حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خان صاحب (عمران خان) رخصت ہوئے۔ ان کے خلاف متحدہ اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لائی تھی۔ اس تحریک عدم اعتماد کے لئے پچھلے برس اکتوبر سے اپوزیشن کے مختلف الخیال رہنما کھلے بندوں باتیں کررہے تھے۔
خان صاحب نے اس تحریک عدم اعتماد کو ایک مبینہ امریکی دھمکی آمیز خط سے جوڑا اور دعویٰ کیا کہ امریکہ نے مجھے آزاد خارجہ پالیسی اور روس کا دورہ کرنے کی سزا دینے کی ٹھان لی ہے۔
اپوزیشن امریکی سازش میں مہرہ بنی ہوئی ہےان کے بقول دھمکی آمیز خط 7 مارچ کو موصول ہوا ۔مگر انہوں نے اپوزیشن پر الزام لگانے کیلئے پورے 20دن انتظار کیا۔ ہماری رائے میں سفارتی کیبل کا من پسند استعمال ہوا۔
سازش دھمکی اور غداری کے الزاماتی سودے انہوں نے اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لئے گھڑے۔ یہ الزام سو نہیں پچاس فیصد بھی درست ہوتا تو وہ 20دن انتظار نہ کرتے۔ انتظار ان کے مزاج کا حصہ ہی نہیں۔
تحریک عدم اعتماد کا سیاسی انداز میں مقابلہ کرنے کی بجائے انہوں نے سازشی تھیوری کی ہنڈیا چولہے پر چڑھادی۔ نیشنل سیکورٹی کمیٹی (یہ وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی ہے) کے اجلاس کے بعد وزیراعظم ہائوس سے جو پریس ریلیز جاری ہوا وہ ان کے الزامات موقف سے مختلف ہے۔
عسکری حکام نے ان کے موقف کی تائید نہیں کی۔ بلکہ ان کی جانب سے انہیں بتادیا گیا تھا کہ سفارتی کیبل اور اپوزیشن میں تعلق نہیں ڈھونڈا جاسکا لیکن چونکہ وہ بیانیہ بناچکے تھے اس لئے پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہ ہوئے۔
ماضی میں جس سپریم کورٹ نے انہیں صادق و امین قرار دیا تھا آج اسی سپریم کورٹ کے فیصلے پر انہیں افسوس ہے۔ پارلیمانی سیاست میں چند دائوپیچ کھیل کر انہوں نے اپنے لئے مشکلات پیدا کیں بالآخر اسد قیصر کو بَلی چڑھاکر رخصت ہوگئے۔
تحریک عدم اعتماد کا جمہوری انداز میں مقابلہ کرتے تو ان کی تکریم اور سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ ہوتا۔ بہرطور انہوں نے جو درست سمجھا اس پر عمل کیا۔
وزیراعظم ہائوس میں ہفتہ کی شام سوا سات بجے سے رات پونے بارہ بجے کے درمیان کیا ہوا، کہانیاں ہیں، دعوے، افواہیں ہیں کچھ راویوں کی روایات ہیں یا پھر بی بی سی کی ایک خبر۔ آئی ایس پی آر کی اس خبر کے حوالے سے تردید موثر رہے گی یا الٹ پڑے گی اس پر کوئی دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ درست ہے کہ انہوں نے ہفتہ اور اتوار کی شب دس سوا دس بجے کے قریب اپنے آئینی اختیارات استعمال کرنے کی کوشش ضرور کی۔ راوی کہتا ہے عملی کوشش سے زیادہ یہ مشورہ تھا۔ کوشش یا مشورہ اصلیت خان ہی جانتا ہے۔
البتہ میں اس بات کو نہیں سمجھ پایا کہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب پرویز خٹک اور بابر اعوان، زرداری ہائوس کی زیارت کو کیوں گئے تھے۔
ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ پیپلزپارٹی تک یہ پیشکش لے جانے کی کہ ’’اگر شہباز شریف کی بجائے آصف علی زرداری متحدہ اپوزیشن سے پیپلزپارٹی کا وزیراعظم تسلیم کروالیں تو استعفیٰ دیا جاسکتا ہے‘‘۔
پیغام لے جانے والے زرداری ہائوس کے گیٹ پر دس منٹ انتظار کے بعد واپس لوٹ گئے۔ اس واپسی کے بارے میں دو باتیں بتائی جارہی ہیں ایک یہ کہ گارڈز نے بتایا کہ زرداری اور بلاول سوچکے ہیں۔
دوسری یہ کہ دونوں گھر پر نہیں۔ پہلی بات وہ ہے جسے پرویز خٹک تسلیم کرتے ہیں۔ ہماری رائے میں دوسری بات درست ہوگی پہلی نہیں وجہ اس کی یہ ہے کہ آصف علی زرداری کو جو لوگ جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اپنے ملازمین کو یہ تاکید کرتے رہتے ہیں کہ ملاقات کے لئے آنے والے کی زحمت میرے آرام سے زیادہ اہم ہے کسی تاخیر کے بغیر اور وقت کا خیال رکھے بغیر مجھے ملاقاتی کے بارے میں آگاہ کیا جائے۔
دوسری بات اس لئے درست ہے کہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب متحدہ اپوزیشن کا مشاورتی اجلاس معمول سے زیادہ طویل ہوگیا تھا۔ پرویز خٹک اور بابر اعوان کیا خود سے کوئی پیشکش کرنے کی جرأت کرسکتے ہیں؟
بابر اعوان تو خیر کسی قطار میں نہیں پرویز خٹک پرانے سیاسی کارکن ہیں، گھاٹ گھاٹ اور جماعت جاعت گھومے شخص، سیاسی اتارچڑھائو پر گہری نگاہ رکھنے والے، ان کے بارے میں یہ کہا سوچا جاسکتا ہے کہ انہوں نے یہ مشورہ دیا ہوگا اور پذیرائی پر بابر اعوان کو لے کر زرداری ہائوس کی طرف نکل کھڑے ہوئے ہوں گے
لیکن ان کے بارے میں ہی یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ آئینی اختیارات استعمال کرنے کی مشاورت والی کہانی انہوں نے آگے بھیجی۔ ہوبھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہواس لئے سکتا ہے کہ ان کے عسکری حکام سے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔
نہیں اس لئے کہ اگر وزیراعظم نے آئینی اختیارات استعمال کرنے کے بارے میں سوچا تھا یا مشورہ کیا اور پھر عملی قدم اٹھانا چاہا، تو اس میں پرویز خٹک سے زیادہ سیکرٹری دفاع کا کردار اہم ہے کیونکہ آئینی اختیارات کے تحت جاری کئے جانے والے حکم پر نوٹیفکیشن سیکرٹری دفاع کے دستخطوں سے جاری ہونا تھا۔
کیا پرویز خٹک نے وزارت دفاع کے کسی افسر کو یہ ہدایت کی تھی کہ جب تک میں نہ کہوں سیکرٹری دفاع کو کسی بات کا پتہ نہیں چلنا چاہیے؟ راوی کا دعویٰ یہی ہے کہ ایسا ہوا تھا۔
اب آجایئے اس کہانی کی طرف جو بی بی سی نے شائع کی اور آئی ایس پی آر نے اسے صحافتی اخلاقیات کے منافی قرار دیتے ہوئے معاملہ بی بی سی کی انتظامیے سے اٹھانے کا کہا ہے۔
اس کہانی میں بنیادی جھول یہ ہے کہ اس کے تانے بانے جن اوقات میں بُنے گئے ان اوقات سے لگ بھگ اڑھائی گھنٹے قبل وہ ملاقات ہوچکی تھی۔ خان صاحب نے سوا سات بجے والی ملاقات کے بعد متعدد ملاقاتیں کیں۔ دوبار تو وہ اپنے پسندیدہ صحافیوں اور اینکروں کو ملے۔ مشاورتی اجلاس، وفاقی کابینہ کا اجلاس، سوا دس بجے عسکری حکام کے ایک وفد سے ملاقات۔ اس کے بعد سپیکر، فوادچودھری، پرویز خٹک، شاہ محمود قریشی سے ایک اور اہم مشاورت۔
یہاں سوال یہ ہے کہ سوا سات بجے کے بعد کی ملاقات میں کوئی ناخوشگوار بات (جیسا کہ بی بی سی نے دعویٰ کیا ہے) ہوئی ہوتی تو خبر کو پَر لگ سکتے تھے۔
یہ ضرور ہے کہ شدید ذہنی دبائو میں تھے ہفتہ کو دن بھر وزیراعظم کچھ چڑچڑے بھی رہے۔ ذرائع کے مطابق سوا سات بجے والی ملاقات میں کچھ تلخی بھی ہوئی۔ وزیراعظم نے اس تلخی کا خود اس کے بعد ذکر بھی کیا مگر ان کے الفاظ (روایت کے مطابق یہ تھے) ’’ان کا کہنا تھا کہ مسائل پیدا کرنے کی بجائے مسئلہ کے حل کی طرف بڑھا جائے۔ جو لوگ مجھے محاذ آرائی کا مشورہ دے رہے ہیں انہیں صورتحال کا احساس نہیں۔ میں نے جواب دیا مخالفین کی سازش کو بے نقاب کرنے کیلئے میں آخری دم تک لڑوں گا‘‘۔
اگر یہ روایت درست ہے تو دونوں طرف سے ایک ایک بات ہوئی۔ اس سے زیادہ کیا ہوا یہ عمران خان خود بتاسکتے ہیں۔
ہاں اگر وہ اپنے اعلان اور وعدے کے مطابق اتوار کی شام اپنی اپیل پر ہونے والے احتجاج میں خود شرکت کرتے تو افواہیں اور کہانیاں دم توڑسکتی تھیں۔
اتوار کی شام یقیناً احتجاج ہوا اور موثر احتجاج ہوا۔ عشا کے بعد ہونے والے اس احتجاج کی فوٹو شاپ تصویروں سے قطع نظر بھرپور احتجاج تھا لیکن پرامن حالات میں موثر مظاہروں اور لمبی سیاسی جدوجہد میں بہت فرق ہے۔
کیا یہ اپر لوئر کلاس، مڈل اور اپر مڈل کلاس اس لمبی سیاسی جدوجہد میں یہی جوش و خروش قائم رکھ پائے گی جو موسموں اور ریاست کی سختیوں کو خاطر میں لائے بغیر کیجاتی ہے؟
فی الوقت اس پر نقد تبصرہ قبل از وقت ہوگا۔ البتہ اتوار کو عشاکے بعد ہونے والے احتجاج کے بعض نعرے وہی تھی جو پی ٹی ایم والے لگاتے تھے یا دوسرے بلوچ سندھی اور پشتون قوم پرست یا پھر وہ دوسرے طبقات جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری نسل کشی کے پیچھے ریاست کھڑی ہے
یاد پڑتا ہے کہ اتوار کی شب چند مخصوص نعرے لگانے والی مخلوق ماضی میں کہا کرتی تھی فوج کے خلاف نعرے بازی ملک دشمنی ہے۔
اسی طرح کے کچھ نعرے پچھلے کچھ عرصہ میں (ن) لیگ کے کارکنوں نے لگائے تو ان کے خلاف کیا کیا باتیں نہیں ہوئیں اب صرف خان صاحب اقتدار سے الگ ہوئے ہیں تو ان کے حامی طبقات وہی نعرے لگارہے ہیں جنہیں لگانے والے کل غدار قرار پاتے تھے۔
فقیر راحموں کہتے ہیں "پارٹی ابھی شروع ہوئی ہے ابھی عشائیہ ہوا ہے، بریک فاسٹ اور لنچ کے اوقات میں جب پارٹی ہوگی تو جذبوں کا امتحان ہوگا "۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ کل تک جرنیل شاہی کے خلاف موجود فہم کو ملک دشمنی، بھارت نوازی، ٹوڈی پنا قرار دینے والوں کے پاس اپنے تازہ رویوں اور نعروں کا کیا جواب ہے؟
خیر سوال جواب فریقین کا مسئلہ ہے ہمیں کیا۔ مکرر عرض ہے کہ خان صاحب اگر مبینہ دھمکی آمیز خط کی بروقت تحقیقات کی ذمہ داری نبھالیتے تو فائدے میں رہتے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے کمرشل لبرل اور کمرشل ترقی پسندوں کی امریکہ دشمنی والی ہانڈی میں اُبال آیا ہوا ہے اور ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کا ورد کرنے والوں کو فروع دین یاد آرہے ہیں۔ان کی خدمت میں یہی عرض کیا جاسکتا ہے
’’لگیاں نے روٹیاں تے لائی رکھیں مالکا‘‘۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر