بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خارجہ کا عہدہ ۔
تحریر آفتاب نواز مستوئی جام پور ۔۔۔۔۔
بلاول بھٹو زرداری کے وزیر خارجہ بننے پر ان کی اپنی پارٹی کے کارکن تنقید اور مایوسی کا اظہار کررہے ہیں
ان کا خیال ہے کہ مستقبل کے وزیر اعظم اور پارٹی سربراہ کو یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے تھا ۔*
پارٹی کے مسلسل اپوزیشن میں رہنے اور ہر دور کے حکمرانوں کی انتقامی کاروائیوں کا شکار کارکنان کافی حد تک خوشی کا اظہار کر رہے ہیں
اس طبقے کا خیال ہے کہ جاگیرداروں ‘ تمن داروں کے مسلسل اقتدار میں رہنے سے ان کے حاشیہ برداروں کی چیرہ دستیوں اور بالخصوص دیہی علاقوں میں
اجتماعی ترقیاتی کاموں میں تسلسل کے ساتھ رکاوٹوں کا کسی حد تک ازالہ ممکن ہو پائے گا
*جبکہ ان کے مخالفین مختلف انداز میں طنز کے نشتر برسا رہے ہیں
‘ سیاست میں مختلف نظریات کے حامل لوگ ہمیشہ اپنی تشنگی کیلیئے مختلف حربے اپناتے رہتے ہیں
لیکن اس وقت پاکستانی سیاست میں ایک دوسرے کے مخالفین تمام اخلاقی جمہوری قدروں کی حدیں پار کر چکے ہیں
جوکہ ہمارے نزدیک ایک تشویشناک امر ضرور ہے ۔
پیپلز پارٹی یا کسی بھی سیاسی جماعت اپنی کوئی وابستگی تو نہیں اور شاید ہمارے ” ذاتی ناقدین اور حسب عادت وروایت حاسدین ” کی طبع نازک پر یہ چند سطریں گراں گزریں
مگر بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق ” اظہار رائے کی آزادی کا حق ہر شہری کو حاصل ہے ” کو مد نظر رکھتے ہوے یہ کہنے میں قطعی کوئی باک نہیں کہ یہ فیصلہ بروقت اور درست ہے
کیونکہ یہ بلاول یا ان کے والد کا ” آمرانہ یا مفاد پرستی پر مبنی ” فیصلہ نہیں بلکہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا ( کافی سوچ وبچار اور بحث وتمحیث کے بعد ) فیصلہ ہے ۔۔
ہماری رائے میں بلاول شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بیگم نصرت بھٹو کا نواسہ ہے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا بیٹا ہے
سردار حاکم علی خان زرداری کا پوتا اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کا بیٹا ہے عالمی سطح پر ان تمام نامور شخصیات کا اپنا ایک مقام ہے اور اسی حوالے سے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوے
پاکستان کی تاریخ کا سب سے کم عمر وزیر خارجہ اس مملکت خداد اد کی سفارتی تنہائی کو دور کرنے میں کافی حد تک ممدو معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔
موجودہ دور میں آصف علی زرداری کو سیاست کا ” گرو ” کہا جاتا ہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے کہ گرو اپنے بیٹے کو خوامخواہ اس پر خار وادی میں دھکیل دے ؟
بلاول بے شک اپنی جماعت کے ورکرز کا ہر دلعزیز لیڈر ہے پارٹی چئیرمین بھی ہے پارٹی پر اسکی گرفت کافی حد تک مضبوط بھی ہے
جسکا عملی ثبوت کراچی سے اسلام آباد تک دس روزہ لانگ مارچ سب پر عیاں ہے اس دوران ملکی املاک کا ایک گملہ تک نہیں ٹوٹا کسی قسم کی ہڑبونگ بد نظمی
گالم گلوچ فحش گفتگو سامنے نہیں آئی اور اس قسم کے رویوں سے ہی قیادت اور قائد کی بصیرت اور حکمت عملی واضح ہو جاتی ہے۔
اب اک نظر اس پر کہ بلاول نے شہباز شریف کی کابینہ میں وزارت کا حلف کیوں اٹھایا ؟ جبکہ ہر شخص اچھی طرح جانتا ہے کہ
سیاست میں کوئی بھی بات حرف آخر نہیں ہوا کرتی ویسے بھی نامور فلاسفر ارسطو کے مطابق ” حالات کے ساتھ ساتھ ڈھلنے کی صلاحیت کو لچک کہتے ہیں
اور جس معاشرے میں لچک نہ ہو وہ نا پائیدار ہوتا ہے ” ہمارے ذاتی خیال کے مطابق کسی بھی معاملے میں ضد ‘ ہٹ دھرمی انتہا پسندی تو ہو سکتی ہے
معاملہ فہمی قطعی نہیں اور موجودہ ملکی صورتحال کے تناظر میں یہ فیصلہ بروقت اور درست ہے ۔ہمارے جو دوست مستقبل میں بلاول کو وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ
وزیر خارجہ کا عہدہ بھی کوئی معمولی عہدہ نہیں دوسرا یہ کہ آپکے نزدیک آپکا مستقبل کا وزیر اعظم اس عرصہ میں امور مملکت کو چلانے کا
جربہ حاصل کر لے گا عالمی سطح پر دیگر ممالک کے دوروں اور عالمی سطح کے لیڈروں سے ملاقاتوں کے دوران اسکی صلاحیتوں میں مزید نکھار آئے گا ۔
بلاول کے نانا نے بھی بطور وزیر خارجہ اپنا آپ منوایا تھا اور آج اس امید اور توقع کے ساتھ دعا کریں کہ نواسہ بھی اپنے جزبہ حب الوطنی اور بہترین صلاحیتوں کے
بل بوتے پر پاکستان کو سفارتی تنہائی سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو آمین
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون
جیسل کلاسرا ضلع لیہ ، سرائیکی لوک سانجھ دے کٹھ اچ مشتاق گاڈی دی گالھ مہاڑ