عامرحسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت نئی حکومت سے عام آدمی کی توقع بہت سادہ سی ہے اور وہ ہے ملک میں تاریخی بدترین مہنگاہی کا خاتمہ –
تنخواہ دار طبقات کا مطالبہ ہے کہ گزشتہ سات سالوں میں ایڈہاک الاؤنس سمیت سارے الاؤنسز کو بیسک پے میں ضم کیا جائے اور بنیادی تنخواہوں میں کم از کم 25 فیصد اضافہ کیا جائے –
کم از کم مزدوری 25 ہزار روپے ماہانہ کی جائے –
گیس، بجلی، پٹرول، ڈیزل، گھی، چینی، خوردنی تیل سمیت بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں فی الفور کمی لائی جائے –
نئی حکومت کو یہ سارے اقدامات اٹھانے سے عالمی مالیاتی سرمایہ داری روکنے کی کوشش کرے گی –
نئی حکومت آئی ایم ایف کی ساتویں جائزہ رپورٹ کی تیاری کے لیے جب بات چیت میں داخل ہوگی تو اسے سب سے بڑا دباؤ ہی اس وقت آئے جو اسے مہنگائی کم کرنے کے لیے اقدامات اٹھانے سے منع کرے گا- وہی امتحان کی گھڑی ہوگی
راتاں دی میری نیند اڑ گئی
عجیب بات ہے فیس بُک اور ٹوئٹر پہ ٹرولنگ بریگیڈ کل سے ماتمی بریگیڈ میں بدلا ہوا ہے اور ایک ایسے شخص کی وزرات عظمیٰ جانے پر آنسو بہائے جارہے ہیں جیسے اُس نے ایبسولٹی ناٹ کہتے ہوئے اپنے سلیکٹرز کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرلیا ہو –
تین اپریل کو ڈپٹی اسپیکر کی آئین شکنی پر تالیاں پیٹنے والے اور یہ کہنے والے "کیسے دیا”، پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے زریعے سے سلیکٹڈ کو گھر بھیجنے کے عمل سے آنکھیں تو چار کر نہیں سکتے مگر ایک بزدل اور حقیقت سے فرار اختیار کرنے والے شخص کو "سیاسی شہید” بنانے کے لیے ہزار جتن کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپوزیشن کو کامیاب آئینی جدوجہد کا کریڈٹ دینے کی بجائے یہ کریڈٹ غیر منتخب ہئیت مقتدرہ کو دینے کی کوشش کررہے ہیں – کہتے ہیں رات گئے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججز کیوں عدالتیں سجاکر بیٹھ گئے؟ سپریم کورٹ نے فیصلہ کیوں دیا؟ اگر وزیراعظم نے آئین کی رو سے تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے راستے میں روڑے نہ اٹکائے ہوتے تو یہ نوبت نہیں آنی تھی –
تین سال 7 ماہ حکومت کرنے والا اگر اپنے 155 نہ سہی 100 نشستوں کے ساتھ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بن کر سیاست کرنے پر آمادہ ہوتا تو آسمان نہیں ٹوٹ کر گر پڑنا تھا – اور اب کون سا سیاست کا در بند ہوگیا ہے – حوصلہ تو رکھ عوامی جلسوں میں اپنے سیاسی مخالفین پر بھدے انداز میں پھکڑ پَن سے کہچڑ اچھالنے والے! اب دیکھیں گے کہ جو این آر او تم اپوزیشن کو دینے سے انکاری تھے وہ تم خود بھی لینے سے انکار کروگے یاپھر جیسے کل قومی اسمبلی سے فرار تھے اب کی بار بھی فرار کو ترجیح دو گے
عامر حسینی کی مزید تحریریں پڑھیے
(عامر حسینی سینئر صحافی اور کئی کتابوںکے مصنف ہیں. یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے ہے ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں)
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر