حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدھ کی شام پشاور میں شروع ہونے والا تحریک انصاف کا جلسہ بہرطور ایک بڑا پاور شو تھا۔ یہ اعتراض درست نہیں کہ اس میں مقامی لوگ کم تھے اور دیگر اضلاع سے آئے ہوئے لوگ زیادہ۔
اب تقریباً ساری سیاسی جماعتیں کسی بڑے اجتماع کے انعقاد کے لئے جلسہ والے شہر تک افرادی قوت پہنچاتی ہیں۔ لوگ خود آئیں یا انہیں لایا جائے۔ بہرحال جس جماعت نے جلسہ کرنا ہوتا ہے وہ اپنی ضرورتوں کا خیال کرتی ہے۔
پشاور کا انتخاب غالباً اس لئے کیا گیا کہ خیبر پختونخوا میں پچھلے پونے دس سال سے تحریک انصاف برسراقتدار ہے۔ یقیناً اس جلسہ کی کامیابی کے لئے وزیراعلیٰ محمود خان نے وہ ہر کوشش کی جو ان کی جگہ کوئی دوسرا وزیراعلیٰ ہوتا تو کرتا یا کسی دوسری جماعت کا جلسہ ہوتا اور وزیراعلیٰ اس کا تو وہ بھی یہی کرتا۔
جلسہ اچھا تھا، بدانتظامیاں حسب سابق تھیں اور تقاریر وہ زہر میں ڈوبے ہوئے الفاظوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان والے علی امین گنڈاپور کی تقریر پر انصافیوں نے سب سے زیادہ داد دی اس سے سمجھ لیجئے کہ آگے چل کر کیا ہوگا۔ ہمارا سماج اس وقت جہاں کھڑا ہے یہ قابل فخر مقام کیا ہوتا قابل ذکر بھی نہیں اسی لئے تو علی امین گنڈاپور جیسے لوگ بھرے جلسوں میں بدزبانی کرکے داد پاتے ہیں۔
ہمارے ملتانی پیر صاحب نے حسب سابق دھواں دھار تقریر پھڑکائی۔ وزیراعلیٰ محمود خان کو اپنے منصب کا خیال کرنا چاہیے تھا۔
عمران خان نے جلسہ سے خطاب کیا۔ خیال تھا کہ وہ اپنے پونے چار سالہ دوراقتدار کی کارکردگی کارکنوں اور ہمدردوں کے سامنے رکھیں گے لیکن انہوں نے وہی ڈی چوک والی تقریر ہی کی چند اضافی الفاظ کے ساتھ۔ عدلیہ بحالی تحریک (پرویز مشرف دور والے) میں دی گئی اپنی قربانی کا ذکر کرکے پوچھا میں نے ایسا کیا کیا تھا کہ رات کو عدالتیں کھل گئیں۔
یہ کہتے پوچھتے انہوں نے اس وقت کو یاد نہیں کیا جب رات کو ہی ایک عدالت لگی تھی اور حنیف عباسی کو سزادی گئی تھی تاکہ انتخابی میدان مضبوط مخالف امیدوار سے خالی ہو۔
انہوں نے پھر امریکی دھمکی، سازش اور غداری کے پاپ کارن بیچے اور ملک کو امریکہ سے آزاد کرانے کی تحریک کے آغاز کا اعلان کیا۔
خان صاحب کی تقریر سے قبل ان کی جماعت کے چند رہنمائوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے لئے نامناسب الفاظ استعمال کئے مگر خان نے اپنی جدوجہد کو اس بیانیہ سے جوڑنے کی کوشش کی کہ بھٹو کو امریکہ نے اقتدار سے ہٹوایا اور پھانسی دلوائی تھی۔
ان کا خیال ہے کہ امریکہ ان کے خلاف ہے اس نے انہیں اقتدار سے نکلوایا گیا ہے۔ اپنے مخالفین کا انہوں نے پھر تمسخر اڑایا ان کے حامی مخالف سیاسی جماعتوں کے خلاف ناروا نعرے لگاتے رہے۔ خان صاحب کو بھی امید رکھنی چاہیے کہ ان کے مخالفین بھی انہیں پھولوں کے گل دستے نہیں بھجوائیں گے وہ بھی اونچے سُروں میں راگ ملہاری گائیں گے پھر یہ شکوہ فضول ہوگا کہ دیکھو میرے خاندان یا چند عزیزوں بارے کیا کہا جارہا ہے۔
وہ چاہیں تو ایسی صورتحال کو پیدا ہونے سے روک سکتے ہیں خود بھی ڈھنگ سے بات کریں ورکروں اور حامیوں کی تربیت کریں اور علی امین گنڈا پور جیسے بدزبانوں سے خود کو تھوڑا سا فاصلے پر رکھیں۔
ان کے حامی بھی یہ نہ کہا کریں کہ اس طرح کی سیاست اور زبان (ن) لیگ والے استعمال کرتے تھے۔ (ن) لیگ منافع سمیت بہت کچھ وصول کرچکی بلکہ انصافی تو اسے آجکل سود ادا کررہے ہیں۔
زیادہ بہتر ہوتا پشاور کے جلسہ میں اپنی پونے چار سال کی کارکردگی لوگوں کے سامنے رکھتے، کامیابیوں کی تفصیل بتانے اور ناکامی کے بارےمیں اعتراف کرتے ہوئے وہ یہ بھی بیان کرتے کہ کہاں کہاں ناکامی ہوئی اور اس کی وجہ یہ ہے۔
تحریک انصاف کے پشاور والے جلسہ میں تقریباً وہی نعرے لگے جو پچھلے چند دنوں سے لگائے جارہے ہیں یہ نعرے درست یا غلط ہیں ان کا فیصلہ تحریک انصاف کو کرنا ہے ظاہر ہے کوئی بھی سیاسی جماعت اپنی جدوجہد اور عصری صورتحال کے مطابق ہی لوگوں کے جذبات ابھارتی ہے۔
تحریک انصاف کی قیادت ان نعروں کو آج اپنے لئے درست سمجھتی ہے لیکن اپنے دور اقتدار میں ایسے ہی نعروں کو ملک دشمنی قرار دیتی تھی۔
انہوں نے اعلان کیا کہ میں عام انتخابات کے اعلان اور انعقاد تک سڑکوں پر ہی رہوں گا۔ یہ بھی ان کا سیاسی و جمہوری حق ہے۔ بالکل وہ حکومت وقت پر اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دبائو بڑھائیں البتہ ان سے ایک درخواست ہے کہ مخالفین کے لئے زہر میں بھرے جملے، انہیں غدار قرار دینے اور ایسی فضا بنانے سے گریز کریں جس سے ہر گلی میں میریٹ ہوٹل والا منظر دیکھنے کو ملے۔ خاکم بدہن ایسا ہوا تو اس کا جو نتیجہ نکلے گا وہ سب کو بھگتنا پڑے گا سب میں خود خان صاحب بھی شامل ہیں۔
ان کی امریکی سازش والی کہانی ویسے زیادہ دیر فروخت نہیں ہوگی۔
عارف نقوی والے معاملے میں اپنے لئے بجتی خطرے کی گھنٹیاں سن کر انہوں نے جو ترپ کا پتہ کھیلا اس بار یہ دائو شاید انہیں وہ کامیابی نہ دلاپائے جس کی انہیں امید ہے۔
ان کی جماعت کا موقف یقیناً یہ ہوگا کہ انتقامی کارروائی ہے دیکھا ہم نہ کہتے تھے امریکہ ہمارا دشمن ہے لیکن مسائل بہر طور پیدا ہوں گے۔
اسی طرح فارنگ فنڈنگ کیس کا معاملہ بھی ہے جسے ضرورت سے زیادہ لٹکوالیا گیا تھا ، ایک تماشا ان سکینڈلوں پر کارروائی کی صورت میں بھی لگ سکتا ہے جو خود ان کے دور میں سامنے آئے اور کارروائی کے اعلان تک محدود رہے۔
ظاہر ہے اگر اس طرح ہوا تو جواب ہوگا ہم سے انتقام لیا جارہا ہے۔ پشاور جلسہ میں انہوں نے جو سب سے بڑی غیرذمہ دارانہ بات کی وہ یہ تھی کہ موجودہ حکومت کے دور میں ایٹمی پروگرام خطرے میں ہے۔
ان کے بقول ’’اس ملک کے ایٹمی پروگرام کو چوروں کی حکومت پر نہیں چھوڑا جاسکتا‘‘۔
ان کے حامیوں کے نزدیک یہ الہامی کلام کی طرح مقدس بات ہوگی مگر حقیقت یہ ہے کہ اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایٹمی پروگرام شروع کرنے والی پیپلزپارٹی اور ایٹمی دھماکے کرنے والی (ن) لیگ ہی ہے۔
خان صاحب نے اصل میں اپنے غداری کے الزام میں رنگ بھرنے کے لئے یہ الزام اچھال تو دیا لیکن شعوری طور پر وہ اس سے بے بہرہ ہیں کہ اس کا فائدہ کون اٹھائے گا ان کے حامی اس الزام کے بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے بھارتی ذرائع ابلاغ کی دھمالوں سے انہیں ضرور آگاہ کریں ۔
پشاور کے جلسہ نے یہ بہرحال طے کردیا ہے کہ اب شہر شہر ڈی چوک والے جلسے ہوں گے اور وہی زبان بھی استعمال ہوگی۔ جوابی غزلیں بھی پیش ہوں گی اس کا نتیجہ لیڈروں کے لئے ذاتی مراسم تج دینے والی مخلوق کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔
البتہ یہ امر بہرصورت مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ یہ غدار غدار کی سیاست اور علی امین گنڈاپور جیسی زبان دانی شعوری طورپر روکی نہ کی گئی تو بات "دور تلک” جانے کا اندیشہ ہے۔
کاش میدان سیاست میں موجود مختلف الخیال دوستوں کو صورتحال کا احساس ہوجائے۔
کالم یہاں تک لکھ پایا تھا کہ ایک دوست نے مسلم لیگ (ن) لندن کے رہنمائوں کی ایک ویڈیو بھیجی جس میں لیگی رہنما اتوار کو عمران خان کی سابق اہلیہ جمائما خان کے گھر کے باہر احتجاج کرنے کا اعلان کررہے ہیں۔
ہماری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ یہ (ن) لیگ کا صریحاً غلط فیصلہ ہے۔ محترمہ جمائما خان، عمران خان کی سابق اہلیہ ہیں خان کی سیاست سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
عمران خان کے بچے اگر اپنی والدہ کے پاس مقیم ہیں تو یہ برطانوی قانون کے مطابق ہے۔ ہم ذاتی طور پر میاں نوازشریف کے لندن والے گھر کے باہر انصافیوں کے مظاہرے وغیرہ کو بھی درست نہیں سمجھتے۔ اسی لئے اگر لندن میں (ن) لیگی جمائما خان کے گھر کے باہر ’’میلہ‘‘ لگاتے ہیں تو یہ بھی غلط ہوگا۔
انصافیوں اور (ن) لیگیوں دونوں کو پاکستانی سیاست کا گند برطانیہ میں اچھالنے اور اپنے طرزعمل سے قانونی مسائل پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر