حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کئے دیتا ہوں کہ مبینہ دھمکی آمیز سازش اور بیرونی فنڈنگ والا ڈرامہ آزادانہ تحقیقات کی صورت میں عالی جناب عمران خان اور ان کے دو وزیروں اور ایک مشیر کے گلے پڑسکتا ہے۔
خط حقیقت تھا تو 7مارچ سے 27مارچ کے درمیانی عرصہ میں اسے پنکھے جھلنے کی بجائے کسی تاخیر کے بغیر نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا جاتا اور فیصلہ کرکے حکومت سیدھا سپریم کورٹ جاتی اور کہتی یہ ہیں ثبوت اور نیشنل سکیورٹی کونسل کا فیصلہ لیجئے۔ اب ان غداروں کے خلاف کارروائی کیجئے۔
حکومت نے ایسا نہیں کیا اس کی تین وجوہات تھیں پہلی یہ کہ عمران خان کو ایجنسیاں بتاچکی تھیں کہ اتحادی ساتھ چھوڑنے وا لے ہیں ان کی حکومت اکثریت سے محروم ہوچکی (ظاہری طور پر اس وقت تھی) اس لئے قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے اس متاثرہ نسل کو نئے جھوٹ سے بھڑکانے کا فیصلہ کیا گیا جو عالی جناب کو دیوتا اور باقی سب کو دھرتی پر بوجھ سمجھتی ہے۔
یہ کام قانونی کارروائی کے مقابلہ میں زیادہ آسان تھا۔ 27مارچ کو یہی کیا گیا۔ اس گھڑے ہوئے جھوٹ کی ایک اور وجہ الیکشن کمیشن میں تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کا کیس ہے اس کیس میں اہم بات اسرائیلی، امریکی اور بھارتی شہریوں سے لی گئی فنڈنگ ہے۔
انہوں نے سوچا حکومت تو جارہی ہے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے ایسا کچھ کیا جائے جس سے ان کی حکومت کی خرابیوں اور دوسرے معاملات پر اٹھتے سوالات کو اپوزیشن پر غداری کا الزام لگاکر من پسند فضا بنالی جائے۔
عالی جناب چونکہ نفرت کی سیاست کی کھیتی بوتے آئے ہیں اس لئے انہوں نے ایک نفرت اور سہی پر سب کچھ دائو پر لگادیا۔ کسی کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی کہ شاہ محمود قریشی، فواد چودھری اور بابر اعوان اس سازش کا پرجوش کردار کیوں بنے۔ ان تینوں کی اپنی اپنی محرومیاں ہیں۔
عالی جناب کا موقف درست ہوتا تو وہی کرتے جو ابتدائی سطور میں عرض کیا ہے۔ موقف اور الزام دونوں صریحاً غلط تھے اور ہیں بالکل ویسا سفید جھوٹ ہے جیسا ’’میں نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار کیا وہ میرا دشمن ہوگیا‘‘
ان کے اس موقف کی نہ صرف عسکری حکام بلکہ مشیر قومی سلامتی معید یوسف بھی تردید کرچکے۔ ان کے حامی اب بھی اسی پر اچھل کود رہے ہیں۔ خان نے امریکہ کو اڈے دینے سے انکار وہ دشمن ہوگیا۔
’’سفارتی کیبل‘‘ کے حوالے سے تفصیل کے ساتھ اس کالم میں عرض کرچکا مکرر عرض ہے سفارتی کیبل کا وہ متن ہی نہیں جس پر خان نفرت بھری سیاست کی عمارت بلند کئے ہوئے ہے۔ چلئے مان لیتے ہیں خان سچا ہے۔ سازش اور غداری کے الزام درست ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیا نیشنل سکیورٹی کمیٹی جیسے قومی سلامتی کے ادارے میں موجود مسلح افواج اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان یہ بھی امریکی سازش کا حصہ تھے اور ہیں کہ انہوں نے غدار اپوزیشن کے خلاف فوری کارروائی کی منظوری نہیں دی؟
معاف کیجئے گا ایسا نہیں ہے حقیقت کچھ مختلف ہے۔ وہ یہ کہ ملک کو سیاسی، اخلاقی، معاشی اور سفارتی بحرانوں میں دھکیلنے والے عمران خان بنیادی طور پر ہٹ دھرم شخص ہیں اپنی غلطی وہ کبھی نہیں مانتے انہیں ہمیشہ سے یہ زعم ہے کہ صرف وہ سچے ہیں اور باقی سب جھوٹے۔ پارسائی کے خبط عظمت کا شکار ہیں وہ۔
پچھلے کم و بیش 20سالوں سے ہر شخص کو چور، ڈاکو، لٹیرا، غدار، ملک دشمن قرار دینے والے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ وہ گوئبلز کا دیسی جنم ہیں۔ جھوٹا اتنا بولو کہ سچ مانا جائے۔
ساعت بھر کے لئے رکئے حزب اختلاف والے بھی فرشتے ہرگز نہیں۔ اسی سماج اور زمین سے اٹھے لوگ ہیں یقیناً ان سے غلطیاں ہوئی ہوں گی، خامیاں بھی ہوں گی۔
جہاں تک کرپشن کا معاملہ ہے تو ہمیشہ ان سطور میں عرض کیا کرپشن ایک مسئلہ ضرور ہے یہ کہنا کہ سب سے بڑا مسئلہ ہے یا صرف سیاستدان کرتے ہیں یہ سفید جھوٹ ہے۔
عالی جناب کو لانے والے وہی ہیں جو نصف صدی سے سیاستدانوں کی برائیوں میں مصروف ہیں تاکہ ان کی لوٹ مار اور دھن راج پر نگاہ پڑے نہ سوال ہو۔
بہت احترام کے ساتھ خان صاحب نے کسی کے بیانیہ کو اپنی سیاست کا بیانیہ بنایا۔ جن کا بیانیہ تھا وہ پوری طاقت سے ان کی پشت پر کھڑے ہوئے اکتوبر 2011ء کے بعد سے پھر جو ہوا سب کے سامنے ہے۔
ہر شخص کو گالی دو پگڑی اچھالو سارے چور ہیں۔ خود ان کے ساتھ سادھو سنت کتنے ہیں، کتنے سکینڈل آئے ان کے دور میں، ادویات سے شروع کیجئے، چینی، گندم، راولپنڈی رنگ روڈ، بی آر ٹی، مالم جبہ، توشہ خانہ "پنجاب کی ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ” ان میں سے کسی ایک کا فیصلہ ہوا؟
خان صاحب کہا کرتے تھے ایمنٹسی سکیم سے ڈاکو فائدہ اٹھاتے ہیں خود انہوں نے مشرف دور میں اس سکیم سے فائدہ اٹھایا ان کی ہمشیرہ نے ان کی وزارت عظمیٰ میں۔
ہم ان سارے معاملات کو چھوڑ بھی دیں تو تلخ ترین سوال یہ ہے کہ ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کرکے سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کا ڈاکخانہ بنانے والوں کو قومی غیرت اور آزاد ملک کا وقار کیوں یاد نہ آیا؟
اب جو جمعرات کی شام سے عدلیہ پر انک ے ہمنوا ڈالروں سے پیٹ بھرنے کا الزام لگارہے ہیں یہ کیا ہے؟
خان صاحب کی سیاست کا خمیر نفرت اور جھوٹ سے گندھا ہوا ہے انہیں ان دو باتوں کے سوا آتا بھی کچھ نہیں ان کے حامی جن میں زیادہ تر سابق پپلے ہیں نوازشریف کی صاحبزادی کے لئے جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ کس مذہب، عقیدے اور سماجی روایات کے تحت درست ہے؟
انہیں کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ انہوں نے جھوٹ بویا نفرت اوڑھی اور ملک کو ہر حوالے سے برباد کر کے رکھ دیا۔
یہ سب غلط ہوگا مان لیتے ہیں اگر وہ صرف جرأت کا مظاہرہ کرکے دو باتوں کی حقیقت اس قوم کو بتادیں، اولاً یہ کہ امریکہ کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کیا طے پایا تھا۔ کیا ان کے دورہ امریکہ کے دوران وائٹ ہائوس میں اس وقت کے صدر ٹرمپ نے انہیں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارت کے اگلے اقدام پر جو اُسی سال 5اگست کو ہوا، اعتماد میں نہیں لیا تھا؟
ثانیاً یہ کہ وہ ہمت کرکے عوام کو اس شخص کا نام بتادیں جس نے انہیں کہا تھا کہ حکومت نوازشریف کے بیرون ملک علاج کے لئے جانے کی راہ میں حائل نہ ہو؟
عالی جناب دونوں باتیں نہیں بتائیں گے ، وہ اب بھی جس نفرت بھرے الزام کو اپنی سیاست کا رزق بنانے کے لئے اتاولے ہیں یہ نفرت ان کے گلے بھی پڑسکتی ہے۔
پونے چار سال ان کی حکومت کے ہر چھوٹے بڑے نے اپوزیشن کو منہ بھر کے گالیاں دینے کے علاوہ کیا کیا؟ ذرائع ابلاغ کا منہ بند کرنے کیلئے پیکا آرڈیننس لائے ، بات تلخ ہے لیکن دیوتا سمان عمران خان تو حلفاً یہ بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں کہ عثمان بزدار خالصتاً ان کا انتخاب تھا۔
کہتے ہیں میں نے امریکہ کو اڈے نہیں دیئے وہ میرا دشمن ہوگیا ارے واہ اقتدار بچانے کے لئے بزدار قربان کرکے پنجاب کی وزارت اعلیٰ پرویزالٰہی کو پیش کرنے والے سے امریکہ ڈرے گا۔
امریکہ کو اڈے جنرل پرویز مشرف نے دیئے تھے تب جنرل مشرف، خان صاحب کا محبوب اول تھا۔ آپ کے اس ریفرنڈم میں چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔
2002ء کی اسمبلی میں آپ نے مولانا فضل الرحمن کو ووٹ دیا جب وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار تھے۔ جی ڈی اے، اے پی ڈی ایم اور نوازشریف دور کی متحدہ اپوزیشن میں یہی چور ڈاکو لٹیرے آپ کے اتحادی تھے یا آپ ان کے اتحادی۔
اپوزیشن غدار ہے تو کیوں آپ نے 20دن وہ خط سنبھالے رکھا 20دنوں میں تو لمبے چوڑے ٹرائل کی ضرورت نہیں تھی، ثبوت بقول آپ کے سفارتی خط ہے اب تک تو اپوزیشن رہنمائوں کو غداری کے الزام میں سزائیں ہوجانا چاہئیں تھیں۔
غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عسکری حکام نے کم از کم دو بار تحریری طور پر صحافیوں کے سوال کے جواب میں غداری کے آپ کے الزام کی تائید کیوں نہیں کی؟
ان مالکان سے جو نفرت کی سیاست کے بیانیہ پر آپ کو لائے مسلط کیا، کسی کو ہمدردی نہیں ، ہونی بھی نہیں چاہیے انہیں بھی اپنی بوئی فصل سے اب لذت دہن کے ساتھ شکم سیری کرنی چاہیے۔
تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ آپ کے دور میں سی پیک پر کام بند ہوا، چین کے احتجاج کے باوجود آپ کی حکومت نے واسو ڈیم سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جس سے بداعتمادی پیدا ہوئی۔
ذرا قوم کو یہ تو بتایئے کہ مراد سعید کے لئے چینی حکام نے کیا خط لکھا تھا؟
دروغ گوئی کی حالت یہ ہے کہ آپ چین میں سجے کھیلوں کے میدان میں تماشائی کے طور پر گئے اور یہاں پروپیگنڈہ ہوا چین نے صرف روسی صدر پیوٹن اور آپ کو سرکاری دعوت پر بلایا۔ پیوٹن سے تو چینی صدر اور دوسروں نے ملاقات کی آپ سے کیوں نہ کی؟۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر