حکومت نے ریکارڈ نوکریوں کے دعوے کیے تھے. جو سب دھرے کے دھرے رہ گئے. معاشی ترقی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اقتصادی شرح نمومسلسل گرتی چلی گئی اور افراط زرمیں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا.
یوسف نون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران خان کئی اعتبار سے خوش قسمت رہے کہ؛ بطور کھلاڑی کیئر کے آغاز سے اب تک ڈھیروں شہرت سمیٹی، خاصے مقبول اور چنداں متنازعہ بھی رہے ہیں. اب عمران خان ساڑھے تین سال سے زائد کا عرصہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پرفائز رہنے کے بعد عدم اعتماد کاشکار ہوچلے ہیں تو ایک کثیرطبقہ خاص طور پر نوجوان نسل اس معاملے کو لے کرخاصی جذباتی دکھائی دیتے ہیں. اس فیصلے کے خلاف لوگ سڑکوں پر بھی نکلے نظرآئے. ایک خاص نسل و طبقہ خان صاحب سے جذباتی جڑت رکھتاہے، آخر کیوں نہ جذباتی ہوں ،عمران خان ان کاسب سے زیادہ پسندیدہ، ایماندار، دلیر اور اسلام مخالف طاقتوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے والا خود دارلیڈر تھا. اصل حقائق کیاہیں؟ خان صاحب کیا کچھ تھے یا ہیں؟ اس سوال کی تشنگی کے باوجود ایک اور سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ جیسا اور جوکچھ ہم سوچ اور سمجھ رہے ہیں کیایہ ایک سادہ سی حقیقت (reality) ہے؟ یاپھرکہیں یہ کوئی مصنوعی یاتشکیلی حقیقت (hyperreality) تو ترتیب نہیں دی گئی ؟ جو کچھ ہم سوچ رہے ہیں، سمجھ رہے ہیں یاکہہ اور کر رہے ہیں کم از کم وہ اتنی سادہ حقیقت تو ہرگز نہیں ہوسکتی . عمران خان اور ان کی ٹیم خاص طور پر سوشل میڈیائی ٹیم اور بہت سے ٹی وی چینلوں نے ایسی ہائپر رئیل صورتحال کو پیدا کرنے اور اسے آگے تک پھیلانے میں پچھلے کئی سالوں سے اہم کردار ادا کیاہے. جس کا خان صاحب آج بھی خاطر خواہ ثمر اٹھارہے ہیں. یہ تشکیلی یانقلی حقیقت (hyperreality) آخر ہے کیا؟ یہ اصل یا اصلی حقیقت اور تشکیلی حقیقت کے درمیان شعور کا ایک طرح سے دھوکہ ہے. یہ صورتِ حال جب لمبے عرصہ تک سایہ فگن رہے تو اصل اور نقل یا تشکیلی صورت حال میں تمیز کرنے کی صلاحیت سلب ہو کر رہ جاتی ہے. جس کے نتیجے میں تشکیلی صورت حال زیادہ حقیقی اور پرکشش لگنے لگتی ہے. ایسی صورت حال میں ہرحقیقت تشکیل کردہ حقیقت کے آگے ہیچ ہے. ایسی صورت حال نہایت خطرناک ہوتی ہے اور یہ انسانی ذہن وجذبات پر اثر انداز ہوکر اسے جکڑ لیتی ہے. آج یہ قوم ایسی ہی تشکیلی صورت حال سے دوچار ہے. جس نے نسلِ نو کے ساتھ ساتھ اچھے بھلے بزرگ پڑھے لکھوں، دانش مندوں، استادوں، قوم پرستوں، غریبوں، ذرداروں، مذہبی اور لبرلز، تمام کو برابر اپنی جکڑ بندیوں میں جکڑا ہواہے. ان کے لیے حقیقت ، حقیقت نہیں رہی بلکہ تشکیلی حقیقت یا نقلی حقیقت کے طور پر آج ہمارے سامنے ہے. ان کے لیے وہی کچھ سچ ہے جو تشکیل دے کر بَنا بنایا اور پکا پکایا انہیں پیش کیاگیا جسے صرف وہی محسوس کرسکتے ہیں . اسی تشکیلی سچ کووہ اپنے اردگرد محسوس کرتے ہیں اور اس کاجواز اسی سوسائٹی سے ہی تلاشتے کی کوشش کرتے ہیں.
ہائپررئیلٹی ایک طرح سے سماجی صورت حال ہے جسے سب سے پہلے فرانسیسی سماجی نظریہ ساز پروفیسر ژاں بادریلا نے ستر کی دہائی میں دریافت کیا تھا، ہائپر رئیلٹی مابعدجدید صورتحال کوسمجھنے میں کئی طرح سے ممدد و معاون ہے. یہ ایسی صورت حال ہےجس میں کوئی بھی چیز یا نظریہ قائم باالذات یا اصلی و حقیقی نہیں رہتا.
وہ لوگ جو تحریکِ انصاف کی حکومت سے نالاں تھے اور مہنگائی کارونا روتے تھکتے نہیں تھے، حکومت کی پالیسوں کے ایسے سخت ناقد بھی آج اسی ہائپر ریئل تیر سے شکار ہوچلے ہیں. اور عمران خان کاساتھ دینے کےلیے ہرحدسے گزرجانے کوتیار بیٹھے ہیں. شاید آج ان کے لیے حقائق ہی بدل چکے ہوں یاپھر وہ خود ان حقائق کو مسخ کردینے پرتلے ہوئے ہیں. انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ؛ معیشت کی کایا کلپ کر دینے کے دعوے داروں نے معیشت کے ساتھ کیسا کھلواڑ کیاہے؟ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے بھوکوں مرنے کوترجیح دینے والوں نے سابقہ تمام حکومتوں کے ریکارڈز کس طور توڑے ہیں؟ مہنگائی اور غربت ختم کرنے کے دعوؤں نےغریب کوہی مکاڈالاہے. یہ وہی عوام ہے جو خود ہی موازنہ کرتے تھے کہ: تحریکِ انصاف کے دورِ حکومت میں امریکی ڈالر 105 سے بڑھ کر 180 سےاوپر پہنچ گیاہے، پیٹرول کو 80 سے بڑھا کر 150سے اوپرتک پہنچایاگیاہے, ڈیزل کو75سے اٹھا کر 140سے بھی اوپر پہنچادیاہے. سریا80روپے کلوسے بڑھکر 200 کے قریب پہنچ گیاہے. سیمنٹ 500 سے بڑھ کر 900 تک ہوچکی ہے. کسان کے ساتھ بہت براہوا، کھادیں مہنگی ہونے کے باوجود ناپائید رہیں. گھریلو استعمال کا گیس کئی گُنا تک مہنگا کردیاگیا، بجلی 6 روپے سے 40 روپے فی یونٹ پر پہنچ چکی ہے. گھی اور ککنگ آئل پانچ سوکے قریب پہنچا ہوا ہے، آٹا 40 روپے کلو سے 80 روپے تک پہنچا ہے. چاول سوروپے کلوسے بڑھ کر 200 روپے کے قریب پہنچ گیاہے، چینی 50 روپے سے 100 روپے فی کلو ہوچلی تھی. اس طرح مختلف اشیائے خورد و نوش تباہ کن نرخوں پر پہنچ چکی ہیں جو اب تک مزدور طبقے کی قوت خرید سے باہر ہیں. کپڑا جو ھم عام لوگوں کو 500 روپے پر ملتا تھا اب وہ 1500 روپے سے کم پر نہیں ملتا.اب یہ سب اس غریب عوام کی ترجیحات نہیں رہیں، شاید اب ان کی ترجیح صرف اور صرف ہائپررئیل کردار عمران خان ہیں.
کم ہوتی عوامی قوت خرید کی طرف جب بھی حکومتی توجہ دلائی جاتی تھی تو وزیرو مشیرعالمی سطح پر بڑھنے والی مہنگائی دکھا کر پاکستان کو سستا ترین ملک گردانتے تھےاور سب اچھا کاراگ الاپ کر طفلِ تسلی سے خوب کام چلایا جاتا. ایسے سقراطوں سے کسی نے پوچھنا تک گوارانہ کیا کہ پاکستان اور دیگر یورپی ممالک، جن کا مہنگائی میں موازنہ کیاجاتاہے کبھی توان سے اپنے ملک کے لوگوں کی فی کس آمدنی کے موازنے کی زحمت بھی گوارہ کرلیتےیا فی کس آمدنی میں اضافے کے لیے کچھ عملی اقدام بھی اٹھائے ہوتے.
بیرونی قرضے جو 70سالوں میں 25 ھزار ارب روپے تھے خان صاحب کی نااہل حکومت نے 3 سالوں میں 30 ھزار ارب روپے اضافے سے 55 ھزار ارب روپے تک کیوں کر پہنچا دیئے؟ معاشی معاملات سابقہ حکومتوں میں بھی اچھے نہ تھے مگرتحریک انصاف کے دورِ حکومت میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ اور قرضوں کے بڑھتے حجم کی صورت حال مزید گھمبیرتر ہوتی گئی. خان صاحب کی عدم دلچسپی یاسابقہ حکومت سے مختلف ترجیحات کے سبب سی پیک ایسا میگا پراجیکٹ بھی کھٹائی میں پڑگیا.
خان صاحب کے پاس صرف ایک احتساب کانعرہ بچا تھا وہ بھی بہت ہی بری طرح پٹا، احتساب تو کسی کا ممکن نہ ہو پایا مگر اپوزیشن نے اس نعرے کا مذاق خوب اڑایا. اپوزیشن احتساب کے نعرے کوفراڈ اور بدترین انتقام ضرور قرار دینے لگی. حکومت کے اپنے لوگوں کے چینی گندم اور ادویات کے کروڑوں کے سیکنڈل سامنے آئے، ان کا احتساب بھی عمل میں نہ آسکا.
حکومت نے ریکارڈ نوکریوں کے دعوے کیے تھے. جو سب دھرے کے دھرے رہ گئے. معاشی ترقی کے تمام تر دعوؤں کے باوجود اقتصادی شرح نمومسلسل گرتی چلی گئی اور افراط زرمیں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا.
خان صاحب کی حکومت کومسلسل انتظامی ناکامی کاسامنا کرناپڑاجب کسی چیز کی طلب میں اضافہ ہوتا تو رسد میں شدید کمی ہوجاتی. انتظامی بدنظمی کے سبب امپورٹ بروقت نہ ہوسکنے پر زندگی کی بنیادی اشیائےصرف میں بھی عوام کوبحران دیکھنے پڑے.
میڈیاکی آزادی کی باتیں کرنے والوں نے میڈیا کی آزادی سلب کرلی. میڈیاکے خلاف کئی قوانین سامنے آئے جن کے خلاف اقوامی اور بین الاقوامی سطح پراحتجاج دیکھے جاتے رہے. صحافت سے جڑے احباب کاکہناہے کہ اس دور میں میڈیا پر پابندیاں سابقہ حکومتوں، حتیٰ کہ مشرف دور سے بھی بدتر رہیں . اپنے من پسند میڈیائی ادارے ہمیشہ کی طرح بے لگام رہے. سوشل میڈیا کومکمل طورپراپنے کنٹرول میں رکھنے کےلیے ریگولر اتھارٹی کے قیام کے لیے بھی کوششیں ہوتی رہیں جو ناکام ہوئیں.
ان تمام ناکامیوں کے باوجود آج بھی عوام خان صاحب کے ساتھ ہے؟ اگر ہاں تو آخر کیوں کر ایساہے؟ آخر اس ساری صورت حال کا کچھ تو سبب ہوگا؟ جی ہاں بالکل کئی اسباب ہوسکتے ہیں . جن میں ایک اہم اور بڑا سبب خان صاحب اور ان کی میڈیائی اور بالخصوص سوشل میڈیائی ٹیم کی انتھک کوششیں ہیں، جو آج بھی بار آور ہو رہی ہیں. جنہوں نے عام وخاص کے لیے ہائپر ریلٹی کی صورت حال پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے. سامراجی اور طاقتور طبقات حقیقت کو تشکیلی حقیقت میں بدلنے کے لیے طاقت اور مراسلت کے ذرائع مثلاً برقی میڈیا پرنٹ میڈیا اور سائبر دنیا ؛ تمام سوشل میڈیا اور ویب سائٹس وغیرہ کو آلہ کار کے طور پر برتی ہیں. بادریلا نے شاید بجاہی کہا تھاکہ؛ عوام کے نزدیک حقیقت فقط وہی ہے جو انہیں دکھائی جاتی ہے. اسی لیے لوگ اصل حقیقتوں میں نہیں بلکہ تشکیلی اور میڈیائی حقیقتوں اور شبیہوں میں جیتے ہیں.
تحریک انصاف بھی ایسے میڈیا ہی کی پیداوار ہے. عمران خان نے انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں میڈیاپر پابندی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بڑے فخرسے کہاتھاکہ: برطانیہ سے کہیں زیادہ پاکستان کامیڈیا آزاد ہے. مثال کے طور پراپنے آپ کوسامنے رکھاکہ اس میڈیا نے سب سے زیادہ اور بڑافائدہ خود انہیں پہنچایاہے. ان کی حکومت بھی سوشل میڈیا کی وجہ سے وجود میں آئی، کیونکہ اسی کے سبب ان کا پیغام نوجوان نسل تک پہنچاہے. تحریکِ انصاف نے اس مقصد کے لیے نچلی سطح تک سوشل میڈیائی ٹیموں کاڈھانچہ تشکیل دیا تھا. جو باقاعدگی اور تنددہی سے اپنے فرائض سر انجام دیتارہا. میری. چھوٹی سی دور دراز کی بستی کے کئی نوجوان بھی اس ٹیم کاحصہ رہے. ٹیگر فورس ایک طرح سے خان صاحب کی نجی فورس ہی تھی، جسے سوشل میڈیائی نوعیت کی ایک الگ ٹیم کہاجائے تو غلط نہ ہوگا. جس کی تشکیل کا مقصد بھی ایسے بہت سے مقاصد کاحصول ہی تھا. تحریکِ انصاف کے ان اقدامات نے نسلِ نو کو خاطرخواہ متاثرکیا. اور آج یہی نسل ہی ہے جو سب سے زیادہ متاثرہ یعنی ہائپر ریئلٹی کاشکار ہے. ان کے نزدیک تو رئیلٹی بلکہ اصل سے زیادہ رئیلٹی ہی وہی ہے جوان کے سامنے پیش کی گئی یا جس طور بَنا سنوار کر دکھائی گئی ہے. ایسی نسل جنہیں یوتھیے کے لقب سے موسوم کیا جارہا ہے، ان میں جذبات ہیں، غصہ ہے. دلیل کے جواب میں نعرہ یا گالی ہے . یہ سب غیر نہیں بلکہ ہمارےہیں، اپنے ہیں، ہمارا مستقبل ہیں. یہ قابل نفرت تو ہرگزنہیں بلکہ کچھ زیادہ قابلِ توجہ اور قابلِ رحم ضرور ہیں. وہ جو کہتے ہیں، جو سوچتے ہیں اور جس کے ساتھ کھڑے ہیں یہی ان کے لیے حق اور سچ ہے. اس میں ان کا قصور ہی کیا ہے؟ دراصل ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیاہے. تشکیلی کردہ حقیقت ہی ان کے لیے بڑی حقیقت ہے. وہ ان تشکیلے گئےحقائق سے کس طور روگردانی کرسکتے ہیں.
دراصل یہاں سچ اور جھوٹ گڈمڈہیں، اصل اور نقل میں فرق نہیں ہوپارہا، بلکہ نقل کو اصل اور اصل کو نقل سمجھاجانےلگا ہے. اب تو سچائی کو جھوٹ کے درِ اقدس سے سچائی کی سند درکار ہے. یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو از خود موجود نہیں تھی. اسے بُناگیا، بَنایا گیا اور تشکیل دیاگیاہے. تشکیلی چیز اصل کہاں ہوسکتی ہے، یہ ہوتی تونقل ہے مگر اس کااثراصل اور حقیقت سے بڑھ کرہے. اس لیے تو اسے حقیقی سے بھی بڑھ کر حقیقی سمجھا جارہا ہے. اب تحریکِ انصاف نہیں بلکہ عمران خان ہائپررئیل کردار کے طور پرتشکیل پاچکےہیں. ان کی شہرت بامِ عروج پرہے. ڈھیرشہرت سمیٹ چکے ہیں. اب وہ عام کردار نہیں رہے. عمران خان ہائپررئیل کردارہیں، سلطان ٹیپوہیں ، ارطغرل ہیں بلکہ پورے عالم اسلام کے لیڈر یا خلیفتہ المسلمین بنادیئے گئے ہیں. وہ ایک ایماندار، نڈر اور دلیر لیڈر ہیں،اور پتہ نہیں کیا کیاکچھ. جبکہ انہیں ساتھی یا کابینہ (یعنی کہ پارٹی) بھی ٹھیک نہیں ملی ورنہ وہ خود تو بہت ایماندار اور قوم کاحقیقی درد رکھنے والے تھے . ان کے چاہنے والوں کی وفاداریاں بدلیں تو کئی قریبی کرپٹ، بےایمان اور بکاؤ کہلائے وغیرہ وغیرہ. جس طور میڈیا اور سوشل میڈیا کے توسط سے عمران خان ایک تشکیلی حقیقت کا کردار دھار چکے ہیں، اب وہ ایک ایسی قوم تیارکرنے کی کوشش کررہ کررہے ہیں جو جذباتیت میں ان کے ایک اشارے پر ہرحد سے گزرجانے کوتیار رہے .
ایسی صورتحال میں مابعدجدید مفکرین اور ناقدین پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہائپر رئیلٹی کی ایسی صورت حال کا ردتشکیلی جائزہ لیں اوراس صورت حال میں حقیقت کو تشکیلی حقیقت سے جداکرکے نسل نو کو ایسی نقلی اور مصنوعی صورت حال سے نکالنے میں اپنااہم اور قلیدی کردار اداکریں. ورنہ ہرآنے والی حکومت اس رواج کو آگے تک لے کرچلے گی، ایک ہائپررئیلٹی کودبانے کے لیے کئی مزید ہائپررئیلٹیز کاسہارا لیاجاتارہےگا. قوم کی حقیقی دانش کہیں منوں من ہائپررئیلٹیز کے نیچے دب کر ہی رہ جائے گی.
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر