ڈاکٹر مجاہد مرزا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں سوچتے ہیں، ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کو سہولتیں بہم پہنچانے کی خاطر ہسپتال اور یونیورسٹیاں بناتے ہیں۔ سائنسی تحقیقی مراکز قائم کرتے ہیں۔ اہلکاروں کی فی گھنٹہ اجرت بڑھانے کی خاطر مقننہ میں قراردادیں منظور کرواتے ہیں۔ نادار لوگوں کو طبی و سماجی امداد دیے جانے کی غرض سے غیر سرکاری تنظیموں کو گرانٹس دیتے ہیں۔
نیم ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جنہیں خوش رہنے کی خاطر ترقی پذیر ملک کہا جانے لگا ہے، امراء عوام کے بارے میں سوچتے ہیں کہ انہیں کس طرح الو بنا کر اپنے حق میں ووٹ لیے جائیں؟ غریب عوام کو چمکیلے خواب کیسے دکھائے جائیں؟ ان ملکوں کی مقننہ میں صرف امراء ہی جا سکتے ہیں کیونکہ انتخابی مہم کی پنجابی فلموں ایسی بڑک باز اور فضول تشہیر میں لاکھوں کروڑوں خرچ ہوتے ہیں۔ ڈیرہ داری تو ویسے ہی چلتی ہے چاہے خالص جاگیردار ( جو نایاب ہیں ) اور بڑے زمیندار ہوں یا جاگیردار، زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ صنعت کار/ تاجر بھی ہوں اور یا خالصتا” صنعت کار و تاجر ہوں جنہوں نے ویسے ہی کاشتکاری یا بڑے بڑے فارم ہاؤسز بنانے کے لیے زمینیں بھی خرید لی ہوں مگر انتخابات سے ماہ دو ماہ پہلے اور ایک آدھ مہینہ بعد تو لنگر کھولنا پڑ جاتا ہے۔ آخر ایک آدھ بوٹی، کچھ حلوہ اور سوڈے کی دو چار بوتلیں غریبوں کے پیٹ میں تو جانی چاہییں۔ اس سب کے لیے پیسہ چاہیے ہوتا ہے جو باثروت افراد کے پاس ہے۔
خواب دکھانے سے متعلق بھی سوچنا ہوتا ہے مگر کچھ اتنا زیادہ بھی نہیں بس سوچنا یہ ہوتا ہے کہ متوسط طبقے کے دانشوروں کی سوچ اور عمل سے پنپی تحاریک کو کس طرح سے اچکا جائے یا یہ کہ کسی تحریک کو کیونکر مشرف بہ حب الوطنی کیا جائے یا یہ کہ کسی تحریک سے دہشت گردی کا لیبل کیسے ہٹایا جائے یا یہ کہ بنیاد پرستی کو کس آڑ میں رکھ کر آگے بڑھا جائے، بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی۔ یہ سارے اعمال انتخابات کی آس میں یا انتخابات کا یقین ہو جانے، جی ہاں ایسے ملکوں میں انتخابات کی یقین دہانی بھی خاص مقامات سے ہی کرائی جاتی ہے، پر ہی کیے جاتے ہیں۔
لگنے لگا ہے جیسے ملک عزیز میں انتخابات ہونگے۔ کھمبیوں کی طرح نئی پارٹیوں، تحریکوں اور محاذوں کے ابھرنے سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔ پہلے تحریک لبیک یا رسول اللہ بنی جس نے دو انتخابی مہمات میں ڈینٹ ڈالے۔ بلوچستان میں نیا وزیر اعلٰی لایا گیا، بلوچستان سے ایک غیر معروف شخص کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کروایا گیا پھر بلوچستان عوامی پارٹی بنی۔ پشتون تحفظ موومنٹ شروع ہوئی اور حال ہی میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ قائم کیے جانے کا اعلان کیا گیا۔
بظاہر تو یہی لگتا ہے جیسے یہ سب کچھ پہلے سے موجود انتخابی طاقتوں کو اتھل پتھل کیے جانے کی غرض سے کیا جا رہا ہے لیکن درپردہ ایسا نہیں ہے۔ ایک مقصد تو موجود پاپولر مطالبات کو ایک خاص طرح سے اجاگر کرنا ہے دوسرا مقصد سٹیٹس کوو کی شکل کو تھوڑا سا بدل دینا ہے تاکہ کچھ عرصے کے لیے سٹیٹس کوو کے خلاف ابھر چکی سوچ کو دبائے جانے میں مدد مل سکے اور تیسرا مقصد اگر وہ ہوا تو یہ ہو سکتا ہے کہ ایک بہت ہی بکھری ہویئی پارلیمان آئے جو ایسا کچھ نہ کر پائے کہ وسیع تر مفاد کا حامل ہو مگر انفرادی طور پر دھڑوں، پارٹیوں اور افراد کی کارکردگی دیکھتے ہوئے لوگوں کا انتخاب سے متعلق زاویہ نگاہ تبدیل ہونے لگے۔
اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ غلط نہیں ہوا کرتی بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں تو اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہی وسیع تر مفاد کو فروغ دیے جانے کی غرض سے۔ ممکن ہے ہمارے ہاں بھی اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہو چلا ہو کہ اب کچھ کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اسٹیبلشمنٹ میں ہی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو جائے۔
جسے کنگز پارٹی کہا جاتا ہے وہ ایک بڑی پارٹی ہوتی ہے جس میں پہلے سے موجود سیاسی قوتوں سے بااثر لوگوں کو نکال کر ساتھ ملاتے ہوئے کچھ مزید نامور لوگوں کو شامل کر دیا جاتا ہے تاکہ مستقبل میں وہ بھی بااثر ثابت ہو سکیں۔ پھر ایسی پارٹی کی بڑی پیمانے پر تشہیر کی جاتی ہے جس کے لیے ذرائع ابلاغ کی ہر جہت کو برتا جاتا ہے۔ جن چار پارٹیوں/تحریکوں/محاذوں کے نام دیے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی مستقبل میں کنگز پارٹی بن جانے کی اہلیت نہیں رکھتی اور نہ ہی کنگز کو فی الحال ایسی کوئی ضرورت ہے۔
تحریک لبیک بریلویوں کے ووٹ کھینچے گی، عوامی جمہوری پارٹی کچھ قوم پرستوں کو اپنے ساتھ ملائے کر اور کچھ پاپولر نعروں کو مشرف بہ آئین کرکے اپنی جگہ بنائے گی، پشتون تحفظ موومنٹ طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں اور اے این پی سے قوم پرست نظریات کے حامل لوگوں کو ے ساتھ لے گی جبکہ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ سرائیکی صوبہ کے حامیوں سے لوگوں کو توڑے گا۔ الیکشن سے پہلے یہ سب اور شاید سامنے آنے والے ایسے مزید دھڑے اپنی اپنی قوت کے مطابق یا تو اپنے طور پر اور یا پہلے سے موجود کسی سیاسی قوت کے ساتھ اتحاد بنا کے یا الحاق کرکے الیکشن میں حصہ لینے سے متعلق طے کریں گے۔ ہر دو صورتوں میں پہلے سے موجود انتخابی طاقتیں کسی حد تک کمزور ہونگی اور ان نئے دھڑوں/ پارٹیوں/تحریکوں/ محاذوں کے کچھ نئے لوگ وفاقی اور صوبائی پارلیمانوں میں پہنچیں گے۔
عوام کو یوں لگے گا جیسے ان کی بات سنی جانے لگی ہو لیکن در حقیقت یہ عوام کی انقلابی سیاسی سوچ اور ممکنہ سرگرمی کو کئی برسوں کے لیے ماند کرنے کا سبب بنے گی۔ مطلب یہ کہ بہت سے مطالبے اور خواہشات کسی حد تک معدوم ہو جائیں گے۔ تو جناب امراء بھی عوام کے بارے میں سوچتے ہیں مگر آپ اور میری طرح نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی
خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی
ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر