ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( اپنی تحقیقی کتاب ” محبت ۔۔۔ تصور اور حقیقت ” سے اقتباس )
بیاہ، شادی یا عروسی ایک سماجی ادارہ ہے جس کا محبت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ ادارہ کب، کیوں اور کیسے پیدا ہوا؟ اس بارے میں کوئی حتمی رائے موجود نہیں۔ جتنی بھی آراء ہیں وہ مفروضات پر مبنی ہیں۔ قدیم اور نیم متمدن سماج دونوں میں ہی ازلی کنواروں کی تعداد آٹے میں نمک کے مصداق رہی ہے۔مغربی ممالک کی بہ نسبت مشرقی ممالک میں بن بیاہے افراد کی تعداد کم ہے اور وہاں کسی مرد کے ساتھ محبت میں مبتلا ہونے اور اس کے ساتھ بھاگ جانے والی عورت کو آوارہ اور بدکار سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور کہ شادی ایک خاندانی مسئلہ ہے اور یہ دو افراد کا ہی باہمی فعل نہیں اور نہ ہی رومان پرور محبت کا شاخسانہ، کچھ عرصہ قبل بہت سے متمدن معاشروں میں بھی ترجیحی اہمیت رکھتا تھا۔
رومن معاشرے میں بیاہ کی بنیاد خالصتا” خاندانی فیصلے پر ہوتی تھی اور یونان کے متمدن معاشرہ میں کوئی بھی شخص کسی آزاد عورت سے محبت کرکے بیاہ نہیں رچاتا تھا۔ دور کیوں جائیں، چند دہائیوں پہلے ہی کی بات ہے کہ فرانس میں سلسلہ جنبانی والدین ہی سرانجام دیتے تھے۔ اکثر اوقات لڑکے لڑکی نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں ہوتا تھا۔ اٹلی کے سربرآوردہ ارسٹوکریٹ لوگوں میں شادی ایک کاروبار کی مانند تھی، جس میں دونوں گھرانے شریک ہوتے تھے اور دولہا دلہن بیاہ کے بعد ہی ایک دوسرے کی شکل پہلی بار دیکھ پاتے تھے۔ سپین، پرتگال، روس اور یورپ کے کئی ممالک میں بھی یہی صورت حال تھی۔ نہ صرف اعلٰی طبقہ میں بلکہ عوام النا س میں بھی۔ یہ صورت پاکستان، ہندوستان، چین ، جاپان اور عرب ممالک میں آج بھی کم و بیشتر موجود ہے کیونکہ ایسے ممالک میں یورپ کے برعکس شادی معیشت اور وراثت کاسلسلہ ہے۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ لڑکی حسن، جوانی، ذہانت اور وضع قطع کے پیمانوں سے ماپ کر منتخب نہیں کی جاتی بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی سگھڑ کتنی ہے؟ کیا وہ پورا گھر سنبھال لے گی؟ صحت مند کتنی ہے؟ محنتی ہے یا سست؟ کیا وہ اچھے اور زیادہ بچے پیدا کرنے کی اہل ہے؟وہ گھرانے کی دولت، سماجی سطح اور سیاسی قوت میں اضافہ کر سکے گی؟ وغیرہ وغیرہ۔ باہمی کشش کوئی معنی نہیں رکھتی۔ صرف عملی مفادات کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔
بیاہ اور جنسی تعلق بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ جنسی تعلق صرف بچوں کی پیدائش کا معاملہ ہوتا ہے۔ اس میں لذت کوشی اور تسکین کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ اس نوع کے سماج میں تو بیاہ اور بچوں کی پیدائش کے بعد بھی محبت نام کی کوئی شے نہیں ہوتی۔ میاں بیوی علیحدہ علیحدہ سوتے ہیں اور اکٹھے بیٹھ کر کھانا تک نہیں کھاتے۔ عورتیں حسن اور کشش کے سلسلے میں ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے کی دوڑ میں شریک نہیں ہوتیں۔ وہ مغرب کی عورتوں سے بہت کم عشوہ طراز ہوتی ہیں۔ وہ علم یا حسن کی بدولت مرد کی رغبت اور قربت کا مرکز نہیں بنتیں بلکہ سگھڑ پن، جان ماری، اچھے کھانے پکانے اور اچھی ماں ہونے کے باعث ہی وہ مردوں کو بھاتی ہیں۔
محبت ایک تازہ عنصر ہے اور یہ تب شروع ہوئی جب عورت اچھی بیوی کی بجائے جنسی شے تصور کی جانے لگی۔ ارتقاء کی نچلی سطح پر عورت مردوں سے تبھی مختلف و ممتاز ہوتی تھی جب وہ معاشی مہارت میں مردوں سے کمتر تھی۔ زرعی سماج کے آنے اور پھر صنعتی سماج کی ترقی کے ساتھ عورت کی حیثیت بظور محنت کار کے کمتر ہو کے رہ گئی تھی۔ معاشی حالات میں تبدیلی کی وجہ سے نہ صرف عورت کی مجموعی حیثیت بالکل بدل کر رہ گئی ہے بلکہ بیاہ کا معنی ہی تبدیل ہو چکا ہے۔ جب عورت کی تقابلی معاشی کیفیت کم ہوئی تو اس کی جنسی قدر میں اضافہ ہو گیا۔ اس تبدیلی کے تحت ، مرد عورت کے انتخاب میں زیادہ امتیاز برتنے لگا اور بیاہ کی بنیاد ذاتی کشش قرار پائی۔ جوں جوں معاشی صورت حال بہتر ہوتی گئی، عورت کو جاذب نظر بننے کے لیے زیادہ وقت اور مواقع میسر آنے لگے۔ تمدن کی ترقی نے عورتوں میں آپس کے ظاہری فرق کو زیادہ کر دیا۔ ایک عورت دوسری سے بہتر دکھائی دینے لگی۔ محبت معاشرے میں وہ سارے عوامل لے آئی جو تخیل کی پیداوار ہیں اور جو مرد کی جنسی خواہش کو ابھارنے کے ذریعے بھی بنے۔ یوں محبت تحریک حیات کے "چناؤ ” میں پہلے مقام پر آ گئی۔
رومانوی احساسات اور ذاتی ترجیح، جن کے بغیر انسان ہزاروں سال سے خوش تھا، آج ان کے سبب مرد اور عورتیں دونوں ہی بلاوجہ خوش یا دکھی ہیں۔ آج لڑکیوں اور زیادہ لڑکوں میں محبت ہی وہ پیمانہ ہے جس کے ترازو میں شریک سفر کو تولا جاتا ہے اور یہ طے کیا جاتا ہے کہ کوئی شخص بیاہ کرے یا کنوارہ رہے اور اگر بیاہ کرے تو کس سے کرے؟ بیاہ بطور ادارے کے بالکل ہی بدل چکا ہے۔ آج کے جدید معاشرے میں اس ادارے کے دو ہی معیار ہیں۔ دولت اور عورت کا حسن۔ جہاں تک کشش کا تعلق ہے وہ تو ہے ہی حیاتیاتی نوعیت کی جو شہوانیت کی نامیاتی ضروریات کے تابع ہے۔ اسی لیے علم نفسیات بھی اس جدید مظہر یعنی محبت کی توضیح، محض قدیم اور بنیادی ضروریات کی تکمیل کے پیرائے میں ہی کرتا ہے، اور تو اور ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ نے بھی یہی کہا تھا کہ محبت اپنے ماخذ اور فطرت کے حوالے سے فقط جنسیات ہے جو اپنی افعالی تسکین کے لیے انسان میں دبی ہوئی ہوتی ہے۔
اس سے پہلے کے فرد اپنی محبت کے ہدف سے ملاقات کرے، کچھ نفسیاتی رویے اس کو محبت میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی تیار کر لیتے ہیں۔ ان رویوں میں سب سے اہم اندر سے اٹھنے والی اور بالعموم شعوری طور پر اپنے آپ سے عدم تسکین کا عنصر ہوتا ہے جس کا اظہار وہ کنبے، خاندان، کام اور ماحول سے غیر مطمئن ہونے کی شکل میں کرتا ہے۔ اس رویے کی جڑیں کہیں بہت گہری گڑی ہوتی ہیں یعنی پسندیدہ مثالی انا میں جو بچپن اور لڑکپن کے دور میں مرتب ہوتی ہے۔ اس کو ترتیب دینے میں ہمارے والدین، اساتذہ اور دوسرے لوگ جنہیں ہم مثال سمجھتے ہیں، سبھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن جب ہم موازنہ کرتے ہیں تو ہم وہ نہیں ہوتے جو ہم اپنے آپ کو سمجھتے ہیں بلکہ جیسا اپنے آپ کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ اس طرح نفسیاتی طور کی پیش بندی کے بعد جب ہم کسی ایسے شخص سے ملتے ہیں جس میں وہ خصائل موجود ہوں، جن کی ہمیں اپنے آپ میں ہونے کی خواہش ہو اور جو ہمیں بظاہر خود کفیل اور اپنے آپ سے مطمئن دکھائی دیتا ہو تو اس میں ہم اپنی مثالی انا کی تصویر دیکھ کر اس کی اس بے پناہ کشش کے آگے گھٹنے ٹیک کر اس کی محبت کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ رومان اپنے آپ کو غیر مطمئن انا سے بچنے کی سعی ہوتی ہے لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ یہ کوشش کامیاب بھی ہو۔ یہ کوشش اکثر ناکام ہوتی ہے یا تو اس لیے کہ شریک کے انتخاب میں آپ بدقسمت ہوں یا پھر اس لیے کہ انا اتنی کمزور ہو جو دوسرے شخص کی محبت میں خود کو محفوظ نہ سمجھے۔ رشک، عناد، قبضہ گیری ( Posessiveness ) اور فتح کرنے کے ارادے محبت میں یکسر ختم نہیں ہوتے بلکہ وہ دب جاتے ہیں اور پھر کبھی حیرت انگیز طور پر لوٹ آتے ہیں۔
محبت یا رومان کے نتائج متعین کرنے والے کئی عوامل ہوتے ہیں۔ یہ روگ، اگر ہم خود سے مکمل طور پر مطمئن ہوں تو پنپ نہیں سکتا۔ اگر انا اس قدر کمزور ہو، جو کہ اپنے آپ کے بارے میں خوشی تلاش کرنے کی جرات کرنے کا یارا ہی نہ رکھتی ہو تو تب بھی محبت نہیں ہو سکتی۔ کسی حد تک شان خودی اور عزت نفس برقرار رکھنا اشد ضروری ہوتا ہے ورنہ آدمی محبت کر ہی نہیں سکتا۔ وہ آدمی یا عورت جو اپنے آپ کو محبت کے قابل ہی نہیں سمجھتے، وہ محبت نہیں کر سکتے۔ صرف وہی شخص کسی دوسرے کو محبت دے سکتا ہے جو محبت کرنے کے دوران اپنے آپ کو پھر سے کسی حد تک پوجنا شروع کر دے اور اپنی قدر کو جانے۔ عورتیں ایسے لوگوں کا علاج کرکے انہیں دوبارہ سے محبت کرنے کے قابل بنانے کا گر خوب جانتی ہیں۔ جنس مخالف کو اپنی جانب وہی لوگ راغب کر سکتے ہیں جن میں خود اعتمادی ہوتی ہے کیونکہ اپنے آپ سے اکتایا ہوا شخص اپنے رویوں سے پہچانا جاتا ہے۔
اس سے پہلے کہ آپ کسی سے محبت کریں آپ کو اپنے آپ سے محبت ہونی چاہیے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کوئی آپ کی قدر کرے تو سب سے پہلے اپنی قدر خود کرنا ہوگی۔ آدمی عورتوں کی قدر بھی تبھی کرتے ہیں جب انہیں احساس ہو کہ اسے اپنی قدر معلوم ہے اور آپ کو محبت بھی تبھی مل سکے گی جب آپ محبت بانٹنے کا فن جانتے ہوں۔ عورتیں لاشعوری طور پر اس چیز کے بارے میں جانتی ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پسند نہیں ہیں تو ان میں دوسرے کو بھی کوئی کشش نظر نہیں آئے گی۔
اس کے برعکس جب ان سے محبت کی جاتی ہے تو ان کی شخصیت بھی نکھرنے لگتی ہے۔ انہیں بہتر ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ عورت کو آدمی کی ضرورت اس لیے نہیں ہوتی کہ کوئی اس کی ضرورت محسوس کرے۔ عورتیں اپنے آدمیوں پر فخر اس لیے کرتی ہیں کیونکہ وہ انہیں اپنی ہی شخصیت کا تسلسل محسوس ہوتے ہیں۔ شریک کا انتخاب درحقیقت لاشعوری طور پر اپنی قدر کا اظہار ہوتا مگر اپنی قدر کو زیادہ یا کم سمجھنا دونوں ہی غلطی کا موجب بنتے ہیں۔ عمومی طور پر عورتیں آدمیوں کی بہ نسبت اپنی قدر کم ہی کرتی ہیں۔ اس کی وجہ حیاتیاتی سے زیادہ سماجی ہے۔ ایک بڑی عورت نے کہا تھا،” شکر ہے میں مرد نہیں ہوں، ورنہ مجھے ایک عورت سے بیاہ کرنے پر مجبور ہونا پڑتا۔” اس قسم کا رویہ مردوں میں اپنے بارے میں شاذ ہی ہوگا۔ اگرچہ آدمی عورت کی اپنی ناقدری سے اتفاق کرتے ہیں لیکن عورتوں کے خلاف کوئی بھی مجرد بغض یا ان کی کمزوریوں کا اڑایا جانے والا ٹھٹھہ مردوں کو عورتوں سے بیاہ کرنے سے نہیں روک پایا ہے۔ عورتوں کا یہ احساس کمتری یا تو محتاط طور پر ان کی جانب سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے یا اکثر عورتوں میں مبالغہ آمیز فخر کا احساس اس کی نفی کر دیتا ہے۔
مگر بذات خود فخر کی ضرورت تب پڑتی ہے جب آپ پر زد پڑنے کا احساس زیادہ ہو اور آج کی عورتوں میں غیر محفوظ ہونے کا احساس زیادہ ہے۔ عورتوں میں اپنے آپ کا جنسی عمل میں کمزور، غیر مستعد، مفعول اور بھرپور نہ ہونے کا احساس ایک عام بات ہے۔ انہی باتوں کے باعث ان میں مرد سے نفرت پیدا ہوتی ہے، نفرت کا یہ احساس بھی احساس کمتری کا عکس ہے۔ اسی کمتر ہونے کے دبے دبے احساس کی وجہ سے عورتوں کو اپنی شکل و صورت اور جسم کو بہتر سے بہتر بنانے کی خواہش ہوتی ہے۔ کپڑے، زیور، میک اپ، انداز ، یہ سبھی خود کو خوب تر طریقے سے پیش کرنے کی کوششیں ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے عورت کے ذہن میں حسن ہی وہ پہلو رہ گیا ہے جو مرد کے لیے باعث کشش ہے جیسے کردار، رویہ، انداز، نزاکت، نرمی اور علم کی اہمیت ہی نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ عورتوں کے حسن کی تعریف کی جاتی ہے لیکن بیاہ محض حسن کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ واضح اور ہیجان خیز حسن تو ایک لعنت ہے کیونکہ پہلے دن کے بعد کے دنوں میں، کسی دن اس حسن کی اتنی تعریف نہیں ہوتی جو گذرے دن میں ہو چکی ہوتی ہے۔ اس طرح لگتا ہے جیسے حسن، تعریف کی راہ میں خود آڑے آنے لگتا ہے۔ وہ عورتیں جو حسین نہیں ہوتیں مگر جاذب نظر ہوتی ہیں، دیکھنے والے پر ان کا اثر اگرچہ اس قدر شدید نہیں ہوتا لیکن گہرا اور پائیدار ضرور ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ عورت کا حسن آدمی پر سحر طاری کر دے بلکہ سحر کو جاری رہنا چاہیے اور اس کی شدت میں اضافہ ہوتے رہنا چاہیے۔
جاری ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر