگیا تھا تو انہوں نے 27مارچ کے اپنے اسلام آباد کے جلسہ میں اس خط کو لہرانے کا انتظار کرنے کی بجائے 8سے 26مارچ کے درمیان وفاقی کابینہ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس کیوں نہ بلوایا۔
27مارچ کو مرضی کا موقف اور اس پر عوامی رائے بنانے کی کوشش کے بعد نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس کیوں بلوایا۔ سازش ہوئی تھی تو اس کا بھانڈہ پھوڑنے میں 20دن کیوں لگائے؟
ان کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہے کہ اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایک سازش کے تحت سفارتی کیبل میں ردوبدل کرائی۔ یہاں ساعت بھر کے لئے رکئے۔ 8مارچ کو ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوئی اس کے بعد انہوں نے کم از کم تین تقریبات میں خطاب کرتے ہوئے (یہ خطابات ریکارڈ پر موجود ہیں) کہا
” میں تو خدا سے دعا مانگ رہا تھا اپوزیشن میرے خلاف تحریک عدم اعتماد لائے، اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کرلی، اب دیکھیں میں ان کے ساتھ کرتا کیا ہوں۔ ایک بال پر تین وکٹیں اڑادوں گا۔ یہ بھی کہا تھا یہ آصف علی زرداری میری بندوق کی ’’نشست‘‘ پر ہے۔
جب اللہ سے مانگی دعائیں مراد بر لائیں تو پھر امریکی سازش دھمکی اور غداری کے سودے کیوں؟
ہم اس بحث میں نہیں پڑتے کہ 9اپریل کی شام سوا سات بجے اور پھر ساڑھے دس بجے ایوان وزیراعظم میں کیا ہوا۔ اس سے بہت پہلے عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے غیرجانبدار رہنے کے عندیہ پر سوات میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے‘‘۔
یعنی جب تک اسٹیبلشمنٹ آپ کی مربی و محسن اور مددگار رہی تب تک وہ عظیم اور محافظ تھی؟ ہم اس پر بھی غور کرتے ہیں نہ سوال اٹھاتے ہیں کہ 9اپریل کے بعد تحریک انصاف کے اندرون و بیرون ملک موجود حامیوں نے فوج کے خلاف بیانیہ کیوں اپنایا نہ ہی عسکری شعبہ کے سابقین کی حب الوطنی اور امریکہ دشمنی کی باسی کڑی میں آئے ابال پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وجہ صاف سیدھی ہے عمران خان کے حامیوں کا فوج مخالف بیانیہ (اب خان کہہ رہا ہے کہ فوج کے خلاف نعرے بازی نہ کی جائے) اصل میں اسٹیبلشمنٹ کے تجربوں کا انعام ہے۔
آپ پچھتر سال کی ملکی تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیئجے، اسٹیبلشمنٹ نے جتنے تجربے کئے وہ بالآخر اس کے گلے پڑے ایک تجربہ محفوظ اثاثوں والا تو اب تک گلے پڑا ہوا ہے۔
اصولی طور پر تجربات والی لیبارٹری اب بند کردی جانی چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ہر تجربے نے نفرت اور تقسیم بڑھائی۔
تازہ تجربہ تحریک انصاف ایک نئی نفرت بھری تقسیم کو بڑھاوا دے رہا ہے۔
مکرر عرض ہے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے دو اجلاسوں ایک عمران کی صدارت میں ہوا دوسرا اب شہباز شریف کی دونوں کے اعلامیوں کو سامنے رکھ کر غور کیجئے۔ سفارتی امور کے کسی ماہر سے یہ ضرور دریافت کیجئے کہ سفارتی زبان میں مداخلت کسے کہتے ہیں۔
عمران خان دسمبر 2021ء سے جانتے تھے کہ اپوزیشن کے مختلف الخیال دھڑے ان کی حکومت کے خلاف متحد ہورہے ہیں وہ فروری میں ایجنسیوں اور ذرائع ابلاغ کے توسط سے آگاہ تھے کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آرہی ہے۔ اپنی حکومت کی ناقص کارکردگی اور دیگر مسائل ان کے سامنے تھے۔
کرکٹ کی اصطلاحات کو سیاسی رنگ بازیوں کے طور پر مجمعوں کے سامنے پیش کرکے داد تو سمیٹی جاسکتی ہے تبدیلی کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔
آگے بڑھنے سے قبل ایک سادہ سا سوال ہے۔ امریکی سازش اور دھمکی کے سامنے ڈٹ جانے والے عمران خان کیا جرات کرکے اس قوم کو یہ بتاسکتے ہیں کہ انہوں نے اسد عمر کو وزارت خزانہ سے ہٹاکر ڈاکٹر حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ کیوں بنایا اور اس کے لئے انہیں کس نے کہا تھا؟
عمران خان اگر صرف یہ ایک بات عوام کے سامنے بیان کردیں تو مان لینے میں کوئی عذر نہیں رہے گا کہ امریکی سازش ہوئی ہے مگر اس کا کیا کریں کہ وہ کل تک چیف الیکشن کمیشن کو اپنا انتخاب قرار دیتے تھے اب کہہ رہے ہیں ہمارے اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈلاک آگیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ نے مجھے سکندر سلطان راجہ کا نام دیا تھا۔
عمران خان کو آئی ایم ایف پروگرام کے حصول میں ہوئی غلطی بھی مان لینی چاہیے مگر ٹھہریئے یہ الگ موضوع ہے۔ کیا وہ اس بات سے انکار کرسکتے ہیں کہ چند دن قبل انہوں نے اپنے حامی اینکروں، یوٹیوبرز اور دیگر صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں یہ نہیں کہا کہ سفارتی کیبل پر صرف میرے موقف کا دفاع کیاجائے۔ اور اگر حکومت نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس طلب کرکے کوئی اعلامیہ جاری کرتی ہے تو اسے حقارت کے ساتھ مسترد کردیا جائے۔
یہ بھی چھوڑ دیجئے، کیا یہ بھی غلط ہے کہ شاہ محمود قریشی نے چند دن قبل امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید سے (جو نیشنل سکیوٹری کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں) ملاقات کی خواہش ظاہر کی جو انہوں نے مسترد کردی جس کے بعد ایک مخصوص ٹی وی چینل پر اسد مجید کے جعلی بیانات اچھالتے ہوئے امریکی سازش کے جھوٹے بیانیہ کا دفاع کیا گیا؟
عمران خان کے اولین سیاسی استاد جنرل حمید گل مرحوم تھے، سیاسی عمل، جمہوریت اور دستور سے نفرت میں اپنی مثال آپ اس مرحوم نے ریاستی وسائل سے سیاستدانوں کی کردار کشی کا جو سلسلہ شروع کروایا تھا اس کا مقصد ایک پاکیزہ مسیحا و نجات دہندہ عوام کے سامنے پیش کرنا تھا جو بالآخر طویل پروپیگنڈہ مہم کے بعد اکتوبر 2011ء میں پاشا اینڈ کمپنی نے مینار پاکستان پر پیش کردیا۔
ہر دوسرے شخص کا ذکر نفرت و حقارت کے ساتھ کرتے عمران خان خود پر لگے الزامات کا کبھی جواب نہیں دیتے۔ اصولی طور پر جب وہ دوسروں سے جواب مانگتے ہیں تو انہیں بھی جواب دینا چاہیے۔
ایک بار پھر یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ مبینہ امریکی سازش کا ڈرامہ اصل میں تحریک عدم اعتماد کو رگڑا لگانے کے ساتھ فارن فنڈنگ کیس سے گردن بچانے اور امریکہ میں ابراج گروپ والے عارف نقوی کے خلاف جاری تحقیقات میں اپنے کردار کی پردہ پوشی کے لئے رچایا گیا۔
یہی تلخ حقیقت ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ وہ جس تقسیم کی بیناد رکھ چکے یہ فیڈریشن کو تو مہنگی پڑے گی ہی لیکن خود انہیں بھی مسائل سے دوچار ہونا پڑے گا، یہی تلخ حقیقت ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر