زاہد حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان تحریک انصاف کے قائدین جن میں عمران اسماعیل پیش پیش ہیں، کا دعویٰ ہے کہ ان کا آج کا جلسہ نہ صرف ملک بلکہ بر صغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہو گا۔ عجیب بات ہے کہ پی ٹی آئی کے یہ قائدین تاریخ اور حقائق جانے بغیر اس طرح کے دعوے کیوں کر تے رہتے ہیں۔ بر صغیر میں بھارت اس خطے کا رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک ہے اور جمہوری ملک ہونے کے ناطے اس ملک کی سیاسی پارٹیوں کی عوامی مقبولیت آبادی کے لحاظ سے خطے کے دیگر ممالک سے کئی گنا زیادہ ہے۔
وہاں ایک مقبول پارٹی کے ایک مقامی لیڈر کا جلسہ پاکستان یا سری لنکا وغیرہ کے بڑے لیڈر کے جلسے سے بھی بڑا ہوتا ہے ۔ اور وہاں کے بڑے لیڈروں کے جلسوں کا تو کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ مارچ ۱۹۷۱ میں شیخ مجیب الرحمٰن نے ڈھاکہ کے پلٹن گراؤنڈ میں ایک جلسہ کیا جس کی تعداد بی بی سی نے ۲۵ لاکھ بتائی تھی۔ پی ٹی آئی کا آج کا جلسہ تو کراچی میں ہونے والے دیگر بڑی پارٹیوں کے جلسوں سے بھی بہت چھوٹا ہے۔میں نے بحیثیت اخباری فوٹوگرافر کراچی میں تقریباً تمام پارٹیوں کے جلسوں کو کور کیا ہے اور اس میں سب سے بڑا جلسہ جو میں نے کور کیا وہ ایم کیو ایم اور اس کی آل پارٹیز کانفرس (اے پی سی) کی دیگر جماعتوں کا مشرکہ جلسہ تھا جو در اصل ایم کیو ایم ہی کا سمجھا جائے کیونکہ باقی پارٹیوں کی کراچی میں نمائندگی برائے نام ہی تھی ،
یہ جلسہ ۱۹۹۰ میں مزار قائد اعظم کے ساتھ باغ قائد اعظم اور ملحقہ شاہراہ قائدین پر ہوا تھا۔ میں نے اپنی بنائی ہوئی اس جلسے کی تصاویر تین حصوں میں بنائی تھیں جو میں آپ سے شیئر کر رہا ہوں ۔ ان تصاویر کو دیکھیں اس میں ایم اے جناح روڈ سے عوام کا جم غفیر شروع ہو کر مزار چورنگی تک (جہاں جلسے کا اسٹیج بنایا گیا تھا) اور اس کے بعد شاہراہ قائدین پر خداداد کالونی کے ساتھ سے ہوتا ہوا سوسائٹی آفس چورنگی تھا موجود تھا۔ اور اسٹیج کے سامنے اور باغ قائد اعظم کے کھلے وسیع علاقے میں بھی عوام بڑی تعداد میں موجود تھی۔ لمبائی میں یہ ڈیڑھ کلو میڑ بنتا ہے اور زیادہ سے زیادہ چوڑائی کا علاقہ (اسٹیج کے سامنے اور کچھ ارد گرد بشمول باغ قائد اعظم) اوسطً ایک سے ڈیرھ فرلانگ بنتا ہے۔ اس وقت ڈرون کا زمانہ نہیں تھا اور اسٹیج کے قریب کوئی اونچی جگہ نہیں تھی اس لئے ہم فوٹوگرافروں کی ڈیمانڈ پر بلدیہ کراچی کی اسنارکل منگوائی گئی تھی جس پر چڑھ کر ہم فوٹوگرافروں نے باری باری اوپر کے شاٹ لیے تھے۔
ویسے بھی شام ہو رہی تھی اور کچھ طرف کے شاٹ سورج غروب کے وقت درست رزلٹ نہ دے سکے۔ بی بی سی نے اس جلسے کے شرکا کی تعداد دو ملین یعنی بیس لاکھ بتائی تھی۔ یہی تعداد بی بی سی نے بے نظیر بھٹو کی لاہور آمد پر اقبال پارک میں ہونے والے جلسے کے شرکا کی بتائی تھی۔اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے اکتوبر ۲۰۱۱ کے تبت سینٹر کے جلسے میں بھی شرکا کی ایک ریکارڈ تعدد موجود تھی اور اس کا ایک سرا تبت سینٹر پر تھا جہاں اسٹیج بنایا گیا تھا ور دوسرا مزار قائد اعظم پر تھا اور یہ فاصلہ تقریباً ڈھائی کلو میڑ بنتا ہے ویسے تبت سینڑ سے مزار قائد گوگل کر لیں تو درست فاصلہ نکل آئے گا۔
اسی جگہ جماعت اسلامی کے قائد قاضی حسین احمد نے بھی اتنے ہی فاصلے کا ملین مارچ کیا تھا جو ایک ریکارڈ ہے اور یہ تبت سینٹر کی جگہ بھی ملین مارچ کے لئے جماعت کے میڈیا ایڈوائزرز کو میں نے بتلائی تھی۔ اس کے علاوہ مزار قائد پر ایک ریکارڈ جلسہ شہید بے نظیر بھٹو نے بھی کیا تھا ۔ مارچ ۱۹۷۷ میں بھٹو نے اپنے کراچی ایرپورٹ سے ککری گراؤند تک کے جلوس کے دوران مزار قائد سے گذرتے ہوے اسی جگہ جلوس کے شرکا سے خطاب کیا تھا اور وہ اجتماع بھی ایک بڑا اجتماع تھا جو رات بارہ بجے کے وقت ہونے کے باعث درست ریکارڈ نہ ہو سکا کیونکہ ایک تو وہاں کوئی اونچی جگہ نہیں تھی دوسرے رات کو فلیش گن کی لائٹ تیس چالیس فٹ سے زیادہ تک کی کوریج نہیں کر سکی تھی۔ ویسے بھٹو کے بڑے بڑے جلسوں کا تو ایک شاندار ماضی ہے۔
اب پتہ نہیں یہ پی ٹی آئی والے کس منہ سے اس جلسے کو بر صغیر کا سب سے بڑا جلسہ کہتے ہیں۔ یہ ایک عام سا جلسہ تو کہہ سکتے ہیں مگر سب سے بڑا تو بالکل بھی نہیں ہے۔ ویسے آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ میں نے جن جلسوں کی مثالیں دی ہیں وہ تمام جلسے دن کے وقت منعقد ہوئے سوائے بھٹو صاحب کے رات والے جلوس کے ۔ مگر آپ نوٹ کریں کہ ان کے جلسے رات میں ہوتے ہیں۔ دن میں دور دور تک جتنے شرکا ہیں تفصیل میں نظر آتے ہیں لیکن رات میں بڑی بڑی لائٹوں کے نیچے بیٹھے لوگ پوری طرح نظر نہیں آتے اور تصویر میں وہ دھندلے ہو جاتے ہیں پورے شارپ نظر نہیں آتے بس یہی دھوکا ہے۔
ان سے کہیں کہ اسی جگہ ایک جلسہ دن کے وقت رکھیں اور آپ کو فرق صاف نظر آ جائے گا اور ان کا پول کھل جائے گا۔ یہ فراڈیئے ہیں ۔ ان کی سیاست فراڈ، وعدے فراڈ اور انسانوں سے محبت کا دعویٰ فراڈ ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر