نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

"پاسبان” عقل کی دیوانگی||ڈاکٹر مجاہد مرزا

سیاست دانوں کو دماغ کی طرح سبھاؤ والا ہونا چاہیے نہ کہ دل کی مانند جوشیلا۔ ہاں البتہ اگر دل دھڑکنا بند ہونے لگے تو دماغ کھلبلی محسوس کرنے لگتا ہے۔ پھر اگر کہیں دل یک لخت بند ہو جائے تو یہ دماغ دیوانگی میں مبتلا ہو کر نہ صرف عقل سے بیگانہ ہو جاتا ہے بلکہ دل کو بھی اپنے مرنے سے پہلے ٹھکانے لگا دیتا ہے۔

ڈاکٹر مجاہد مرزا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بہت عام پڑھا جانے والا شعر ہے:
بہتر ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھار اسے تنہا بھی چھوڑ دے
یہ شعر عموما” تب پڑھا جاتا ہے جب مدمقابل کے دلائل کا جواب دیا جانا ممکن نہیں رہتا پھر اپنے جذبات کو مقدم ٹھہرانے کی خاطر اس شعر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یوں یہ شہر اپنے طور پر ایک ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے کہ جذبات بھی بہر حال حقیقت ہوتے ہیں، ہر وقت دلائل و براہین کام نہیں آ سکتے۔ اگر کسی کو کسی شخصیت کے ساتھ چاہے وہ شخصیت مذہبی ہو یا سیاسی عقیدت ہو جاتی ہے تو آپ اس کو ایسی شخصیات کے خلاف حقائق سے متعلق کسی طور بھی قائل نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر ہمارے ایک "دانشور” دوست اٹھتے بیٹھتے شاید سوتے ہوئے بھی بس بھٹو، بے نظیر، آصف زردای کے گن گاتے ہیں، انہیں سارے نقائص شریف برادران، ان کے حواریوں، عمران خان اور ان کے پرستاروں میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے برعکس عمران کے "جاں نثار” سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عمران خان کے خلاف ایک بھی نقطہ اعتراض بولنے دیں، جواب میں پہلا لفظ جو اگر بولا نہیں تو لکھا ضرور جائے گا وہ ہوگا "لعنت!” بعد کی گردان کہیں زیادہ قبیح ہوگی۔
مگر چند روز پہلے منظر عام پر آنے والی ایک طبّی تحقیق نے معاملہ الٹا کر رکھ دیا ہے۔ معاملہ جس پر تحقیق ہوئی ہے وہ عقل و خرد کے مقابلے میں جوش و جذبات کا نہیں بلکہ دل اور دماغ کے آپس کے تعلق کا ہے۔ عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ دلائل کا تعلق عقل یا دماغ کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ جوش و جذبے یعنی عقیدت کا تعلق دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ طب کی کیمیا کے مطابق یہ درست نہیں ہے کیونکہ ہر سگنل، ہر حکم اور ہر انگیخت دماغ سے ہی ہوتی ہے۔
حالیہ تحقیق دراصل "موت” کے بارے میں ہے۔ پہلے سمجھا جاتا تھا کہ دل جب رک جائے تو دماغ کی بھی موت واقع ہو جاتی ہے۔ مگر تازہ تحقیق سے جس کے لیے چوہوں پر تجربات کیے گئے ہیں یہ ثابت ہوا ہے کہ دل مکمل طور پر رک جانے کے بعد دماغ فوری طور پر نہیں مرتا بلکہ ایک ڈیڑھ منٹ تک زندہ رہتا ہے۔ اپنے ساتھی دل کے گہری نیند سو جانے پر بہت زیادہ جذباتی ہو کر اسے پھر سے ساتھ ملانے کے جوش میں سگنلوں کی اتنی بھرمار کر دیتا ہے جو اس دل کے لیے جو شاید کسی طرح جی جاتا، بے حد ضرر رساں ہوتے ہیں۔ سائنسدانوں نے ان چوہوں کے جن کے دل مکمل طور پر دھڑکنا بند ہو گئے تھے، حرام مغز کو کاٹ کر ان کے دماغوں کا ان کے دل کے ساتھ رابطہ منقطع کر دیا تو ایسے چوہے ان چوہوں کی نسبت جن کا دل ودماغ کا رابطہ بحال رہا، زیادہ دیر تک جی پائے۔ ثابت یہ ہوا کہ دل بند ہوتے ہی دماغ انتہائی بے چین ہو کر "ڈوپامین” اور "سیروٹنین” جیسے کیمیائی سگنل بہت زیادہ مقدار میں دل کو بھیجنے لگتا ہے۔ ان میں سے ایک کیمیائی مادہ خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے اور دوسرا بہت مستعد کرتا ہے۔ دل تو پہلے ہی معلول ہوتا ہے چنانچہ اسے بہت ضرر پہنچتا ہے۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ شاید یہی وجہ ہو کہ موت کے قریب سے واپس ہونے والے لوگ بہت خوش اور مستعد ہونے کا ذکر کرتے ہیں۔ چونکہ تجربات چوہوں پر ہوئے ہیں اس لیے تیقّن ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ انسان میں یہ عمل کیسا ہوتا ہوگا۔
اس تجربے سے ایک عمرانی نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ عقل کی بہت زیادہ "مہربانی” دل یعنی جوش و جذبے دوسرے معنوں میں عقیدت کے لیے زہر ہلاہل ثابت ہو سکتی ہے۔ عقیدت مند اپنے دل کو ہلاک نہیں کرنا چاہتے اس لیے وہ عقل کو زیادہ قریب نہیں آنے دیتے بلکہ وہ عقل یعنی دماغ سے اتنی ہی "ڈوپامین” اور "سیروٹنین” وصول کرتے ہیں جو انہیں خوش رکھ سکے اور وہ مستعدی کے ساتھ اپنے دل کی کہی بات پر جمے رہیں۔
ہمارے سیاستدان شاید اس تجربے سے پہلے بھی اس حقیقت سے آشنا تھے کہ لوگوں کے دل نہیں رکنے چاہییں، دماغوں کا کیا ہے کونسا ان سے بہت زیادہ لوگوں نے بہت زیادہ کام لینا ہے بس اتنا ہو کہ وہ بھیجوں میں قائم رہیں اور اپنا عمومی کام عام طور پر سرانجام دیتے رہیں۔ دماغوں میں دیوانگی درکار نہیں۔ خاص طور پر ہمارے ملک کے سیاست دان لوگوں کے دلوں پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔ ان کے دماغوں پر قبضہ کرنے کے لیے تو الطاف حسین ہونا پڑتا ہے۔ الطاف حسین چاہیں تو عمران خان پر انڈے اور ٹماٹر پھنکوا دیں اور چاہیں تو پھول۔ یہ فن نہ ذوالفقار علی بھٹو کو آتا تھا نہ بے نظیر کو اور نہ ہر بات میں اپنے ربع صدی پہلے ختم ہوئے کھیل کا ذکر کرنے والے سابق کھلاڑی سیاستدان عمران خان کو۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ سیاست ہو یا معیشت تاحتٰی مذہب جیسا جذباتی سمجھا جانے والا معاملہ مذہب ہی کیوں نہ ہو اگر عقل و خرد سے دور ہوا جائے تو سیاست آمریت بن جاتی ہے، معیشت لوٹ کھسوٹ کا نطام ثابت ہوتا ہے اور مذہب انتہاپسندی و دہشت گردی کا لبادہ اوڑھ لیتا ہے۔ دل تو ایک مسلسل کام کرنے والا "پمپ” ہے جس کا کام پورے جسم کو خون فراہم کرنا ہے تاکہ سارے اعضا صحت مند رہیں اور دماغ ان سب کو اپنے اپنے افعال سرانجام دینے کے معقوول و مناسب سگنل بھیجتا رہے۔ یہ بھی نہیں کہ کہ تمام اعضا بھٹک نہیں سکتے یعنی بیمار نہیں پڑ سکتے۔ اس طرح وہ دماغ سے ملنے والے سگنل غلط لے سکتے ہیں، ان سگنل کے مطابق عمل کم یا زیادہ کر سکتے ہیں یا وہ سگنل قبول ہی نہیں کر سکتے۔ ایسے میں دماغ اپنا کام کیے جاتا ہے لیکن ان خاص مقامات پر بے بس ہو جاتا ہے۔
یہی مثال سیاست دانوں کی ہے کہ وہ دماغ کی مثل ہوتے ہیں۔ لوگوں کی ان کے ساتھ عقیدت اور جوش و جذبہ ان کی پارٹی کے جسم میں دوڑنے والا خون ہوتا ہے جبکہ پارٹی آرگنز پارٹی کے جسمانی اعضاء ہوتے ہیں۔ جب پارٹی کے کچھ عناصر یا کچھ ادارے سیاستدان کے بھیجے ہوئے سگنل درست طور پر وصول نہیں کرتے تو وہ پارٹی میں مرض کی علامت ہوتے ہیں۔ پارٹیاں اپنے طور پر ایک جسم ہوتی ہیں جن میں انسانی جسم کی طرح اپنے طور پر ایک مدافعتی نظام ہوتا ہے جو جسم میں جگہ پالینے والے بیرونی یا غیر عناصر جیسے جراثیم یا پھپھوندی یا جسم کے اندر موجود خلیات میں خرابی سے نمٹ سکتا ہے۔ بصورت دیگر باہر سے دوائی دینی پڑ جاتی ہے یا جراحی کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
سیاست دانوں کو دماغ کی طرح سبھاؤ والا ہونا چاہیے نہ کہ دل کی مانند جوشیلا۔ ہاں البتہ اگر دل دھڑکنا بند ہونے لگے تو دماغ کھلبلی محسوس کرنے لگتا ہے۔ پھر اگر کہیں دل یک لخت بند ہو جائے تو یہ دماغ دیوانگی میں مبتلا ہو کر نہ صرف عقل سے بیگانہ ہو جاتا ہے بلکہ دل کو بھی اپنے مرنے سے پہلے ٹھکانے لگا دیتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

آج 10 ستمبر ہے۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

سرائیکی صوبہ تحریک،تاریخ دا ہک پناں۔۔۔ مجاہد جتوئی

خواجہ فریدؒ دی کافی اچ ’’تخت لہور‘‘ دی بحث ۔۔۔مجاہد جتوئی

ڈاکٹر اظہر علی! تمہارے لیے نوحہ نہ قصیدہ۔۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

ڈاکٹر مجاہد مرزا کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author