نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

صحافت کی بازیابی کیسے ہو؟|| وجاہت مسعود

اسے شاہی فرمان سے استوار نہیں کیا جا سکتا۔ صحافت کی آبیاری اختلاف رائے کی آزادی کے پانی سے کی جاتی ہے۔ ان دنوں یہ مطالبہ سنائی دے رہا ہے کہ غیر جمہوری روش کی حمایت کرنے والے صحافتی عناصر پر سرکاری گرفت کی جائے۔

وجاہت مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر اقبال احمد نومبر 1997 میں انسانی حقوق کانفرنس سے خطاب کرنے لاہور آئے۔ صدر فاروق لغاری اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے متعلق بحران اپنے عروج پر تھا۔ ہم تب بھی آج ہی کی طرح انہونی کے اندیشوں میں زندہ تھے۔ حتمی تجزیے میں انحراف ایک عبوری نقطہ قرار پاتا ہے۔ قوم معمول کے تسلسل میں آگے بڑھتی ہے۔ ہم قومی ابتلاؤں کے طویل سلسلے کی تکان کے باوجود خود کو خوش نصیب سمجھتے تھے کہ ہمیں ایک ہی چھت تلے ڈاکٹر مبشر حسن، آئی اے رحمان، عاصمہ جہانگیر، ڈاکٹر عنایت اللہ، ڈاکٹر مہدی حسن اور قاضی جاوید سے استفادے کی نعمت میسر تھی۔ پہلے ہر شہر میں کچھ لوگ ہوا کرتے تھے…. لاہور تو گویا پھولوں کا ایک وسیع قطعہ تھا۔ بدقسمتی سے اب یہ کیفیت ہے کہ ’دھوپ سے رنگ اڑا جاتا ہے میدانوں کا‘۔ دو دن پر محیط اس یادگار مجلس میں علم اور آگہی کے ان گنت موتی ارزاں کئے گئے۔ حافظے میں کچھ نقش باقی رہ گئے ہیں۔ استاذی آئی اے رحمن نے ایک ہی جملے میں جمہوریت کا عطر بیان کر دیا۔ فرمایا، ’جمہوریت کا بنیادی اصول شہریوں کی مساوات ہے، سروں کی گنتی نہیں‘۔ ڈاکٹر اقبال احمد کو سننے کا ہمارا پہلا موقع تھا۔ شنید تھی کہ علم کی وسعت اور حسن بیان سے مجمع پر جادو کر دیتے ہیں۔ جیسا سنا تھا، ویسا ہی پایا۔ یہ خطابت کا طوفان نہیں تھا، ایک باخبر اور درد مند آواز تھی کہ بارش کی بوندوں کی طرح دلوں کے بنجر منطقے سیراب کرتی چلی جا رہی تھی۔ پاکستان کو درپیش بحران کے زاویے بیان فرما رہے تھے۔ ایک مقام پر ذرا توقف کیا اور پھر قدرے بلند آواز میں فرمایا، ’ایسا نہیں ہو سکتا کہ جسد اجتماعی میں ایک عضو بیس فٹ اونچا ہو جائے، ایک ادارہ اس قدر پھیل جائے کہ دھوپ کی کرنیں روک لے، کوئی شعبہ اپنی حقیقی قامت سے محروم ہو جائے اور ہم اسے ترقی کہیں۔ قوم کے مختلف حصے ایک دوسرے سے مربوط تناسب میں ارتقا کریں تو اسے حقیقی ترقی کہتے ہیں‘۔
اگلے مہینے کی گیارہ تاریخ کو ڈاکٹر صاحب کی وفات پر 23 برس پورے ہو جائیں گے۔ آج اس عالی دماغ کا درج بالا فرمودہ اس لئے یاد آیا کہ ہم ایک بار پھر اپنی تاریخ کے ایک غیرمعمولی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ فیض صاحب کے لفظوں میں، روشن کہیں بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں۔ یہ سوال تاہم موجود ہے کہ کیا یہ وہ ’موسم گل‘ ہے جس کی آمد کی حافظ شیراز نے نوید دی تھی۔ ہمارے موسموں کا یہ المیہ رہا ہے کہ بہار مختصر ہوتی ہے اور خزاں کی رت گویا ٹھہر جاتی ہے۔ کچھ ایسا سوچنا اور کرنا چاہیے کہ ہماری بہار کو اندیشہ زوال نہ رہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں میں بہتری کے لئے یکساں سعی کی جائے۔ گزشتہ برسوں میں ہم صرف سیاسی اور آئینی افتاد سے نہیں گزرے، معیشت، تعلیم، صحافت، انصاف اور معاشرتی مکالمے سمیت تمام شعبے متاثر ہوئے ہیں۔ صحافت ہی کو لیجئے۔ اختیار کے سرچشموں پر آئینی حدود سے ماورا اقدامات کی مدد سے اجارہ قائم کرنے کا ارادہ باندھا گیا تو دیگر اہداف سمیت صحافت کو بھی نشان زد کیا گیا۔ خواجگی کی دنیا کے اپنے ہتھکنڈے ہوتے ہیں۔ ایک آزمودہ نسخہ یہ ہے کہ ایک کو تھپکی دو اور دوسرے کی گردن دبوچو۔ ممکنہ ہدف اپنی داخلی تقسیم کے نیتجے میں خود بخود ماو¿ف ہو جاتا ہے۔ موم کی اس ناک کو حسب خواہش جدھر چاہو، موڑ لو۔ صحافت پر یہ آزمائش 70 کی دہائی میں بھی اتری تھی۔ ہم آج تک اس زیاں کا تاوان ادا کر رہے ہیں۔
کوئی دس برس قبل پھر سے یہ کھیل شروع کیا گیا۔ اس مرتبہ نجی ٹیلی وژن چینلز اور سوشل میڈیا کی کمک بھی دستیاب تھی۔ گزشتہ عہد میں نفسیاتی جنگ کے ماہر لیفٹنٹ جنرل مجیب الرحمن کا دست کرشمہ ساز کارفرما تھا۔ اب کے دیدہ اور نادیدہ کارندوں کی ایک پوری فوج میدان میں اتری۔ دیکھتے ہی دیکھتے نئے اور پرانے آلات کی مدد سے ایک بیانیہ تشکیل دیا گیا۔ دستور کی تحقیر، سیاسی عمل پر انگشت نمائی، دستکاری کے نمونوں کی معجزاتی خوبیاں، ناپسندیدہ افراد اور گروہوں پر بے اماں سنگ زنی۔ قوم میں غیر جمہوری دھارا ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ اسے انگشت حنائی کے اشارے سے اذن روانی دیا گیا۔ دریا کو ایک لمحے میں تھل کر دیا گیا۔ اس مشق میں کسی ادارے، کسی منصب اور کسی شہری کی توقیر باقی نہیں رہی۔ ایک حیران کن رویہ یہ دیکھنے میں آیا کہ دلیل، شواہد، حرف قانون اور ذہنی دیانت کو بیک جنبش قلم بے معنی کر دیا گیا۔ سیدھا اور دوٹوک فارمولا کہ حقیقت وہی ہے جو ہمارے فرق عالی پر اترے اور ہمارے مفاد کی تکمیل کرے۔ ہم سے اختلاف کی جسارت ناقابل برداشت ملک دشمنی ہے۔ انسانی تاریخ کی حرکیات بے رحم اور ناگزیر ہوتی ہیں۔ فتنہ، سازش اور جرم اپنی ہی داخلی کمزوریوں کے بوجھ سے زمیں بوس ہوتے ہیں۔ آج قومی سیاست کے منظر پر بہت سے کھوکھلے بتوں کے ٹکڑے جہاں تہاں بکھرے نظر آتے ہیں۔ سیاست میں جمہوری دھارے کی مضبوطی کے لئے حقیقی صحافت کی بازیابی بہت ضروری ہے۔ سیاست ہی کی طرح صحافت بھی ایک نامیاتی عمل ہے۔ اسے شاہی فرمان سے استوار نہیں کیا جا سکتا۔ صحافت کی آبیاری اختلاف رائے کی آزادی کے پانی سے کی جاتی ہے۔ ان دنوں یہ مطالبہ سنائی دے رہا ہے کہ غیر جمہوری روش کی حمایت کرنے والے صحافتی عناصر پر سرکاری گرفت کی جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ جمہوری اصولوں کے منافی ہو گا۔ جسد صحافت میں پیوست کانٹوں کو جمہوری رواداری کی پلکوں سے چننا ہو گا۔ غلط خبر کا مقابلہ ریاستی قوت نافذہ سے نہیں بلکہ صحیح خبر سے کرنا چاہیے۔ جمہوریت نام ہی عوام کے شعور پر بھروسہ کرنے کا ہے۔ سیاسی مداخلت کی بجائے قانون کو اپنا راستہ اختیار کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔ خیال رہے کہ 9 اپریل کی رات جمہوری جدوجہد کا ایک جزوی ہدف حاصل کیا گیا ہے۔ نئے بندوبست کی توانائیاں پرانے حساب چکانے کی بجائے قوم کو درپیش حقیقی معاشی اور تمدنی مسائل کے حل پر صرف ہونی چاہییں۔ ہائبرڈ بندوبست ختم ہوا ہے تو ہائبرڈ وار فیئر کے کابوس سے بھی نجات پانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

وجاہت مسعود کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author